بیچارہ مرد

کچھ عرصے پہلے عورتوں کے حوالے سے ہمارے ایک معاشرتی رویے کے متعلق ایک بلاگ تحریر کیا تھا۔کئی دوسرے اردو اور انگریزی بلاگرز نے بھی اس سلسے میں اپنا اظہاریہ تحریر کیا جسکی ایک جھلک آپ زیک وژن کی اس پوسٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے کچھ برادران ملت نے اس بات کو دل پہ لے لیا بلکہ کئی ایک نے تو اپنے ذاتی تجربات اور کچھ نے آس پاس کے مشاہدات گوش گزار کیے اور یہ موقف اپنایا کے یہ خیال مکمل طور پر درست نہیں کے معاشرتی رویوں میں گھن کی طرح پسنا صرف عورتوں کے حصے میں ہی آیا ہے بلکہ ایسے کئی معاشرتی رویے اور ثقافتی اقدار ہمارے درمیان رچ بس گئی ہیں جن کی زد میں آکر مرد کی ذات بھی کرچی کرچی ہو جایا کرتی ہے۔

اگر ہم اپنے دائرہ کار کو بر صغیر تک محدود رکھیں تو کچھ مستثنیات کے علاوہ مجموعی طور پر مرد خاندان کی نگہبانی کے فرائض انجام دیتا نظر آتا ہے۔ خصوصا شہروں میں بسنے والے لوگ جہاں ‘گھریلو عورت‘ کی اصطلاح ایک ایسی عورت کے لیے متعارف کرائی گئی جس کا دائرہ کار اپنے گھر تک محدود ہو اور اسکی ذمہ داریوں میں شوہر سے جڑی ہر چیز شامل ہو جس میں شوہر کا گھر، اسکے بچے اور خاندان والے بھی شامل ہیں۔ گو کہ بنیادی طور پر یہ عورت کی مظلومیت کو ہی ظاہر کرتی ہے لیکن اسکے پیچھے چھپی مرد کی بے کسی سے آنکھیں چرالی جاتی ہیں تاکہ ایک عورت کے استحصال کے نام پر عورتیں عورتوں کا مزید استحصال کرسکیں۔

بنیادی طور پر ایک اکیلا مرد عورتوں کے ساتھ بیٹا، بھائی اور شوہر نام کے قریبی رشتوں سے بندھا ہوا ہوتا ہے جہاں اسکی ذرا سی لغزش اسکی جنت سے بے دخلی یا جہنم جیسی زندگی پر انجام پذیر ہوتی ہے۔ خصوصا شادی شدہ مردوں کے لیے یہ تین رشتے ایک ساتھ نبھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ عورتوں کے درمیان اس فطری چپقلش میں ایک غیر جانبدار ریفری کا کردار ادا کرنے والا مرد میرے نزدیک انتہائی درجے کا مظلوم انسان ہوتا ہے۔ جہاں وہ دن بھر کی محنت سے تھکا ہارا ایک لاچار ایمپائر کے فرائض انجام دیتا نظر آتا ہے جسکا کوئی بھی فیصلہ تمام پارٹیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ بسا اوقات اسکا درست فیصلہ بھی نافرمان بیٹا، جورو کا غلام، احسان فراموش بھائی یا زن مرید جیسے القابات کے بلے بھی اسکے سینے پر سجا دیتا ہے۔

دوسری طرف ہمارا اجتماعی خاندانی نظام جہاں بہت ساری اچھائیاں لیے ہوئے ہے وقت کے ساتھ ساتھ اصلاحات نہ ہونے کے سبب اپنی افادیت کھوتا جارہا ہے خصوصا شادی بیاہ کے معاملات میں مردوں کو بھی عورتوں کی طرح خوفناک اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ گدھا باندھ کے گھوڑا ڈھونڈنے کا بے ہودہ عمل معاشرے میں اسقدر عام ہوچلا ہے کے مال و زر کے حصول کی کشمکش نے دن کا سکون اور رات کی نیند برباد کر کے رکھ دی ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش نے بھی مردوں کی اجتماعی صورت حال میں ابتری کی کیفیت پیدا کی ہے اور کئی مظاہر اس امر کے بھی ہیں جہاں عورتوں کی بے جا انا، ضد اور فرمائشی پروگرام کو پورا کرنے کے لیے مردوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی حرام ذرائع آمدن کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بہنوں کی شادیوں کے انتظار اور اس کے لیے وسائل جمع کرنے میں اپنی عمر کی شگفتگی تیاگ دینے والے مرد کی مظلومیت کا نوحہ پڑھنے والا ڈھونڈنے سے بھی ہمارے معاشرے میں نہیں ملے گا۔ جب تمام شادی کے قابل مردوں کی شادیاں موخر کی جاتی رہیں گی تو پھر عورتوں کے لیے بر کی تلاش کیوں کر کی جاسکے گی؟‌ اس سادہ سی جمع تفریق میں عورتوں کو نہ جانے کیوں برسوں لگ جاتے ہیں جس کے بعد نہ بیٹی کے لیے بر دستیاب ہوتا ہے نہ شادی اور بڑھاپے کے سہارے کے لیے بیٹا جو اپنی جوانی عورتوں کی خوشیوں کے لیے تیاگ دیتا ہے۔

خدانخواستہ میں قربانی کے جذبے کے خلاف نہیں لیکن ایسی قربانیوں سے خدا دور رکھے جو معاشرتی عدم مساوات اور معاشرے کے وسیع طبقے خصوصا نوجوان عورتوں اور مردوں میں ہذیانی کیفیت پیدا کرے۔ اور اس وجوہ کا بڑا سبب میں عورتوں کو قراد دوں گا کیونکہ ان معاملات میں عموما عورتیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور ڈھلتی عمر کے بھائی اور بیٹے کے لیے اسکے اپنے جذبات سے بے پرواہ ناک اور قد کی لمبائی اونچائی پر لڑکیوں کے ڈھیر کے ڈھیر ٹکھراتی جاتی ہیں اور آخر کار ایک بوسیدہ اور زندگی سے بیزار معاشرے کی تشکیل کرتی ہیں۔

عربوں میں اور مغربی تہذیب میں وہ لوگ جہاں خاندان کا ادارہ پوری طرح قائم ہے خاندان کے یونٹ کو وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے ٹکروں میں بانٹ دیا جاتا ہے اور شادی بیاہ کے مسائل میں ایک عاقل اور بالغ مرد و عورت کو اپنا فیصلہ کرنے کی تقریبا آزادی ہوتی ہے اور عموما فیصلے جبکہ وہ خاندانی نظام پر بٹہ نہ ہوں قبول کیے جاتے ہیں۔ جن معاشروں میں دوسری شادی کی اجازت ہے وہاں اس مسئلے کو اتنا پیچیدہ نہیں بنایا گیا جتنا ہمارے معاشرے میں بنا دیا گیا ہے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کا نظام جو بنیادی طور پر خواتین کی فلاح کے لیے بنایا گیا تھا اسے خواتین کی بربادی سمجھ لیا گیا ہے اور اس صورت حال میں اگر کوئی مرد دوسری شادی کرلے تو ہمارا معاشرہ اسکا جینا تو کیا مرنا تک دوبھر کردیتا ہے اور اس میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔ ذرا ایک ایسے گھر کا تصور ذہن میں لائیے جہاں دو بیویاں اور ایک ماں شام کو کسی مرد کے گھر آنے کا انتظار کر رہی ہیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کے کیا صرف عورت ہی مظلوم ہے؟‌

کیا عورتوں کے پاس میرے ان سوالوں کے جواب ہیں جو معاشرے میں خود کو جنم جلی، نازک کلی قرار دے ، آنسہ خود مختار بننے کی جدو جہد میں مصروف ہیں ؟‌ کیا خواتین وقت پڑھنے پر اپنی جنس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ساتھی مردوں کی ترقی میں مشکلات پیدا نہیں کرتیں؟ اور کیا یہ بھی مردوں کے معاشرے میں مردوں کا کیا گیا مرادانہ پروپیگینڈا ہے؟

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (17)

بدتمیز

May 27th, 2008 at 11:32 pm    


آپ کی تمام باتوں سے متفق ہوں بلکہ ایک سے زیادہ شادی والی بات پر تو دو دفعہ زیادہ متفق ہوں
میں نے ایسے ایک دو گھرانے دیکھے ہیں جہاں شام کو ایک ہی انتظار ہوتا ہے۔ مظلوم بندہ کب گھر آئے گا۔ ویسے ہر گھر کا یہی حال ہے۔ ایک بات جو ہم لوگوں کو سمجھ نہیں‌آتی وہ ہے حدود۔ خدانخواستہ اس کو حدود آرڈیننس نہ سمجھ لیں۔ ہم لوگ اپنی حدود کے تعین سے قاصر ہیں۔ پھر ذاتی معاملات کی ٹرم سے نا آشنا ہیں‌لہذا ایک دوسرے کے معاملات میں‌ بڑے بننے کا شوق پورا کیا جاتا ہے۔ نتیجتا بیگم بہن اور ماں تینوں ایک معصوم جان کی بھلائی کے درپے جو گل کھلاتی ہیں وہ برسوں مزا دیتے ہیں۔
آپ داماد کے معصوم رشتہ کے ذکر سے چوک گئے میرا خیال ہے ہر عورت اپنی بہو اور داماد دونوں سے نالاں رہتی ہے۔

بدتمیز

May 27th, 2008 at 11:33 pm    


یہ اردو پیڈ اپڈیٹ کر لیں۔ اگر ونڈوز میں موجود کی بورڈ ٹوگل کیا جائے تو تبصرہ کٹ کر دیتا ہے عین اس مقام سے جہاں‌سے ٹوگل کیا گیا تھا۔

ابوشامل

May 28th, 2008 at 12:10 am    


راشد صاحب! بہت خوب، آپ کی تحریر کی روایتی کاٹ اس مضمون میں بدرجہ اتم نظر آ رہی ہے۔ بہت شاندار مضمون لکھا ہے اور میں اس سے متفق بھی ہوں۔ شاید کچھ عرصہ قبل وسعت اللہ خان نے بھی مظلوم مرد کے عنوان سے کچھ لکھا تھا، ابھی تک مجھے مل نہیں سکا ورنہ آپ کو بھی ربط دے دیتا۔ ویسے شاید آپ نے خود ہی پڑھ لیا ہو۔ بہرحال جان کی امان پاؤں تو ایک تصحیح کرلوں، آپ نے ایک جگہ “مثتثنیات” کا لفظ استعمال کیا ہے، اگر میں غلطی پر نہیں تو کہیں یہ “مستثنیات” تو نہیں؟ جو مستثنٰی سے نکلا ہے؟ اگر میں غلطی پر ہوں تب بھی آگاہ کر دیجیے گا۔

اظہرالحق

May 28th, 2008 at 2:16 am    


بہت اچھا لکھا ہے ، ان سب بیماریوں کا علاج ہے اسلام ، بالغ ہونے کے فوراً بعد شادی ، اصل میں ہمارے معاشرے میں عورت کے مرد کا حصول اور مرد کے لئے عورت کا حصول اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے ، کہ لوگ نکاح سے زیادہ زنا کو آسان سمجھتے ہیں (اور واقعٰی ہی ان حالات میں آسان ہے بھی ) اور یہ ہی وجہ بھی ہے تمام تر دکھوں اور پریشانیوں کی ۔۔ ۔ مرد تو ہمیشہ سے ہی زر زن اور زمین کے لئے پھنسا رہتا ہے اور عورت ۔ ۔ یعنی زن ، زر اور زمین کے لئے مرد کو دو عورتوں کی چکی کے پاٹوں میں پیستیں ہیں ۔ ۔

راشد کامران

May 28th, 2008 at 12:41 pm    


بدتمیز صاحب ڈبل اتفاق کا شکریہ :) واقعی داماد تو شاید سب سے مظلوم مرد ہے لیکن نکتہ یہ ہے کے جب خونی رشتے بے حسی کی حدیں پار کرسکتے ہیں تو پھر قانونی رشتوں میں تو حدیں ہی نہیں خاص طور پر گھر داماد تو گویا بہو سے زیادہ مظلوم۔ ورڈ پیڈ کی نشاندہی کا شکریہ پہلی فرصت میں اسے اپڈیٹ کرلوں گا۔

شامل صاحب تبصرے اور پسندیدگی کا شکریہ۔۔ غلطی کی نشاندہی کرنے کا بھی شکریہ آپ نے بالکل درست ہجے کی ہے۔۔ قلم سے اردو نہ لکھنے کے سبب کئی الفاظ کی ہجے میں تذبذب کا شکار رہنے لگا ہوں لیکن آپ حضرات نشاندہی کردیتے ہیں تو املا کی غلطیاں دور ہوجاتی ہیں۔۔

اظہر صاحب تعریف کا شکریہ ۔۔ بلاشبہ اسلام تمام معاشرتی برائیوں کا علاج ہے جب کے اسے اسکی سادگی اور اصل کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ آپ نی نکاح و زنا کی بات سے میں دو سو فیصد متفق ہوں

میرا پاکستان

May 28th, 2008 at 1:28 pm    


اگر ہم تھوڑا غرو کریں تو برائی کی سب سے بڑی جڑ بے عقلی ہوتی ہے۔ اگر آدمی یا عورت تھوڑا سا بھی عقل کا استعمال کریں کہ تو مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے۔ ہاں اگر آپ اپنی ضد پر اڑ جائیں تو پھر دنیا کا کوئی انسان آپ کو ٹھیک نہیں‌کرسکتا۔ دراصل ہمارا معاشرہ انپڑھ زیادہ ہونے کی وجہ سے گھریلو تنازعات کا زیادہ شکار رہتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر مرد عقل مند ہو گا تو سو طریقوں سے بیوی اور ماں‌میں‌توازن برقرار رکھ سکے گا۔ یہی حال ماں کا ہے اگر وہ عقل مند ہوئی تو بہو کو بیٹی بنا کر رکھنے میں‌ہی اپنا فائدہ سمجھے گی لیکن اگر بیوقوف ہوئی تو خود بھی پریشان ہوگی اور بیٹے اور بہو کو بھی پریشان رکھے گی۔

ماوراء

May 29th, 2008 at 4:11 am    


راشد صاحب، آپ کے عنوان سے میں مکمل طور پر متفق ہوں۔ “بےچارہ مرد“ ۔

دوسری بات کہ بےچارہ سارا دن بلکہ ساری زندگی کا ہر دن کام کر بیوی، بچوں کے لیے کماتا ہے۔ اور جب گھر آئے تو بیوی یا گھریلو جھگڑے سامنے کھڑے ہوں تو میں بہت اچھی طرح مرد کی بیچارگی کو محسوس کر سکتی ہوں۔
ابھی کچھ دن پہلے میں امی سے اسی پر بحث کر رہی تھی کہ ہمارے ملک میں اتنا بڑا خاندان ہوتا ہے اور کمانے والا صرف ایک۔ اسی لیے تو ہمارے زیادہ لوگ غریب ہیں۔ اگر گھر کا ہر فرد، ماں، بہن، بیوی سب مل کر کام کریں تو کوئی کسی پر بوجھ نہ بنے اور نہ ہی عورتوں کو فارغ رہتے ہوئے فضول مسائل کھڑا کرنے کی سوجھے۔ ہمارے ملک کی عورتوں کی بہت بڑی تعداد فارغ ہوتی ہے، اور ان کا کام کیا ہوتا ہے؟ دوسرے کی برائیاں کرنا، دوسروں کے حالات ڈسکس کرنا۔۔ یہ نہ ہو تو اپنے ہی گھر میں ساس، بہو، نندوں کے لیے مسائل پیدا کرنا۔ اور ان سب حالات کے بعد آپ دو شادیوں کی آزادی کی بات کرتے ہیں؟؟ خود آپ نے بھی کہا کہ دو بیویاں اکھٹی ہوں تو اس گھر کے حالات کیا ہوں گے؟ لیکن دو شادیاں کرنا کوئی عقلمندی یا مسائل کا حل نہیں ہے۔ خدا جانے مرد کیوں نہیں سمجھتا، ایک عورت کے لیے صرف اس کو گھر ہوتا ہے، خاوند اور بچے ہوتے ہیں۔ وہ دن رات کی محنت، محبت سے اس گھر کو بناتی ہے، اور کل کو اس کا کوئی اور مفت میں آ کر حصہ دار بن جائے؟ آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آج کے دور میں ایک عام مرد دو بیویوں سے انصاف کر سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو مرد دوسری شادی کرتے ہیں تو پہلی ان کو یاد ہی نہیں رہتی، وہ ان کو بری لگنے لگتی ہے۔ شاید دوسری پہلی سے زیادہ خوبصورت ہو تو اسی کے گن گاتے رہتے ہیں۔ پہلی بیوی کا قصور۔۔۔ ؟ اس سے بہت بہت بہتر ہے کہ پہلی کو طلاق دیں، اور دوسری شادی کریں۔ کاش کے ایک عورت بھی ایک وقت میں دو شادیاں کر سکتی ہوتی تو ہر مردوں کا ریکشن دیکھ سکتے۔

آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ ماں باپ اپنی ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں، اس میں بھی صرف ماں ، بہن کا قصور کہاں سے آ گیا، باپ بھی تو اس چیز کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت برا رواج چل پڑا ہے کہ رشتہ دیکھنے جائیں تو لڑکیوں میں ہزار خامیاں نکالی جاتی ہیں۔ اور بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس کھیل میں شامل ہو جاتے ہیں۔

ان سب باتوں میں کس کا قصور ہے؟ یہ ہمارا ایسا معاشرہ کس نے تخلیق کیا ہے؟ کسی ایک نے نہیں۔۔۔ بلکہ ہم سب نے مل کر۔۔۔ ہمارے مرد بیچارگی کی حالت تک کیوں پہنچے، انہوں نے ایسے حالات کیوں پیدا ہونے دئیے؟ اگر دیکھا جائے تو سب ہی مظلوم بن کر رہ گئے ہیں، کہ جب یہ سب کچھ معاشرے میں پنپ رہا تھا تو سب اس میں خود کو بھی شامل ہوتے گئے۔ اور حالات یہاں تک پہنچے۔

عورت مرد برابر ہیں، کوئی کسی کی راہ میں مشکلات کھڑی نہیں کر سکتا۔ مشکلات تب تک کھڑی ہوتی رہیں گی، جب تک ہم مرد اور عورت میں فرق کرتے رہیں گے۔ مل جل کر ایک ساتھ ہو کر چلیں گے تو ایسے کوئی مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔

راشد کامران

May 29th, 2008 at 11:55 am    


افضل صاحب یہ بات بالکل درست ہے کے انسان اگر تھوڑی سی عقل استعمال کرلے یا عورت یا مرد میں سے کوئی مصلحتا پسپائی اختیار کرلے تو کئی خاندان تباہ ہونے سے بچ جائیں لیکن انا کی تسکین نہ جانے انسان کو ایسا کرنے سے کیوں روکتی رہتی ہے۔

ماوراء آپ کی کئی باتیں قابل غور ہیں اور مرد عورت دونوں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت ایک خوشگوار زندگی کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ میں دوسری شادی کی وکالت نہیں کررہا نہ ہی میں نے اسے کسی ممکنہ حل کے طور پر تجویز کیا ہے ۔۔ بلکہ ہماری سوسائٹی میں دوسری شادی خودکشی کے مترادف ہے۔ لیکن ایک سے زیادہ شادیوں کا دروازہ قدرت نے صرف عورت کی بھلائی کے لیے کھلا رکھا ہے۔۔ اس کا فائدہ آپ کسی جنگ یا قدرتی آفت زدہ علاقہ جہاں مردوں کی کمی واقع ہوگئی ہو وہاں کی عورتوں سے پوچھیں۔ لیکن اللہ نے آپ کو دوسری شادی کی ترغیب نہیں دی بلکہ انصاف نہ کرنے کی صورت میں ایک ہی کا حکم دیا ہے۔ میں اس سلسلے میں بہت جلد ایک بلاگ لکھنے والا ہوں امید ہے وہاں ہم اس پر تفصیلی گفتگو کر کے دوسروں کی رائے بھی جان لیں گے اور کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کرسکیں گے۔

بدتمیز

May 29th, 2008 at 2:23 pm    


یہ ایک بہت عجیب غلط فہمی ہے جو عورتوں میں ہے کہ وہ خود کو مظلوم سمجھتی ہیں چاہے گھر کے کام کر رہی ہوں یا پھر باہر جاب یا خاوند شادی کر لے۔
خواتین گھر کے کاموں میں ہی لگی رہیں تو وقت گزر جائے۔ بہت سی خواتین گھر کے کاموں کو معیوب سمجھتی ہیں۔ وہ صرف ہانڈی روٹی کو گھر کا کام جانتی ہیں اور صفائی ستھرائی برتن اور کپڑے دھونے کو ان کو ملازمہ چاہئے۔ عورتوں کی تان ہمیشہ باہر نکل کر کام کرنے پر ٹوٹتی ہے۔ حد یہ ہے کہ گھر کے کام پورے ہوتے نہیں باہر کام کر کے تھکی ہاری عورت سوچتی ہے کہ گھر کے لئے اس نے بہت قربانی دی۔ یعنی شوق پورے کر کے بھی قربانی بھی ہو گئی۔
مفت کی حصہ دار؟ آپ نے اپنے مرد کو دوسری کرنے پر جانے ہی کیوں دیا؟ دوسری شادی کو مرد کی عیاشی سمجھا جاتا ہے اگر مرد ویسے ہی باہر منہ مارتے رہیں تو؟ اگر وہ شریعی طریقے سے لا رہا ہے تو پھر بیماری کا بھی خدشہ کم ہے اگر سو جگہ منہ مارے گا تو زیادہ چانسز ہیں کہ بیماری گھر لا سکے۔
اگر ایک عورت دو مردوں‌ سے شادی کر لیتی تو وہ کس کی بات مانتی اور کس کی نہیں؟ دونوں‌کے گھر سنبھالتی۔ ایک گھر سنبھالا جاتا نہین دو دو سنبھالتی۔
اگر ایک مرد دو عورتیں رکھ سکتا ہے توپہلی کو طلاق دے اوراس کو بے یارو مددگار چھوڑ دے۔ ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت سے شادی کرنا کون پسند کرتا ہے؟
پھر جب لڑکی کو دیکھنے جاتے ہیں تو لڑکی کے والدین اجازت ہی کیوں دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے ساتھ ایسا ہو؟ وہ نامحرم مردوں کو کیوں آنے کی اجازت دیتے ہیں؟
عورت اور مرد میں کوئی فرق ہوتا نہیں لیکن عورت خود کو برابر کرنے کے چکر میں فرق پیدا کرتی ہے۔ دیہاتوں
‌میں عورتیں‌مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں اور وہاں‌ایسے مسائل نہیں۔ شہروں میں سارا دن ڈرامہ دیکھ کر اور کوئی کام نہ کر کے مسائل کھڑے کرتی ہیں

ماوراء

May 30th, 2008 at 6:46 pm    


بدتمیز، عیاشی؟؟؟ کیا مرد بچے ہوتے ہیں؟؟ جو اپنا گھر چھوڑ کر باہر عیاشی کرتے ہیں؟ وہ ایک بیوی ہونے کے بعد دوسری کے پاس جاتا ہی کیوں ہے؟ کیا مرد اتنا گِرا ہوا ہے کہ ایسی حرکتیں کرنے پر اتر آتا ہے؟
اللہ نہ کرے کہ عورت دو شادیاں کر سکتی۔ ایک مثال دی تھی ، اور جیسے ایک عورت دو گھر نہیں سنبھال سکتی، ایسے ہی مرد بھی نہیں سنبھال سکتا۔
ساری زندگی ایک برے انسان کے ساتھ گزارنے سے بہت بہتر ہے کہ بندہ اکیلا رہ لے۔ طلاق ہو جانے کے بعد شادی نہیں ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میرا خیال ہے عورت کو اپنے پیروں پر خود کھڑا ہو چاہیے نہ کہ صرف ایک مرد کی محتاج بن کر رہ جائے۔

کچھ مجبوریاں اور کچھ رواج ۔۔۔رشتے کے لیے دوسروں کے سامنے آنا ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے، ہمارے معاشرے میں شادی کروانے کا اختیار صرف ماں باپ کے پاس ہوتا ہے۔ جو لوگ رشتہ دیکھنے آ رہے ہیں، ان کو کیسے معلوم ہو گا کہ لڑکا یا لڑکی کیسا ہے؟؟ اور سر آجکل نہ صرف لڑکیوں بلکہ لڑکوں میں بھی بہت خامیاں نکالتے ہیں۔

برابری ہی تو کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مرد سے آگے تو نہیں بڑھ رہی نا؟ مرد کس بات سے ڈرتا ہے؟ کہ عورت اس کے برابر پہنچ گئی تو اس کی مقام میں کمی آ جائے گی؟

ماوراء

May 30th, 2008 at 6:50 pm    


راشد، آپ کی اگلی پوسٹ کا انتظار رہے گا۔

بدتمیز

May 31st, 2008 at 3:46 am    


وہ ایک بیوی ہونے کے بعد دوسری کے پاس جاتا ہی کیوں ہے؟

دوسری بھی اچھی لگتی ہے نہ، اگر کسی کو دو پسند ہو تو بیچارہ کیا کرے؟

کیا مرد اتنا گِرا ہوا ہے کہ ایسی حرکتیں کرنے پر اتر آتا ہے؟

شہسوار ہی گرتے ہیں نہ

شادی کے ساتھ ایک کی محتاج ہے تو شادی کے بعد سو کی ہو گی۔ ہمارے معاشرے میں جینا حرام ہو جاتا ہے۔ اور زیادہ تر حرام کرنے والی خواتین ہی ہوتی ہیں۔

لڑکوں میں بھی بہت خامیاں نکالتے ہیں۔

سمجھدار لڑکے ایسی نوبت نہیں آنے دیتے۔ وہ شادی آنلائن میں پہنچ جاتے ہیں

برابری کافی لمبی بحث ہے۔ کیسی برابری ہونی چاہئے اس پر دونوں کا اختلاف ہے جس پر بدقسمتی سے میں عورتوں کے خیالات سے یکسر اختلاف کرتا ہوں نتیجتا وہ مجھے بےوقوف سمجھتی ہیں مجھے آپکا علم نہیں آپ کونسی برابری کے حق میں‌ہیں۔

ماوراء

May 31st, 2008 at 4:13 pm    


بدتمیز، آپ صرف منفی انداز میں سوچ رہے ہیں۔ سوچ کو وسیع کر کے سوچیں۔

محب علوی

June 1st, 2008 at 3:13 pm    


راشد آپ کی پوسٹ کا عنوان ہی ایسا ہے کہ بے اختیار پڑھنے کو دل کرتا ہے۔

ہر معاشرے اور ہر تہذیب کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں اور ان کے تناظر میں ہی معاملات کو دیکھنا پڑتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں آفاقی سچائیوں کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں جس پر چاہے پوری دنیا متفق ہو نہ ہو وہ رہتی سچ ہی ہیں۔ ایسا ہی خاندان کے معاملے میں بھی ہے چاہے یہ کچھ معاشروں اور ممالک میں ٹوٹ رہا ہے یا اس کی اہمیت کم ہو رہی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے جو قائم رہے گی اور اس کی اہمیت کبھی کم نہ ہوگی۔

عموما عورت کو مظلوم اور مرد کو ظالم گنا جاتا ہے جو کہ شاید تحریک حقوق نسواں کے مسلسل پروپیگنڈہ کا اثر ہے کہ عورت کو ہر صورت مظلوم اور مرد کو ظالم ہی سمجھا جائے بلکہ اس سے بڑھ کر مرد کو عورت کو دشمن تسلیم کیا جائے جو عورتوں کی ترقی اور کامیابی کا مخالف ہے اور ہر قیمت پر انہیں دبا کر اور محکوم بنا کر رکھنا چاہتاہے۔ کئی جگہوں پر یہ بات سچ ہے مگر بہت سی جگہوں پر جھوٹ ہے مگر اقلیتی واقعات کو اکثریتی واقعات پر ترجیح دی گئی ہے اور عورتوں کو مردوں سے جدا رہ کر جینے کی راہ دکھائی گئی ہے کہ مردوں کے ساتھ رہ کر ان کا صرف استحصال اور استعمال ہی ہو گا ۔ اس سلسلے میں تحریک نسواں کی سفارشات پڑھی جائیں تو انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ یہ کہاں جا رہی ہیں۔ اصل شے انصاف ہے جس کا فقدان ہے ورنہ کوئی بات بھی اصولوں اور انصاف کے ساتھ کی جائے تو قابل قبول ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ مردوں اور عورتوں کی نفسیات کا فرق بھی اکثریت کو یاد نہیں رہتا اور برابری بحیثیت انسان ہونی چاہیے نہ کہ آپ ہر فرق کو مٹا کر برابر کرنے پر تل جائیں۔

راشد کامران

June 2nd, 2008 at 12:17 am    


محب آپ نے تقریبابحث کا نچوڑ لکھ دیا ہے ۔۔ امید ہے ہم لوگ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے تصویر کے دونوں رخ دیکھنا سیکھ لیں گے ۔۔ ویسے بھی ہر شریف آدمی اپنی بیوی سے ڈرتا ہے ہمارے لیے تو یہی مظلومیت کافی ہے :)


[…] کے حوالے سے “ہم عورتوں کو کیوں گھورتے ہیں“ اور “بیچارہ مرد“ کے عنوان سے کچھ گزارشات عرض کی تھیں جس میں دوسری شادی […]


[…] کو عورت کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اس بارے میں راشد نے بھی کچھ لکھا تھا۔ 1۔ رشتے دیکھتے وقت ایک عورت ہی دوسری عورت کو کس طرح […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website