ہم عورتوں کو کیوں گھورتے ہیں؟

ہماری قوم کا عورتوں کے ساتھ برتاؤ کچھ عجیب قسم کا گردانا جاتا ہے۔ کہیں تو انہیں اس قدر پردے کا پابند کر دیا جاتا ہے کے راستہ دیکھنے کے لیے بھی دو بائی دو کی ایک جالی ہی میسر ہوتی ہے اور کہیں اتنا آزاد کے یورپی باشندے بھی انکی شہریت کی بابت دریافت کرتے نظر آتے ہیں۔

لیکن خاتون چاہے یورپی شہریوں کی شرمانے والی ہوں یا پھر بوری نما برقعے میں جالیوں کے پیچھےسے دنیا کا نظارا کرنے والی انکا ایک شکوہ کے “انہیں نہایت بھونڈے انداز میں گھورا جاتا ہے“ مشترکہ ہے۔ بی بی سی اردو کی ایک سیریز “بات تو کرنی پڑے گی“ کے سلسلے میں ایاز جوکھیو کی فلم “دیکھ مگر پیار سے“ بھی اس پر کچھ روشنی ڈالتی ہے وہیں ذاتی مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ واقعی ہمارے معاشرے میں کسی بھی ضرورت یا بلا ضرورت باہر نکلنے والی عورتوں کو انتہائی غلیظ طریقے سے گھورا جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے میری کچھ خواتین سے اس سلسلے میں بات ہوئی اور میں نے اس بابت ان سے دریافت کیا تو ان خواتین کا کہنا تھا کے نوجوان لڑکوں کی بنسبت پختہ یا ادھیڑ عمر مرد حضرات کا رویہ اور نظریں انتہائی مکروہ اور غلیظ ہوتی ہیں اور انکی کاٹ صرف ایک عورت ہی محسوس کرسکتی ہے ۔ غیر ملکی خواتین کا بھی یہاں کے مردوں کے بارے میں کم و بیش یہی کہنا ہے کہ وہ عجیب طریقے سے گھورتے ہیں۔

اسلام نے حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے مرد و عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں اور معاشرے میں موجود ہر خوبصورتی اور زندگی گزارنے کے لیے موجود تمام ذرائع سے لطف اٹھانے کے یکساں مواقع فراہم کیے ہیں تو پھر ہمارا یہ رویہ کس معاشرتی بیماری یا نفسیاتی مسئلے کا غماز ہے؟ ایک طرف تو ہم غیرت کے نام پر قتل کرنے میں مشہور ہیں لیکن دوسری طرف جب ایک عورت جو کسی دوسرے کی بہن، بیٹی، ماں یا بیوی ہو اسکی زندگی گھر اور گھر سے باہر اجیرن کردیتے ہیں۔۔

پاکستان جہاں آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے کیا اس معاشرے میں عورتوں کا باہر آنا اور معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے کام کرنا ناگزیر نہیں ؟ کیا ہم اپنے معاشرتی رویوں کی وجہ سے اپنی آدھی آبادی کے لیے مشکل صورتحال پیدا کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ تو اس صورت حال میں تبدیلی کا نسخہ کیا ہوگا؟‌ ہم عورتوں کو ایک انسان کے طور پر کب قبول کرنا شروع کریں گے؟ کیا اسکے لیے ہمیں ابتدائی سطح سے تعلیم کی ضرورت ہے؟ کیا گھر کی سطح سے اس کا آغاز ہوگا؟ یا مذہبی حوالے سے ہم کسی مغالطے کا شکار ہے جو تناور درخت بن کر یہ صورت اختیار کر گیا ہے؟‌ کیونکہ آج نہیں تو کل بات تو کرنی پڑے گی ۔۔۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (21)

ME

December 4th, 2007 at 7:05 am    


baat yeah hai keah hamaaray maashray main mullaiyyat aur fatway baazee kay faroog kee wajah say maashra crude aur judgmental ho giyya hai. aaurtoon ko ghoor kar dekhna bhee is maashartee crudness ka aik pehloo hai. choonkay maashray ku crude bananay main mullah kee key contribution hai isleeay is ghoornay ka zumedaar bhee ham mullah ko karar day saktay hain..

maashray main mullaiyyat aur fatway baazi kam karain aur discussion say maslay hal karnay kee aadat daalain..jab is say maashra sophisticated ho ga to ghoorna bhee band ho jai ga.

بدتمیز

December 4th, 2007 at 11:44 am    


ایسا صرف ہمارے معاشرے میں نہیں ہر جگہ ہوتا ہے۔ ہم لوگ اکثر صرف اس لئے اپنے معاشرے کی بات کرتے ہیں کیونکہ ہم وہاں سے ہیں لیکن اس کو صرف اپنے معاشرے یا اپنے معاشرے کے کسی طبقے سے جوڑ دینا ناانصافی ہے۔
امریکہ جیسے سیکس فری ملک میں‌بھی خواتین کو کھلے عام ہر جگہ اس چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرے خیال سے عورت کو دیسی لوگوں سے زیادہ افریقن امریکن زیادہ عجیب طریقے سے گھورتے ہیں یاں دیسی لوگ ٹکٹی باندھ کر دیکھتے ہیں جبکہ دونوں کی priority کا بھی فرق ہے لہذا وہ دیسیوں کو زیادہ نوٹ کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بھی میں ملائیت والے فلسفے سے متفق نہیں۔ اکثر ہم ملا پر بات ڈال کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ دراصل باہر نکل کر کام کرنے والی عورت کو لوگ مفت کا مال سمجھتے ہیں کیونکہ ایک تو ان کو علم ہے کہ یا تو بہت غریب ہیں جو کام کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا یا پھر آگے پیچھے کوئی نہیں جو مرضی کر لو۔ بنیادی طور پر یہ ملا سے قطعا ریلیٹڈ نہیں یہ صرف انصاف اور تعلیم کی کمی ہے۔
تعیلم یافتہ شخص لیکن تعلیم یافتہ، ڈگری ہولڈر نہیں، کبھی بھی ایسی حرکت نہیں کرتا۔ جیسے ہمارے صدر صاحب تک کا یہ حال ہے کہ اس بارے میں کس قدر شرمناک بیان دیا۔ اور اگر انصاف ہو تو طاقت ور لوگ بھی ایسا نہ کریں کہ ان کو کوئی بچا نہ سکے گا۔

اعجاز

December 5th, 2007 at 4:19 pm    


جی ہاں‌۔ ہمارا مشاہدہ زیادہ تر اپنے لوگوں کا ہوتا ورنہ یہ چیز ساری دنیا میں‌عام ہے، یورپ اور امریکہ میں‌بھی اسی طرح‌ہے جیسے کہ پاکستان میں۔
اور یقینا شرمناک ہے۔

woman in a men's world

December 6th, 2007 at 1:57 am    


hamare haan mardon ka aur khud auraton ka doosri auraton k bare mein aik nuqta e nazar yeh bhi hai k jo bhi aurat ghar se bahir nikalti hai uss ka maqsad kuch khas nahi hai balke woh tafreeh k liye ayee hai. lehaze uss ko ghoorna ya tang kerna aik justified amal hai

قدیر احمد

December 6th, 2007 at 12:13 pm    


معاف کیجیے گا آپ کے بلاگ پرتبصرہ نہ کر سکا کیونکہ تبصرہ تھوڑا طویل تھا ۔ کیا آپ اسے میرے بلاگ پر دیکھنا پسند کریں گے؟
http://urdublog.blogspot.com/2007/12/bad-attitude-with-women.html

راشد کامران

December 6th, 2007 at 12:47 pm    


می صاحب÷صاحبہ ۔۔ ملا کو آپ انتہا پسندانہ رویوں کے لیے تو مورد الزام ٹہرا سکتے ہیں لیکن کوئی بھی ملا آپ سے یہ نہیں کہتا کے عورتوں کو گھورو یا انکی بے عزتی کرو۔

بدتمیز ۔۔ (بدتمیز کے ساتھ صاحب لکھنا عجیب لگتا ہے)۔ یہ درست ہے کہ ایسا ہر معاشرے میں ہوتا ہے لیکن تقابلی جائزے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کے ہمارے یہاں صورت حال انتہائی خراب ہے۔۔ میں یہاں امریکہ میں انتہائی اطمینان سے اپنی پوری فیملی کسی بھی تفریحی مقام پر جاسکتا ہوں لیکن کراچی میں اپنی فیملی کے ساتھ یا تنہا بھی اب سی ویو یا مختلف پارکوں میں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔ امن و امان ایک طرف لیکن لوگوں کا رویہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔۔

اعجاز صاحب آپ کی بات بالکل درست ہے۔۔ یہ رویہ کسی بھی معاشرے کا ہو یا کسی بھی ملک کا ہو افسوسناک ہے۔۔ کیونکہ ایک انسان ہونے کے ناطے کسی کو بھی یہ اچھا نہیں لگتا کے اسے گھورا جائے۔۔

وومن ان مینز ورلڈ صاحبہ۔۔ میں آپ کو بات سے اتفاق رکھتا ہوں اور یہی کہتا ہوں کے عورتوں کا گھر سے باہر آنا ناگزیر ہے ۔ اور کسی خاتون کا مردوں سے مسکرا کر بات کرنے مطلب یہ نہیں کے وہ آپ پر فریفتہ ہوگئی ہے بلکہ۔۔ میں نے آپ کا بلاگ دیکھا ہے اور آپ کی تحریروں میں جن مسائل اور ممنکہ حل کی نشاندہی کی گئی ہے وہ لازمی خواتین کو پڑھنے چاہییں۔

قدیر صاحب۔۔ آپ نے اس بات کو آگے بڑھا کر بہت اچھا کام کیا ہے۔۔ مزید تبصرہ آپ کے بلاگ پر ہی کر رہا ہوں

ME

December 6th, 2007 at 5:28 pm    


می صاحب÷صاحبہ ۔۔ ملا کو آپ انتہا پسندانہ رویوں کے لیے تو مورد الزام ٹہرا سکتے ہیں لیکن کوئی بھی ملا آپ سے یہ نہیں کہتا کے عورتوں کو گھورو یا انکی بے عزتی کرو۔

lekin mullah aurtoon ku zindagee kay har shobay main aanay say roktay hain, aur chand mullah tu rape hoi khatoon say chaar gawa bhee maangtay hain…yeah sab ghoornay say bhee bhhut bad tar hai…

jahan tak ghoornay ka taallaq hai yeah hamaaray maashray kay primitive honay kee wajah say hai aur maashray ku primtive rakhnay main mullah ka hee sab say bra kirdaar hai…baray lambay ursay tak mullah taleem kee mukhalfat kartay rahay aur jab marodon ku nahain rok sakay tu aurtoon ku roktay rahay….jab aurtain taleem yaafta nahain hongee tu unkee aaulaad khak sophisticated hu gee?

بدتمیز

December 7th, 2007 at 12:41 am    


می کی باتوں سے قطعا متفق نہیں اس کا مطلب ہمارے معاشرے میں لادین گھرانوں‌کے سپوتوں کا ایسے واقعات میں ہاتھ نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ میرے خیال سے ایسے گھرانے جہاں کی خواتین ان پڑھ یا دس پاس تھیں کے بچوں میں یہ ریشو نہایت کم ہے۔ جبکہ زیادہ پڑھی لکھی خواتین کے بچے اوچھی حرکات میں زیادہ ملوث ہیں۔
کسی بھی شہر میں بہت کم ملا ایسے ہونگے جو می کے مطابق عورتوں کو سکول جانے سے روکتے ہونگے۔ یا پھر بڑے شہروں کے مضافاتی علاقے جو کہ ہوتے شہر میں ہی شامل ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں اولاد ایسی نکلنا تعلم کی کمی سے زیادہ غربت کے باعث ہے۔

ME

December 7th, 2007 at 1:40 am    


kiyya badtameez nay survey kiyya hai keah kon kiss category main kiyya kar raha hai? ay apnee marzee kay aadadu shumaar bagair kisee referecne kay denay say kiyya sabat hota hai?

mullah tu taleem say baray arsay say rokta aaya hai…taleem ku yeah log tanaz say “angreezeee taleem” kaha kartay thay…isleeay burray-sagheer main bhee musalmaan aam tur say taleem main doosroon say peechay rahay hain…is baat ka asar arsay tak qaim raha hai aur kafee arsay tak log larkioon ku taleem dilaanay ku avoid kartay rahay hain..

ME

December 7th, 2007 at 1:50 am    


اس کا مطلب ہمارے معاشرے میں لادین گھرانوں‌کے سپوتوں کا ایسے واقعات میں ہاتھ نہیں ہونا چاہیے۔

ladeen kon hai bhui? Pakistan main kubhee kisee ladeen say nahain mila. Pkaistan say bahir bhee siraf chand aik ladeenoon ku jaanta hoon lekin yeah log kirdaar main behtar hain.

ہم اس لئے گھورتے ہیں۔ | بدتمیز

December 7th, 2007 at 2:16 am    


[…] تھے۔ ایسے میں انہوں نے “قوفیوں” کے کہنے پر ایک تحریر لکھ دی۔ اس کے بعد فرحت نے بھی لکھی اور تو اور قبلہ و […]

ME

December 7th, 2007 at 4:36 am    


ايک دو مثالوں کو ليکر generalise کر کے اپنی مرضی کے نتائج نکالنے والے حضرات کی عقل پہ ماتم ہی کيا جا سکتا ہے- البتہ انکی مولويوں کی اندھا دھند حمايت سمجھ ميں آتی ہے، دونوں کا سوچنے کا انداز ايک ہی ہے-

ME

December 7th, 2007 at 4:37 am    


ايک دو مثالوں کو ليکر

generalise

کر کے اپنی مرضی کے نتائج نکالنے والنے حضرات کی عقل پہ ماتم ہی کيا جا سکتا ہے- البتہ انکی مولويوں کی اندھا دھند حمايت سمجھ ميں آتی ہے، دونوں کا سوچنے کا انداز ايک ہی ہے-

ساجداقبال

December 7th, 2007 at 4:38 am    


می صاحب۔۔۔معذرت کے ساتھ اگر آپ راشد کی وہ سی این آر والی تحریر پڑھتے تو شاید لنسپائر والوں سے ملا کا گٹھ جوڑ اس کی وجہ بتاتے۔ (؛
راشدبھائی میرے خیال میں اس کی وجہ صرف اور صرف تربیت ہے۔ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ 95فیصد سے زیادہ پاکستانی والدین تربیت سے مراد صرف اچھی خوراک، اچھا سکول کالج، اور اچھی رہن سہن لیتے ہیں۔ اخلاقی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور یہ معاملہ سراسر اخلاقی برائی ہے۔ والدین کا یہ حال اور تعلیمی اداروں کا توکوئی حال نہیں۔ شاید سو میں ایک ادارہ بھی مشکل سے اخلاقی تربیت کی ذمہ داری ادا کر رہا ہو۔

ME

December 7th, 2007 at 4:57 am    


می صاحب۔۔۔معذرت کے ساتھ اگر آپ راشد کی وہ سی این آر والی تحریر پڑھتے تو شاید لنسپائر والوں سے ملا کا گٹھ جوڑ اس کی وجہ بتاتے۔ (؛

yanee koi aap ya mullah say ikhtilaaf e ray na karay warna fatway baazi shroo. asal masla hee yahee hai keah kunwain say nikalna nahain chahtay aur koi mukhtalif angle say baat karay tu usko bhee kunwain main ghaseetnay kee koshish. musharraf dor main kam az kam yeah behtaree aai hai keah azaad media kee wajah say mind set main kuch tabdeelee aai hai..lekin phir bhee kuch kaam hona baqi hai :).

jab main linspire say mullah ka taalaq joron tu baray shok say iteraaz karain

ME

December 7th, 2007 at 4:59 am    


lekin mullah ka taalaq lispire say kesay ho sakay ga? mullah ka ilam say kiyya lena dena?

بدتمیز

December 7th, 2007 at 6:17 am    


می آپ کی باتوں کا تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں اور لوگ پڑھ بھی لیں گیں۔ آپ بخوشی ملا کے خلاف لکھیں کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ ایک تو کنفیوز ہیں جس کی وجہ نہ جانے آپ نے کیسے ملا دیکھ رکھے ہیں اور کہاں۔ دوسرے آپ حد درجہ جذباتی ہیں، چاہتے ہیں کہ آپ کے
generalise
باتوں کو من و عن تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کا ذکر خوامخواہ نہیں کرتے؟

ME

December 7th, 2007 at 6:26 am    


pakistan khaas kar punjab say aanay wallay shro shro main upnay aap ku buhut challak aur aql e kul khiyaal kartay hain…kionkay chotay kunwain main insaan apnay aap ku bara samjhnay ka aadee huta…..doosra bachpan kay taasubaat chootnay main time lgata hai…thura arsa maghrib main reh lain phir baat ho gee.


[…]  راشد کامران صاحب نے عورت کو گھورنے کا موضوع ایسا چھیڑا جو پھیلتا ہی جارہا ہے مگر ابھی تک ہم یہ طے نہیں کرپائے کہ مرد کو کیسے اس بدنام زمانہ عمل سے روکا جائے۔ ابھی تک فرحت صاحبہ ، بدتمیز[نام کے] صاحب اور قدیر صاحب اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔ […]

راشد کامران

December 7th, 2007 at 12:56 pm    


میرا خیال ہے اس سلسلے میں دوسرے بلاگز پر کافی پیش رفت ہوئی ہے ۔۔ اور افضل صاحب نے اسی موضوع پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے ایک پوسٹ کا وعدہ کیا ہے تو یہاں پر اس کو منقطع کرکے بحث کو افضل صاحب (میرا پاکستان) کی آنے والی پوسٹ پر منتقل کرتے ہیں تاکہ ایک مثبت طریقے سے اسکو سمیٹا جائے۔۔


[…] جائے تو عورت کو اس مسئلے پر آواز بلند کرنی چاہیے۔:D راشد کامران کی پوسٹ ایک، دو دن پہلے دیکھی تو سوچا فارغ ہو کر میں بھی […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں