حقہ ۔۔ زیر زمین وکی پیڈیا سے ایک ورق

مغل فرمانرواؤں کا ذکر چھڑے تو ہمارے ذہن میں‌ نا معلوم کیوں دو تصور ابھرتے ہیں ایک تاج محل اور دوسرا حقہ۔ گو کہ حقے نے براہ راست ہماری ذاتی زندگی میں مخل ہونے کی کوشش نہیں کی لیکن الفت کے انتہائی خطیر ذریعہ اظہار تاج محل کی شان میں رفیق حیات کی جانب سے نیک کلمات سن کر ہمارا ماتھا فوری طور پر ٹھنک گیا تھا۔  ممتاز محل کی تاج محل میں ابدی موجودگی کی اہمیت اور شاعرانہ تحریف کے شاطرانہ استعمال کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے زوجہ سے عرض کی کہ تاج محل ہے کیا چیز؟۔۔ غریبوں کی محبت کا ہنسی ٹھٹھہ؟ میری پوچھو تو

کبھی نہ ٹوٹنے والا مزار بن جاؤں ۔۔۔۔۔
تو میری ذات میں رہنے کا فیصلہ تو کرے

زوجہ پر اس تحریف کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اُس دن کے بعد الفت کے تمام تقاضے ہماری ناتواں جیب  سے ہم آہنگ ہوگئے، سچ پوچھیے تو شہنشاہ کو زیر کرلیا۔‌ ہمیں یہ احساس ہے کہ زیر تحریر مضمون حقے کی تاریخ کا بیان ہے لیکن تاج محل سے یوں صرف نظر کچھ مناسب بات نہیں یہ ہمارے پرکھوں کی نشانی ہے اور بدبخت انگریز کی وجہ سے آگرہ میں‌ ہی رہ گیا۔

حقے کی تاریخ۔
مغل شہزادوں کی تعداد اور عمر میں خاطر خواہ اضافے کے پیش نظر کہاجاتا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کچھ ایسی خواہش ظاہر کی کہ “شہزادہ بھی مرجائے اور ملکہ بھی نہ روٹھے”۔ مغل فیملی ڈاکٹر نے ظل الہٰی کے حکم کی تعمیل میں حقے کا نسخہ پیش کیا اور دربار سے وابستہ ہر فرد کے لیے حقہ کا استعمال لازمی قرار پایا۔ جہاں کسی شہزادے نے تخت شاہی کے زیادہ قریب ہونے کی کوشش کی محل کے خواجہ سراؤں نے بادشاہ کے تیور دیکھتے ہوئے چلم میں سنکھیا رکھوا دی۔ تاریخ‌ کی کتابوں میں درج ہے کہ ایک ہی کش میں شہزادہ دھویں کا مرغولا اڑانے سے پہلے ہی رحمتہ اللہ علیہ ہوجایا کرتاتھا۔ کتنے ہی ولی عہد حقے کی بدولت بادشاہ کے عہد میں ہی ولی ہوگئے‌ اور حقے سمیت سنگ مرمر سے مزین مزاروں میں پہنچادیے گئے۔ انہیں مزاروں سے حقے کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی جہاں عامی ہاتھوں میں پہنچنے کے بعد حقے کی شاہی حیثیت بری طرح متاثر ہوئی اور تمباکو کے ساتھ ساتھ کئی دوسری جڑی بوٹیاں بھی چلم کی زینت بننے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حقہ راج محل سے نکل کر بر صغیر کے گلی کوچوں میں پھیل گیا۔

حقے کی ساخت۔
کسی سیانے فرنگی کاقول ہے کہ سگریٹ کے ایک سرے پر شعلہ اور دوسرے پر احمق ہوتا ہے۔ حقے کو فرنگی سازشوں‌سے بچانے کے لیے اس کی ساخت اسطرح کی رکھی گئی ہے کہ اول تو اس قول کا اطلاق ہی نہیں‌ہوتا اور بالفرض محال اطلاق کر بھی لیا جائے تو احمق کا تعین درست طور نہیں‌ ہوپاتا۔ اس طرح کی پیچیدہ ساخت علم کیمیا اور انجینئرنگ کے مربوط اور منظم اطلاق کے بغیر ناممکن سی بات ہے۔ نالیوں کا ایک پیچیدہ نظام جہاں بلی ماراں کی گلیوں کو گہناتا ہے‌ وہیں آگ اور پانی کے ایک عظیم ملاپ کو بھی ممکن بناتا ہے جس کے لیے دین الہٰی کے عالموں کا مشترکہ فتویٰ تھا کہ باوضو دھواں حرام کیونکر ہو۔

حقے کا استعمال
حقہ بنیادی طور پر تمباکو نوش کرنے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر آپ اس کی پھکنی میں گردن پھنسا کر جان دینا چاہیں یا چلم الٹا کر بقول اقبال کسی”خوشہِ گندم” کو جلانا چاہیں‌تو پروچوائس حلقوں‌کی طرف سے آپ کو شہید ہی مانا جائے گا۔‌ غم بھلانے، مچھر بھگانے اور مکھیاں اڑانے کے لیے تو حقہ استعمال کیا ہی جاتا ہے لیکن تھوڑی بہت سعی کی جائے تو ٹائی ٹینک ڈوبنے جیسی کسی بھی صورت حال میں اس کو چپو چلانے یا برف پگھلانے جیسے عظیم منصوبوں کا حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ہوائی سفر میں حقے کی موجودگی کیوبا کے متبادل ویزے کا کام بھی کرتی ہے اور چلم گرم ہونے کی صورت میں‌ تو فرسٹ‌کلاس یا پرائیویٹ جیٹ کے ذریعے آپ کو فوری سفری سہولت بھی مل سکتی ہے۔ یوں تو حقے کے کئی اور چھوٹے بڑے استعمالات گنوائے جاسکتے ہیں لیکن حقے کا سب سے اچھا استعمال یہی ہے کہ اس کو استعمال نہ کیا جائے۔

مغل سلطنت کے عظیم الشان عہد کی نشانی کے طور پر حقہ ہمیشہ ہم میں‌رہے گا اور جب کبھی مغل سلطنت کی بات ہوگی ہم بڑے فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہزار سالہ شاندار دور کا ورثہ ہے  ایک مسجد،  چند قلعے، ایک مقبرہ اور یہ حقہ۔

Filed Under: اردو, طنزومزاح

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (17)

میرا پاکستان

April 8th, 2009 at 8:11 pm    


اچھا تو یہ خیال آپ نے ہماری تحریر سے چرایا۔ بہت خوب جناب، کیا مغلیہ تاریخ کا احاطہ کیا ہے اور آخری فقرے میں‌تو آپ نے دریا کو کوزے میں‌بند کردیا ہے۔‌اس تحریر میں‌آپ کا یہ فقرہ بھی خوب ہے “باوضو دھواں‌حرام کیوں‌کر ہو”۔

جعفر

April 8th, 2009 at 11:49 pm    


تعریف کے لئے الفاظ نہیں میرے پاس ۔۔۔

افتخار اجمل بھوپال

April 9th, 2009 at 2:06 am    


تحریر خُوب ہے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ پہلے حقہ بنا تھا یا بادشاہ اکبر پیدا ہوا تھا

ابوشامل

April 9th, 2009 at 6:09 am    


ہم تو “زیر زمین وکیپیڈیا” کی اصطلاح کے پیچھے دوڑے دوڑے آئے لیکن یہ شگفتہ تحریر پڑھ کر خوش خوش گھر کو لوٹے ہیں :)

محمد وارث

April 9th, 2009 at 11:46 pm    


راشد صاحب میں تو قتیل ہوں قبلہ آپ کے قلم کا، کیا خوبصورت اور شگفتہ انداز ہے اور بین السطور جو کچھ ہوتا ہے اس کے تو کیا کہنے!

گل خان

April 10th, 2009 at 4:30 am    


ماشااللہ بہت خوب۔ اللہ کرے زور قلم اورزیادہ۔ آمین

بس ایک گلہ ہے آپ سے کہ بہت کم کم لکھتے ہیں۔

DuFFeR - ڈفر

April 10th, 2009 at 1:45 pm    


عمدہ :)
ویسے روزگار کے لئے کس پیشے کو چنا ہے آپ نے؟

راشد کامران

April 11th, 2009 at 8:41 pm    


افضل صاحب شکریہ۔۔ امید ہے سرقہ پر درگزر کریں گے۔۔
جعفر‌ صاحب ۔۔ تبصرے کا شکریہ۔۔ آپ کا اتنا کہنا ہی حوصلہ افزائی کے لیے بہت ہے۔
افتخار اجمل صاحب۔۔تبصرے کا شکریہ۔۔ اکبر بادشاہ اور حقے کی ترتیب کے لیے بہت ماخذ تو نہیں کھنگالے لیکن وکی پیڈیا کے تاریخی حوالے اسے اکبر بادشاہ سے منسوب کرتے ہیں۔
ابوشامل صاحب۔ آپ کی نوازش ہے۔۔
محمد وارث صاحب۔۔ بہت نوازش۔۔ آپ بین السطور دیکھ پاتےہیں ۔۔محنت وصول ہوجاتی ہے۔
گل خان صاحب۔۔ آپ کے تبصرے کا شکریہ۔۔ بس کبھی زیادہ کبھی کم لکھائی چلتی رہتی ہے۔
ڈفر صاحب۔۔ شکریہ۔۔ پیشے کے لیے تو وہی سافٹ ویر انجینیری چنی ہے اور اللہ کا احسان ہے کہ خود چنی ہے چنوائی نہیں گئی ۔۔ ہی ہی ہی۔۔

کامران اصغر کامی

April 13th, 2009 at 5:17 pm    


کامران بھائی کا اقبال بلند ہو ۔۔۔۔بہت اعلی حضور کیا شان بخشی ہے حقے کو

عدنان مسعود

April 14th, 2009 at 2:49 am    


اصطلاحات و استعارات بہت خوب ہیں۔ بہت سی داد قبول کیجئے۔

اللہ کرے زور قلم اورزیادہ۔

نگہت شاہین

April 18th, 2009 at 2:46 am    


خوب جناب! انداز تحریر مین پختگی نمایاں ہے آج احساس ہوا کہ حقہ ہمارا کتنا اہم ورثہ ہے

عمر احمد بنگش

April 28th, 2009 at 1:15 pm    


لاجواب۔
انداز بیاں‌اور موضوع دونوں‌ہی خوب ہیں، اگر کمی ہے تو صرف یہ کہ جتنی بھی تعریف کروں‌، کمی ہی محسوس ہو گی جناب۔
جیتے رہیے جناب اور ایسے ہی رس گھولتے رہیں۔

راشد کامران

April 29th, 2009 at 12:08 pm    


عمر احمد بنگش صاحب آپ کی نوازش ہے۔۔ جناب آپ کا تو اپنا انداز تحریر بہت ہی خوب اور نکھرا ہوا ہے ہم تو نثری تک بندی تک محدود ہیں۔۔

ساجداقبال

May 18th, 2009 at 10:02 am    


سبحان اللہ آپ نے تو حقے کا ‘حق’ ادا کر دیا۔۔۔اب ‘ہ’ بھی ادا کر دیں۔

اپریل 2009 کے بلاگ

May 31st, 2009 at 1:49 pm    


[…] تحاریر بھی داد کے لائق تھیں۔ اپریل میں آپ کی تحریر “حقہ ۔۔ زیر زمین وکی پیڈیا سے ایک ورق” جو کہ “حقے” سے متعلقہ ہے،جس میں آپ نے حقے کی تاریخ، […]

باسم

June 1st, 2009 at 1:42 pm    


بہت عمدہ تحریر ہے
اب سرگٹ کی باری ہونی چاہیے

اپریل 2009 کے بلاگ | منظرنامہ

July 17th, 2019 at 11:05 am    


[…] تحاریر بھی داد کے لائق تھیں۔ اپریل میں آپ کی تحریر “حقہ ۔۔ زیر زمین وکی پیڈیا سے ایک ورق” جو کہ “حقے” سے متعلقہ ہے،جس میں آپ نے حقے کی تاریخ، […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website