اسلامی نظام

پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کم و بیش  ہر دوسرا شخص اسلامی نظام کے نفاذ کی تجویز پیش کرتا ہے۔ سادہ، موثر اور پرکشش نظر آنے والی اس اصطلاح‌ کا کیا مطلب ہے، اس نظام کی خصوصیات کیا ہیں اور کس طرح‌ جدید دور میں قومیت کے جھنڈے تلے اس کا نفاذ کیا جائے گا اس پر عوام کی آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام فہم ذہن میں اس حوالے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں‌جیسے

۔ سربراہ مملکت کون ہوگا اور اسے کون منتخب کرے گا ؟ خاندانی سلسہ، عام ووٹ، بادشاہ یا فوجی سربراہ؟

۔ کیا اسلامی نظام کے تحت پاکستان کو آئین کی ضرورت ہوگی؟ 73 کا آئین بحال کیا جائے گا؟ یا قران و سنت سے اخذ کیے گئے کسی مذہب کو مملکت کے آئین اور سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا جائے گا؟

۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد مملکت فلاحی ہوگی یا دفاعی؟‌ اور امور کار چلانے کے لیے وزیروں اور مشیروں کا نظام کیسے کھڑا کیا جائے گا؟

۔ مختلف فرقوں‌ کو اسلام کے ایک سیاسی نظام پر کیسے متفق کیا جائے گا جبکہ ایک مسجد کا انتظام چلانے پر نوبت مارا ماری تک آجاتی ہے اور کئی فرقے ایک دوسرے کو مسلمان نہیں مانتے  یہاں تک کے متحدہ مجلس عمل کا انجام سب کے سامنے ہے جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والی دینی جماعتیں ایک منطقی انجام سے دوچار ہوگئیں جنکی سیاست کا محور اسلامی نظام کا نفاذ رہا ہے۔

۔ اسلامی نظام کے زیر انتظام معاشیات کس طرح کی ہوگی؟‌ بینکنگ، اسٹاک مارکیٹ اور بین الاقوامی مارکیٹس سے لین دین کی کیا صورت حال ہوگی؟‌ کسطرح اسلامی نظام تمام مسلمان فرقوں اور اقلیتوں کو ایک معاشی نظام پر لا سکے گا؟ خیال رہے کہ اسلامی بینکنگ کے طریقوں‌ پر بھی عام مسلمانوں میں‌کافی کنفیوژن پایا جاتا ہے اور کنزیومر بینکنگ سے بڑھ کر جب مملکت کی سطح پر معاشی نظام کی بات کرتے ہیں‌ تو سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلامی معیشت کی عملی شکل کم از کم عام لوگوں کے علم میں نہیں‌ یعنی اس بات کا کوئی جواب موجود نہیں‌کہ بینکوں کی شکل کیا ہوگی۔ لین دین کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ ملکی اور بین الاقوامی معاہدے کس اصول کے تحت کیے جائیں‌ گے؟‌ ادارے قومی ملکیت میں ہونگے یا نجی ملکیت میں اور کثیر القومی کمپنیاں کس اصول کے تحت اپنے کاروبار سر انجام دیں‌گی؟‌

۔ مجوزہ اسلامی نظام میں پاکستانی شہریوں کے حقوق کسطرح کے ہونگے؟ اولین زمانے کی خلافتوں میں امت نمایاں اور قومیت پس منظر میں تھی جبکہ آج کل مسلمان ملکوں میں بھی قومیت پیش نظر رکھی جاتی ہے کس طرح حقوق کا تعین ہوگا؟ کیا کوئی بھی مسلمان اسلامی ریاست کے تحت پاکستان کی شہریت اختیار کرسکے گا؟‌ ریاست کس حد تک شخص کے معاملات میں‌مداخت کرے گی؟  کیا ریاست چار دیواری کے اندر مملکت کی سطح‌پر نافذ مذہب کا بزور قوت نفاذ کرے گی؟

۔ اسلامی نظام کے زیر انتظام پاکستان میں عدلیہ کا ادارہ کیسے کام کرے گا؟ ججوں کا تقرر کون کرے گا؟‌ کیا سربراہ مملکت کے کرتے کا حساب لیا جاسکے گا؟ اور شخصیت پرستی سے کیسے جلد از جلد عدلیہ اور انتظامیہ کو آزادی دلائی جاسکے گی؟ تعزیرات کی شکل کیا ہوگی؟‌ کیا ہاتھ کاٹنے اور سر قلم کرنے کے قوانین طالبان طرز پر نافذ‌ کیے جائیں‌ گے؟

۔ تعلیمی نظام کس طرح کا ہوگا؟‌ مذہبی تعلیم اگر سرکاری سطح‌پر دی جائے گی تو اقلیتوں اور سرکاری مذہب سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کی تعلیم کا کیا انتظام کیا جائے گا؟‌ کیریر بلڈنگ، تکینیکی علوم اور عمومی علوم و فنون کی تعلیم کا اسلامی نظام میں کیا درجہ ہوگا؟‌ حکومت کسطرح روزگار کا بندوبست کرے گی؟‌

۔ اظہار رائے کی آزادی مجوزہ اسلامی نظام میں کس طرح‌ کی ہوگی؟‌ کیا سرابرہ مملکت تنقید سے بالا تر ہوگا؟ کیا مملکت کے اختیار کردہ قوانین (مذہب)‌میں بحث کی گنجائش ہوگی؟ اختلافی نکتہ نظر رکھنے والوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا؟‌ میڈیا کی اخلاقی حدیں کون متعین کرے گا؟‌ لباس، ثقاوت اور روز مرہ کی تفریحات میں لوگوں کو کتنی آزادی حاصل ہوگی؟

پاکستان کے حوالے سے اب تک اسلامی نظام کے نفاذ‌ کی باتیں‌نعروں‌سے آگے کبھی نہیں‌بڑھ سکیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بس ایک اصطلاح ہی ہے اور اس کی بنیاد پر ابھرنے والی تحریکوں کے اپنے پاس اسکے نفاذ کا کوئی واضح خاکہ موجود نہیں۔  عوام اور اسلامی نظام کے نفاذ کے داعیوں‌ نے صرف جذباتی تقاریر اور مطالبات کی حد تک اسلامی نظام کی خوب باتیں‌کیں لیکن کسی واضح نظام کی شکل میں‌ اسکی غیر موجودگی کا شدت اور عسکریت پسندوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور بزور طاقت جہاں جہاں بس چلا اپنا مذہب شریعت کے نام پر نافذ کردیا جسے اسلامی نظام بھی قرار دیا گیا۔ رد عمل کے طور پر جو لوگ اسلامی نظام کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے ایسی صورت حال میں‌ متنفر ہوگئے جسکی ایک شکل ایم کیو ایم کی اینٹی طالبان مہم کی شکل میں‌دیکھی جاسکتی ہے اور پاکستان کے شہری علاقوں‌میں‌ایک واضح اکثریت شش و پنچ میں مبتلا ہے اور علماء کے ایک غیر مبہم اور واضح فیصلے کی منتظر ہے ۔ کیا طالبان کا افغانستان ہی وہ اسلامی نظام تھا جسکی راہ تکتے تکتے اس قوم کو آسھی صدی بیت گئی؟ یا ابھی تک ہمارے علماء کرام اس بارے میں‌سوچ بچار میں مبتلا ہیں؟

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (28)

ڈفر

September 17th, 2008 at 10:26 pm    


جس قوم کے ایک حصے کو کلمہ نہیں آتااور معافی کے ساتھ جس قوم کی اکثریت کو وضو اور نماز کے فرائض سے آگہی نہیں وہ اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کیوں کرے گی؟
اور جس کو یہ سب آتا ہے وہ بھی کیوں کرے گا؟

افتضار اجمل بھوپال

September 18th, 2008 at 12:16 am    


آپ نے بہت وسیع موضوع چھیڑ دیا ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ آپ نے خود پہلے کم از کم قرآن شریف کا اچھی طرح مطالع کر لیا ہو گا ۔ میں کبھی کبھی اسلامی نظام کے کسی پہلو پر لکھتا رہا ہوں لیکن باوجود آدھی صدی سے زائد عرصہ پر محیط مطالعہ کے مجھے اسلام ریاست کا مکمل نقشہ پیش کرنے کی جراءت نہیں ہوئی ۔ بہتر ہوتا کہ آپ یہ سوالات لکھ کر ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحبان کو بھیج دیتے ۔ کم از کم چار دہائیاں قبل میں نے اس سلسلہ میں مودودی صاحب کی ایک کتاب پڑھی تھی جو کہ بہت مختصر مگر جامع تھی ۔ کتابوں کی کسی بھی معروف دکان سے مل جانی چاہیئے ۔ اسے لے کر پڑھیئے لیکن اس سے قبل كرآن شریف کا بغور مطالع اشد ضروری ہے ۔

انشاء اللہ میں آپ کے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کروں گا مگر اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے کیونکہ مجھے اپنی دوسری ذمہ داریوں کے علاوہ اپنا عمومی مطالعہ بھی کرنا ہوتا ہے اور رمضان المباک میں وقت سُکڑا ہوا لگتا ہے ۔ سر دست میں ایک جامع فقرہ کہے دیتا ہوں

کسی بھی ملک میں کوئی اچھا نظام حکومت رائج نہیں ہو سکتا جب تک وہاں انصاف ایسا نہ ہو کہ نواب سے لے کر نتھو تک کو یکساں انصاف نہ ملے ۔

کوشش کیجئے اور تلاش کیجئے کہ وہ کون سا نظام ہے جو متذکرہ انصاف کو ممکن بناتا ہے ؟ اللہ آپ کی مدد فرمائے ۔

ہو سکے تو فی الحال مندرجہ ذیل روابط پر لکھے مضامین اسی ترتیب میں پڑھ لیجئے

http://www.theajmals.com/blog/?p=963

http://www.theajmals.com/blog/?p=993

http://www.alqlm.org/forum/viewtopic.php?f=52&t=388

افتخار اجمل بھوپال

September 18th, 2008 at 12:20 am    


مجھے جوں جوں وقت ملے گا میں انشاء اللہ ایک ایک نقطہ واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کروں گا ۔ ویسے گستاخی معاف ۔ آپ کے سوالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن شریف کو باترجمہ پڑھے بغیر سب کچھ لکھ دیا ۔

راشد کامران

September 18th, 2008 at 12:51 am    


ڈفر ۔۔ آپ نے ایک نکتہ اٹھایا ہے اور یہ اہم ہے کہ ابھی تک ہم شش و پنج میں ہے۔

اجمل صاحب ۔۔ یہی تو میں بھی عرض کر رہا ہوں کہ دو جملوں میں جب یہ بات کہہ دی جاتی ہے کہ تمام مسائل کا حل اسلامی نظام کے قیام میں ہے تو آخر وہ ہے کیا؟ مجھے نہیں معلوم کے آپ نے پورے بلاگ کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں ۔۔ خدانخواستہ میں نے اسلامی نظام پیش نہیں کیا۔۔ میں تو اسلامی نظام کے نفاذ کے داعیوں سے یہ سوال کررہا ہوں کہ اسلامی نظام کیا ہے مجھے عام آدمی کی زبان میں سمجھائیے جیسے مغربی جمہوریت کے داعی جمہوریت کو پیش کرتے ہیں یا سرخ نظام کے پیروکار دنیا پر سرخی پھیرنے کی فکر پیش کیا کرتے تھے؟ معاملہ میرے قران سمجھنے اور سمجھانے کا نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کے لیے تجویز کردہ اس نظام کا ہے جو ہر مسئلے کے حل کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے اس کے خدو خال کیا ہیں یہ ان سے سوال ہے جو ہر معاملے میں اسلامی نظام تجویز کرتے ہیں۔ میں نے پوری تحریر میں کہیں کوئی نظام تجویز نہیں کیا۔ میں تو خود اس کو جاننا چاہتا ہوں۔ پس موضوع عرض ہے کہ مولانا مودودی اور ڈاکٹر اسرار کے فلسفے سے مکمل آگاہی ہے اور جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے قیام سے بھی آگاہ ہوں اور انکے درمیان فکر کے فرق کو بھی پوری طرح سمجھتا ہوں۔ جماعت کی موجودہ صورت حال اور آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی وجہ سے انکی جو کریڈیبلٹی عوام میں مجروح ہوئی ہے اس سے اب کوئی امید باقی نہیں۔

افتخار اجمل بھوپال

September 18th, 2008 at 5:59 am    


محترم جو میں نے لکھا ہے اُس کا جواب وہ نہیں بنتا جو آپ نے دیا ہے ۔ میں نے آپ کو جماعت اسلامی کی تقلید کیلئے نہیں کہا بلکہ ایک عالمِ دین کی لکھی کتاب پڑھنے کو کہا ہے ۔
آپ نے مجھ جیسے لوگوں سے یہ سوال پوچھ کر ایک ایسے امتحان میں ڈال دیا ہے جس میں کامیاب ہونے کی ہم اہلیت نہیں رکھتے ۔ پھر بھی کچھ ایسے سوال ہیں جن کے جواب دینے کی میں کوشش کروں گا ۔ خدشہ صرف یہ ہے کہ میرے جوابات مکمل ہونے تک آپ کی اس تحریر کی اہمیت ہی ختم نہ ہو جائے

فیصل

September 18th, 2008 at 10:02 am    


میرے خیال میں اسلامی نظام ایک متبادل نظام سے زیادہ ایک رویے کا نام ہے۔
مثلا اسلامی نظام میں انصاف ملیگا، ریاست جان، مال کا تحفظ کریگی اور امیر اپنے اعمال کا اللہ اور اسکے بندوں کو جواب دہ ہو گا۔ یہ سب تو مغربی معاشروں میں بھی موجود ہے گرچہ مکمل طور پر نہیں بلکہ ٹکڑوں میں۔
رہا سوال یہ کہ یہ نظام قائم کیسے کیا جا سکتا ہے تو میرے خیال میں اسکے لیے وہ سب اجزائے ترکیبی درکار ہیں جو کسی بھی نظام کیلئے ضروری ہوتے ہیں اور جو خود نبی پاک صلعم کو مدینہ جا کر دستیاب ہوئے تھے، کہ جسکے بعد ہی ایک اسلامی ریاست قائم ہوئی جو ایک مخصوص نظام کی داعی تھی۔ اس پر یعنی نئے نظام کے رواج پانے یا نئی ریاست کے قیام سے متعلق سوالات بارے میں غالبا پولیٹیکل سائنس میں کافی کچھ موجود ہے، ملاحظہ کر لیں۔
ایک بات جو ہم سب بھول جاتے ہیں وہ یہ کہ اسلامی نظام نبی پاک صلعم کے وصال کے بعد بلکہ اس سے پہلے بھی مشکلات (یا چیلنج کہہ لیں( کا شکار رہا ہے جسکا ثبوت اولین خلفا کی غیر فطری اموات یعنی شہادتیں ہیں۔ جب اسوقت اتنی مشکلات تھیں ایسی ٹیم کی موجودگی میں جو خود نبی پاک صلعم کی تیار کردہ تھی تو آج ہم جیسے مسلمانوں کی موجودگی میں یہ نظام کیسے راتوں رات کھڑا ہو سکتا ہے۔ میری ناقص رائے میں اسکا واحد حل یہی ہے کہ ہم اسے اسکی اصلی روح بگاڑے بغیر ٹکڑوں میں قائم کریں، اور اسمیں سب سے پہلے تو بندوں کی تیاری اور پھر معاشی نظام کا قیام ہے۔ مجھے یہ جلدی ہوتا نظر نہیں آتا لیکن اپنی محدود حیثیت میں کوشش بہر حال ہم سب کا ہی فرض ہے۔

بلال عزیز

September 18th, 2008 at 11:20 am    


اسلامی نظام :
میں کوئی حافظ قرآن و حدیث نہیں ہوں لیکن میں ایک مسلمان ہونے کے نا طے اسلامی نظام اور اسلامی ریاست کا ڈھانچہ چند دن میں تیار کر سکتا ہوں

جیسا کہ کہ اسلامی ریاست کا امیر ایک فوجی ہو گا۔ مگر وہ فوج کا انتظامی سربراہ نہیں ہو گا۔ہر علاقہ ، شہر ، صوبے کو امیر فوجی جوان ہو گا۔
اسلامی ریاست کا وزیر دفاع نہیں ہو گا۔صرف وزیر جنگ ہو گا۔
ایک بگڑی ہوئی اسلامی ریاست کا انتظام سدھارنے کے لئے اس ریاست کے 10،000 یا 20،000 لوگوں کو انتظام سنبھالنے کے 12 گھنٹے کے اند ر اند ر سر عام سزاے موت چے جائے گی۔ تقریبا 50،000 نفوس کو کوڑے مارے جائیں گے۔آئین قرآن و حدیث سے لیا جاے گا۔کچھ لوگوں کے ہاتھ کاٹے جائیں‌گے جبکہ ایک یا دو ہزار لوگوں کو سنگسار کیا جاے گا۔
جن لوگوں کو میں‌سزا سنا رھا ہوں‌، یہ منافق ، زانی ، شرابی، سود خور، چور اور قاتل‌ہیں۔
تما م ملک میں قومی زبان اردو نا فظ قراد دی جائے گی۔
دوسری زبانوں کو نطاب میں لازمی مظمون کے طور بر جگہ نہیں ملے گی۔
تمام اسلامی ممالک کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجی شیئر کر لی جائے گی۔

بلال عزیز

September 18th, 2008 at 11:38 am    


پاکستان میں تمام بینک سرکاری تحویل میں جائیں گے۔
سارا پیسہ عوام کو واپس دے دیا جاے گا۔
اس کی جگہ ایک سرکاری محکمہ وجود میں لایا جائے گا۔ جو رقوم سے متعلق امور اور اس کی منتقلی کو دیکھے گا۔
تمام نوٹ ، سونا ، اور چاندی عوام سے واپس لے لی جائے گی۔1،5،10 کا کانسی کا سکہ جبکہ اس کے علاوہ چاندی اور سونے کے سکے رائج کئے جائیں گے۔

بلال عزیز

September 18th, 2008 at 11:51 am    


ملک جنگی بنیادوں پر کام کرے گا۔
جنگی تربیت ہرسکول میں دلوائی جائے گی۔
برصغیر میں تمام مسلمان علاقوں میں مسلمانوں کے حقوق ، نطم و ظبط اور دیکھ بھال کے لئے پاک فوج کو بھجوا دیا جائے گا۔ اور دوسے ممالک سے معزرت کے ساتھ ان کی فوج ان کے علاقوں میں دھکیل دی جائے گی۔

بلال عزیز

September 18th, 2008 at 11:56 am    


باقی جواب بعد میں۔
آپ کا شکریہ۔
بلال۔

jabar

September 18th, 2008 at 12:28 pm    


:بلال عزیز لکھتے ہیں

سارا پیسہ عوام کو واپس دے دیا جاے گا۔

……….

تمام نوٹ ، سونا ، اور چاندی عوام سے واپس لے لی جائے گی۔

opposite????

jabar

September 18th, 2008 at 3:11 pm    


میں نے آپ کو جماعت اسلامی کی تقلید کیلئے نہیں کہا بلکہ ایک عالمِ دین کی لکھی کتاب پڑھنے کو کہا ہے ۔

jammat islami bhee tu maududi kee taqleedee jamaat hai. agar us say nahain hu saka tamaam tar badmaashee kay bawajood tu hum bay-kus log kiyya karain gay?

احمد

September 18th, 2008 at 3:34 pm    


سلام راشد صاحب

آپ نے بہت اچھا موضوع نکالا ہے آج کع حالات پر یہ خودبخود لوگوں کے زیربحث آنے لگا ہے۔ مگر معزرت کے ساتھ آپ کے سوالات میں بڑا جھول ہے اور ایک نظر پڑہ کر لگتا ہے کہ اسلامی ںطام کبھی نہیں آسکتا
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ایک لفظ انقلاب نے خاصانقصان پہنچایا ہے یہ لفظ ایران سے درآمد ہوا یے اور جماعت اسلامی والوں نے اسکے اتنا رگڑا لگاےا ہے کہ اسلام تو کہیں ادھر ادھر ہوگیا اور انقلاب رو گیا
ہم سے جتنا ہوسکا بیان کرنے کی کوشش کریں گے مگر یہ موضوع اھل لوگوں کا ہے ورنہ بلال صاحب ٹائپ لوگ اسکو بازیچہ اطفال بنادیں گے

جناب اجمل صاحب کی پوسٹ ایک ایسی سوچ کے گرد نہ گھومے کہ بات آگے نکل جائے
راشد بھائی آپ فقہ کے بارے میں مطالعہ کرلیں پھر آپ کے اس سوال کا جواب بہت آسان ہوگا

راشد کامران

September 18th, 2008 at 5:02 pm    


احمد صاحب والسلام ۔
دیکھیں سوالات میں جھول ہے تو جھول درست کرکے جواب عنایت کردیں۔۔ اور شاید میں مدعا پورا بیان نہیں کرپارہا۔ ایک عام شخص میری طرح‌کا اگر اسلامی نظام کے بارے میں دریافت کرے گا تو اسے فقہ کے مطالعہ کا مشورہ آپ سمجھتے ہیں کہ مناسب ہے؟‌

احمد

September 18th, 2008 at 5:53 pm    


راشد صاحب فوری جواب دینے کا شکریہ
1۔ بلکل آپ کا حق ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ اللہ کیا چاہتا ہے، یہ نظام وغیرہ اس کا بس ایک جز ہے کا اللہ کے فرمان پر چلنا آسان ہو یعنی جس سے منع کیا گیا اس سے رک جانا آسان اور جو کرنے کا حکم ہے وہ کرنا آسان ، مختصراٰ تقوہ کے ماحول کا قیام
2-نظام کے قیام کا سبب دو باتیں ہوتی ہیں ایک تو اوپر بتائی دوسری انصاف کا جاری کرنا اور ظلم کا روکنا
3-یہ کام اہل علم کا ہے، اور علماء نے اسکا پورا خاکہ بنا رکھا ہے، پھر بھی اچھا ہے لوگ بات کریں تو آگاہی ہوگی کہ ہماری قوم کیا چاہتی ہے اور کیا جانتی ھے
4-آپ فقہ کو فرقہ میں لیتے ہیں جیسا سوالات میں جھول والی بات سے پتا چل رہا ہے اس لیئے کہا تھا کہ فقہ جان لیں، اور جہاں معاش کیلئے اتنا پڑھا وہاں دین کیلئے کیا برا ہے؟
5-ظاہر ہے یر آدمی اپنا وقت نکال کر اپنی بات سامنے رکھے گا اس لیئے زرا وقت لتے گا ہی
6-آپ سے سادہ سا سوال ہے کہ آپ کی نظر میں مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ اسلام کسے کیتے ہیں؟ اسلام کے زرائع کیا ہیں جیاں سے ہم تک پہنچا؟ ان سوالوں کے جواب لازمی ہیں تب بات نتیجہ خیز ہوگی ورنہ فتنہ اور وقت کی بربادی
7-جو لوگ اسلام پر عمل کرنے میں سستی کریں یا تاخیر وہ بات نظام پر ڈال دیتے ہیں ھالانکہ اجتمائی تبدیلی کا اصل ماخز انفرادی ہوتا ہے
آج کے ماھول میں اسلامی کام کوں سا ھوسکتا ہے جب لوگ اس کلیئے تیار ہی نہیں؟
8-صحابہ بننے کیلئے پیلے ، وہ لوگ ایمان کی گہرائیوں میں اترے تب جاکر اسلام پر عمل آسان ہوا۔ پورا پورا راسخ ایمان لائے بغیر آپ کس طرح لوگوں کو اس بات پر راضی کرسکتے ہیں جو نفس کے الٹ ہے؟ آج نماز پڑھنا تو جان جوکھوں کا کام ہے بھلا پورا ایسے نظام کے تابع رہنا کیاں آسان ہوگا؟

ہو سکتا آپ کی یہ کوشش بہتوں کلیئے اصلاح کا سبب بن جائے

jabar

September 18th, 2008 at 6:10 pm    


راشد
daad deejeeay molvioon kee, inhoon nay aap ka jawab tu diyya nahain gaalban isleeay keah jawaab inkay pass hai nahain, lekin unhoon nay aap ku apologetic rawaya apnaanay pay majboor kar diyya hai
😛

yeah aisee hee kartay hain juab phanstay hain 😛

naach na jaanay aangan tehra 😛

بلال عزیز

September 18th, 2008 at 7:09 pm    


اسلام و علیکم ۔ دوستو!
میں نے یہ نو‌ٹ کیا ہے کہ آپ لوگ اسلام کو لے کر کافی کنفیوز ہیں۔
اسلام اتنا ہی سادہ ہے ۔ جتنا کہ آپ کی سوچ ہو گی۔
ایک لفظ قتال ہے۔سادہ زبان میں ہم اس کو جھاد بولتے ہیں۔
اس جھاد لفظ کی تعرہف مغربی دنیا سے ائی ہے۔ہم اپنی لائن آف ایکشن سے 180 ڈگری الٹ چل رہے ہیں۔
آپ لوگ ضرور مجھ سے زیادہ جانتے ہوں گے- میں آپ سے کم درجے کا طالب علم ہوں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ نبی اکرم ص نے کتنی دیر تبلیغ کی اور کب اپنے ہتھیار نکال لئے۔
اس وقت کے مسلمان کو صرف جنت سے غرض تھی۔گھر میں ایک سے زائد بیویاں ، بچے، ہونے کے باوجود ان کو خدا پر یقین تھا۔وہ اللہ کے رستے میں قتال کرتے۔ شھادت کے رتبے پر فائز ہوتے ، ان کے پاس زندگی گزارنے کے لئے چند چیزیں جو ضروری‌تھیں۔
قرآن و حدیث
ہتھیار
سواری ( آپشنل
علم و ہنر (حالت امن‌میں
علم و ہنر ( حالت جنگ میں۔ ہتھیار کا استعمال، سواری کا استعمال،

آج کا مسلمان کیا چاھتا ہے۔ آپ بہتر جانتے ہیں۔
سواری ( انجواے کرنے کے لئے
تعیشات
آرام
پیسہ
چیزیں۔ مال۔ جائیداد کا جمع کرنا۔
یہ قصور ہمارا ہے۔ ہماری سوچ کو آخر مغربی تھنک ٹینک اس سطح پر لے آئے ہیں۔ھمیں یہ باتیں بری لگتیں ھیں۔آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ ہم ان کے بنائے ہوئے امن کلیہ کے مطابق امن میں ھیں ۔ کیاوہ امن میں ھیں؟
ان کو کوئی بھی کام ۔ بلکہ جنگ تک شروع کرنے کے لئے کسی جواز کی ضرورت نہیں۔
یہاں ھم اور آپ جواز ڈھونڈنے اور اس پر تنقید کرنے کا کھییل کھیل رہے ہیں۔ ٹائم پاس کر رھے ہیں۔

jabar

September 18th, 2008 at 8:00 pm    


aap jihad pay jaanay kay bajaay computer pay kiyya kar rahay hain?

افتخار اجمل بھوپال

September 19th, 2008 at 6:47 am    


میرا خیال تھاکہ یہا کچھ تعمیری بحث ہو گی ۔ لیکن جو کوئی بھی سوالات کے جوابات دینے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے بجائے اس کی مدد یا حوصلہ افزائی کے معاملہ کو اُلجھانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
ایک بات واضح ہے کہ اسلام کسی کتاب کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک رویّے اور عمل کا نام ہے ۔ جب تک عوام کی اکثریت اچھے عمل کو نہیں اپنائے گی اس وقت تک کوئی نظامِ حکومت چلنا تو کیا نافذ بھی نہیں ہو سکتا ۔
اگر آپ اپنے سوالوں کا جواب جاننا چاہتے ہیں تو قرآن ۔ حدیث اور فقہ کا مطالع کیجئے ۔

بلال عزیز

September 19th, 2008 at 9:19 am    


jabbar ager ap na sawal mugh sa kia ha to kindly pehlay ya bata den

ka mane na kis wakat kon sa kaam kerna ha is silsalay mane jawab dahi mugh sa app na kerni ha?
heerat ha!

mera kyaal tha allah taalla kud karen gay

عدنان مسعود

September 19th, 2008 at 11:20 am    


پچھلے ماہ “ما بعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام ” کے عنوان سے ابوشامل کا ترجمان القران میں چھبا مضمون پڑھتے ہوے مجھے خیال نہیں ٓآیا کہ اس میں جس ما بعد جدیدیت کے انسان کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ اس قدر جلد مل جاے گا ۔ ابوشامل لکھتے ہیں

“ما بعد جدید دور کے انسان کے نہ کوئی آدرش ہیں نہ اصول۔ اس کے سامنے کسی بھی موضوع پر نظری بحث شروع کیجیے دامن جھاڑ کر اُٹھ جائے گا۔ اس لیے بعض مفکرین اس عہد کو ‘عدم نظریہ کا عہد’ Age of No Ideology قرار دیا ہے ۔ اصول اور افکار کے مبسوط نظام (doctrine) کے بالمقابل ما بعد جدید انسان کے پاس صرف جذبات و احساسات ہیں یا عملی مسائل (pragmatic issues)۔ ما بعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ زندگی کی تمام بحثیں ‘مسئلہ’ اور ‘حل’ (problem and solution) تک محدود کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے اصولوں اور نظریوں کے بجائے ایک ایک مسئلے کو الگ الگ لیا جانا چاہیے اور اس کے حل پر بات ہونی چاہیے”

تو اب میں آپ کے سوالات کا جواب دینے کی سعی کرتا ہوں

اسلامی نظام کی ایک سادہ اور جامع تعریف ہے کہ “ایک ایسا نظام ریاست جہاں نیکی کرنا آسان ہو اور برای کرنا مشکل ہو”۔اسلامی نظام ایک حقیقت ہے، اصول مبادی کا مجموعہ۔ لیکن یہ میکانیکی اصول نہیں، یہ اصول روح و قلب کو رب العلی سے باندھنے کا نام ہیں۔ ایک سیدھی سی مثال ہمیں پروہیبیشن یا شراب کی تحکیم میں ملتی ہے کہ جب یہ امریکہ میں 1920 تا 1932تک یہ حکم نافز تھا تو “مون شایننگ” کا کیا عالم تھا اور جب یہ مدینے میں نافز ہوا تو اس کی کس طرح پزیرای کی گی۔ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ قوانین و احکامات کا نفاذ اول بزور قوت نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحضہ ہو مولانا مودودی کی کتاب۔ “اسلامی ریاست اور اسکے اصول مبادی”

اب جبکہ اپنی اثنا میں ہم آپ کے بنیادی سوال کا جواب دے چکے ہیں کہ اس تاثر کو رد کیا جاے کہ اسلامی نظام ظالبانیت یا سخت گیر ڈنڈا برداری ہے۔ اس بات کو مزید واثق کرنے کے لیے مندرجہ زیل آحادیث کا مطالعہ کریں۔

خبر دی ہمیں مالکؒ نے کہ ہمیں خبر دی یعقوب بن زید نے اپنے والد زید بن طلحہ سے کہ انہیں خبر دی عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اس نے بیان کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہو گئی ہے اور حاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کہا کہ اب چلی جا جب تک وضع حمل نہ ہو جائے۔ جب بچہ ہو گیا تو وہ آ گئی۔ آپؐ نے کہا ابھی جا جب تک تو اسے دودھ پﻻئے۔ جب دودھ کی مدت ختم ہو گئی تو وہ آ گئی۔ آپؐ نے کہا جا اور اس لڑکے کو کسی کے سپرد کر دے۔ پھر وہ بچہ کو سپرد کر کے آئی تو آپؐ نے اس پر رجم کا حکم دیا اور اس پر حد جاری کر دی گئی۔

درحقیقت یہاں ایمان و ایقان کی وہ کیفیت بتای جا رہی ہے کہ وہ عورت خود سزا ک لیے بار بار حاضر ہو رہی ہو اور رحمت للعالامین درگزر کی مثال قایم کر رہے ہوں تاکہ ان کے بعد آنے والے چھوٹتے ہی ہاتھ نا کاٹنا شروع کردیں

خبر دی ہمیں مالکؒ نے کہ ہمیں خبر دی ابن شہاب نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص نے اپنے متعلق زنا کا اعتراف کیا اور اپنے خﻻف چار گوار بھی پیش کئے تو آپؐ نے حد جاری کرنے کا حکم دیا اور حد جاری کر دی گئی۔ ابن شہاب کہتے ہیں اسی وجہ سے جو شخص اعتراف جرم کر لے اس کا مواخذہ ہوتا ہے۔

اور ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ

۔ پھر آپؐ نے کہا اے لوگو تم پر وہ وقت آ گیا ہے کہ اللہ کی حدود سے باز رہو۔ پس جو شخص اس قسم کے گناہوں کا مرتکب ہو چاہیئے کہ وہ اللہ کے پردے میں چھپا رہے جو شخص اپنے پردے ظاہر کر دے گا تو ہم اللہ عزوجل کی کتاب کے مطابق اس پر حد قائم کریں گے۔

لہزااسلامی نظام اور شریعہ کو پردہ رکھنے کا دین بنایا نا کہ حدود قیود کا لیکن اس کے لیے ایمان و ایقان اور تقوی بنیادی شرط ہے۔[1]

اسلامی نظام ریاست کا قیام اسلامی نظام زندگی اور اصلاحی جماعت کی انتھک کوشش سے مشروط ہے۔ تنقیح و تنقید کرنا بیحد آسان لیکن اللہ کی راہ میں جان کھپانا ایک دشوار کام ہے۔ حدیث میں ہے کہ اس امت کے آخر میں بھی اصلاح اسی طریقے پر ہوگی جس طریقے سے اس امت کی اصلاح ابتداءمیں ہوئی تھی۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مقاصد کے لیے اور جس طریق کار کی بنیاد پر جماعت بنائی تھی آج انھی مقاصد کے لیے اور اسی طریق کار کی بنیاد پرجو جماعت بنے گی تو ہی امت کی اصلاح ہوسکے گی ۔اللہ اور اس کے رسول انے امت کی جو ذمے داری بیان کی ہے اس کے لیے امت کو دوبارہ مجتمع اور متحد کرنا ناگزیر ہے۔

جہاں تک بات رہی کہ نظام حکومت کے پرزے کس طرح چلیں گے، اس بارے میں بہت تحقیقی کام ہو چکا ہے اور مستقل ہو رہا ہے ۔ اس تحقیق سے نابلد ہونے سے اس کی افادیت زرا برابر کم نہیں ہوتی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے میں کمپیوٹر سے نا بلد فرد یہ سمچھوں کہ اس شعبہ میں ہاتھ کی لکھای کی چانچ پر کچھ کام نہیں ہوا اور بلا وجہ کے دس سوالات اٹھاوں جس کا جواب آج سے بیس سال پہلے دیا جا چکا ہو۔ اگر آپ اشتراکیت یا سرمایہ دارانہ نظام اور ٓازاد معیشیت پر بھی ایک گہری نظر ڈالنا چاہیں گے تو اس شعبہ کے معروف افراد کے افکار کا مطالعہ کیے بغیر ممکن نا ہوگا۔ لہزا اگر آپ یہ سوالات اسلامی نظام لے بارے میں اٹھایں تو یہ مندرجہ زیل کتب کا مطالعہ نہایت مناسب ہوگا۔

۔ اسلامی تہزیب اور اس کے اصول و مبادی از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
۲۔ اسلام ایک نظر میں از مولانا صدر الدین اصلاحی
۳۔ النظم الاسلامیہ از ڈاکٹر صبحی صالح
۴۔ اسلامی نظریہ از ڈاکٹر خلیفہ عبدلحکیم
۵۔ اسلامی دینا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کے اثرات از مولانا ابو الحسن علی ندوی
۶۔ اسلام اور جدید زہن کے شبہات از محمد قطب
۷۔ اسلام کا اقتصادی نظام از حفیظ الرحمن سیو ہاروی
۸۔ اسلام کا نظام عدل از سید قطب
۹۔حقیقت دین از مولانا امین احسن اصلاحی
۱۰۔ قرآن اور تعمیر سیرت از ڈاکٹر میر ولی الدین
۱۱۔ اسلامی نظام حیات از خورشید احمد

برادرم، مومن جب قدم اٹھاتا ہے تو عزم کرکے قدم اٹھاتا ہے۔ رب العلی نے فرمایا کہ “ان الدین عند اللہ الاسلام” لہزا ہم تو اسی وعدے پر توکل کر کے اس نظام کے لیے سعی کرتے ہیں۔

فاذا عزمت فتوکل علی اللہ
فاذا عزمت فتوکل علی اللہ
فاذا عزمت فتوکل علی اللہ

[1] خبر دی ہمیں مالکؒ نے کہ مجھ سے بیان کیا یحیٰی بن سعید نے کہ میں نے سعید بن مسیب کو یہ کہتے سنا کہ قبیلہ بنی اسلم کا ایک آدمی ابوبکرؓ کے پاس آیا کہ اس ناﻻئق نے زنا کر لیا ہے۔ ابوبکرؓ نے کہا کیا تم نے کسی اور سے تو اس کا ذکر نہیں کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپؓ نے کہا اللہ تعالٰی سے توبہ کر اور اپنے گناہ کو اللہ کے پردے میں چھپا لے۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ سعید کہتے ہیں کہ اس بات سے اس کا دل مطمئن نہ ہوا۔ یہاں تک کہ وہ عمر بن خطابؓ کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی کہا جو ابوبکرب سے کہا تھا۔ عمرؓ نے وہی جواب دیا جو ابوبکرؓ نے دیا تھا۔ سعید کہتے ہیں کہ اس کے دل کو پھر اطمینان نہ ہوا۔ یہاں تک کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اس ناﻻئق نے زنا کیا ہے۔ آپؐ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ سعید کہتے ہیں کہ اس نے بار بار یہی کہا اور آپؐ ہر بار اس سے منہ پھیر لیتے تھے۔ جب بہت ذیادہ ہو گیا تو آپؐ نے اس کے گھر والوں کو بﻻیا اور ان سے پوچھا کہ آیا اسے کوئی بیماری ہے، یا جنون ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ یہ بالکل تندرست ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیا یہ شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ؟ انہوں نے کہا شادی شدہ ہے۔ تو آپؐ نے حکم دیا اور وہ سنگسار کیا گیا۔

بلال عزیز

September 20th, 2008 at 9:10 am    


اسلام و علیکم

عدنان مسعود بھائی ۔ آپ کی تحریر نے مسئلہ کافی سے ذیادہ حل کر دیا ۔سبحان اللہ

بلال

احمد

September 21st, 2008 at 5:25 am    


عدنان صاحب نے کافی حڈ تک کوشش کی اور خاس کر اسلامی تعزیرات کیلئے چند باتوں سے شاید راشد بھائی کا خوف دور ہو
کیامودودی صاحب کے علاوہ کوئی ہوتی نہیں جنہوں نے ماڈل پیش کیا ہو؟اس لیئے کہ انکا قبلہ کعبہ سیدقطب ہیں اور قطب صاحب کا ایمانداری سے مطالعہ کافی کچھ اشکار کرتا ہے
بہتر ہے ہم قران، حدیث، صھابہ ، تبعی و تابعین اور محدیثین سے رہنمائی لیں
صاف سا اصول بتایا گیا ہے صھابہ کو معیارحو ماننا ہوگا اب مسئلہ ہی ھے کہ اس طرح وہ لوگ اسلام کے پردے سے باہر نکل آئیں گے جو سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہئے ہیں اور۔۔۔۔۔ انٹر نیٹ پر طوفان اٹھا دیا جائے گا
راشد بھائی اس سے پہلے والے تبصرے میں پوچھے گئے سوال کا جاواب دے دیں تو ہم بات آگے بڑ ہایں

راشد کامران

September 21st, 2008 at 7:26 pm    


آپ حضرات کے تبصروں کا بہت شکریہ۔۔ تمام بحث سے کوئی پہلو سامنے آگئے ہیں اور کئی نتائج اخذ کرنے میں بہت مدد ملی ۔

وقار علی روغانی

September 22nd, 2008 at 12:31 pm    


احمد بھائی سید مودودی نے اس موضوع پر نہایت ابتدائی اور بنیادی قسم کا کام کیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مصر اور عرب دنیا میں سید قطب مرحوم کو سید مودودی کے افکار سے “متاثرہ شخص” شخص مانا جاتا ہے اور ہندوستان و پاکستان میں معاملہ اس کے الٹ ہے ! بہرحال میں سید مودودی کے افکار سے کافی حد تک متفق اور سید قطب کے افکار سے کسی حد تک اختلاف رکھتا ہوں ۔

اس موضوع پر موجودہ وقت میں جاوید احمد غامدی اور ان کے رفقا تفصیلی تحقیق کررہے ہیں جن میں سے کچھ شائع بھی ہوچکا ہے آپ اور دیگر برادران ان کے ویب سائٹس پر جاکر پڑھ بھی سکتے ہیں اور ان سے رابطہ کرکے مزید تفصیلات بھی لے سکتے ہیں ۔

ظہیر اشرف

October 6th, 2008 at 10:39 am    


سلام علیکم
اچھی تحریر ہے ۔۔ اسلامی ریاست کو جو نقشہ مودودی مرحوم نے پیش کیا تھا اس میں بھی شخصی آزادی کو بڑی صفائی اور جرات سے سلب کیا گیا ہے ۔۔۔ اسلامی ریاست کے دو پہلو بڑے نمایاں ہیں جن کی قابل عمل اور قابل قبول وضاحت آج تک نہیں پڑھ پایا ۔۔
پہلی یہ کہ اسلامی ریاست میں شخصی آزادی کیا ہو گی کیسے ہو گی کہاں تک ہو گی ؟
دوسری یہ کہ اسلامی ریاست میں کسی بھی قانون کی بیان کردہ تشریح اور اس کے نفاذ سے اختلاف رکھنے والے فرد کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا ؟
وسلام

عمران جذباتی

April 24th, 2009 at 3:40 am    


سوال: سربراہ مملکت کون ہوگا اور اسے کون منتخب کرے گا ؟ خاندانی سلسہ، عام ووٹ، بادشاہ یا فوجی سربراہ؟
جواب: سربراہ مملکت کو آپ خلیفہ کہہ لیں تو زیادہ بہتر ہے۔ مگر کوئی دوسرا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس کو عام ووٹ حاصل کرنے والے نمائندے منتخب کریں گے۔

سوال: کیا اسلامی نظام کے تحت پاکستان کو آئین کی ضرورت ہوگی؟ 73 کا آئین بحال کیا جائے گا؟ یا قران و سنت سے اخذ کیے گئے کسی مذہب کو مملکت کے آئین اور سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا جائے گا؟
جواب: 73 کا آئین اور قرارداد مقاصد اسلامی نظام سے متصادم نہیں ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ 73 کا آئین اسلامی نظام کی طرف ایک سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے۔ اس میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ آقتدار اعلی صرف اور صرف اللہ تعالی ہے اور اس ملک میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں بن سکتا جو خلاف قرآن و سنت ہو۔ مگر معذرت کے ساتھ اس آئین پر عملدرامد کرنے والے مختلف حیلوں اور بہانوں سے اس کو مکمل طور پر نافذ کرنے سے گریزاں ہیں۔

سوال: اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد مملکت فلاحی ہوگی یا دفاعی؟‌ اور امور کار چلانے کے لیے وزیروں اور مشیروں کا نظام کیسے کھڑا کیا جائے گا؟
جواب: اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد مملکت فلاحی بھی ہو گی اور دفاعی بھی۔ جو اپنی عوام کا دفاع نہیں کر سکتے ان سے فلاح کی امید عبث ہے میرے بھائی۔ وزیر اور مشیر ویسے ہی بناےَ جائیں گے جیسے اب وزیر اعظم یا صدر کی صوابدید پر بنتے ہیں۔

سوال: مختلف فرقوں‌ کو اسلام کے ایک سیاسی نظام پر کیسے متفق کیا جائے گا جبکہ ایک مسجد کا انتظام چلانے پر نوبت مارا ماری تک آجاتی ہے اور کئی فرقے ایک دوسرے کو مسلمان نہیں مانتے یہاں تک کے متحدہ مجلس عمل کا انجام سب کے سامنے ہے جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والی دینی جماعتیں ایک منطقی انجام سے دوچار ہوگئیں جنکی سیاست کا محور اسلامی نظام کا نفاذ رہا ہے۔
جواب: پہلے ایک بات ذہن نشین کیجیئے کہ اسلام ایک لینLane ہے لائین نہیں۔ فرقوں یا مسالک کو آپ ایسی لائنیں کہ سکتے ہیں جو دراصل اسلام کی لین کے اندر ہی ہیں۔ اختلافات فروعی مسائل پر ہیں۔ جن میں نمایاں عبادات و عقا ید وغیرہ کی تفصیل ہے۔ معاشرتی اور معاشی اقدار پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سود، رشوت، جھوٹ، چوری، زنا، فحاشی وغیرہ پر کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ اور ذاتی قوانین وغیرہ فرد کے مسلک و مذہب کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ مثلا نکاح وغیرہ۔ حتی کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی و شخصی آزادی حاصل ہوتی ہے اس وقت تک جب تک وہ کسی کے عقیدے کو تحقیرو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ متحدہ مجلس عمل عقاید کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی وجہ سے تقسیم ہوئی ہے۔ میر جعفر اور میر صادق عموما ذاتی اغراض اور اغیار کی سازشوں کی وجہ سے ہی امت مسلمہ کے قلب پر وار کرتے آےَ ہیں۔ مساجد میں لڑائیوں کی بنیادی وجہ حلوہ ہے۔ اگر ہم خود دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ دینی علم حاصل کریں اور پیشہ ور مولویوں کی بجاےَ تقوی و علم کی بنیاد پر اپنے اندرسے امام چنیں تو یہ مسائل ازخود حل ہو جائیں گے۔

سوال۔ اسلامی نظام کے زیر انتظام معاشیات کس طرح کی ہوگی؟‌ بینکنگ، اسٹاک مارکیٹ اور بین الاقوامی مارکیٹس سے لین دین کی کیا صورت حال ہوگی؟‌ کسطرح اسلامی نظام تمام مسلمان فرقوں اور اقلیتوں کو ایک معاشی نظام پر لا سکے گا؟ خیال رہے کہ اسلامی بینکنگ کے طریقوں‌ پر بھی عام مسلمانوں میں‌کافی کنفیوژن پایا جاتا ہے اور کنزیومر بینکنگ سے بڑھ کر جب مملکت کی سطح پر معاشی نظام کی بات کرتے ہیں‌ تو سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلامی معیشت کی عملی شکل کم از کم عام لوگوں کے علم میں نہیں‌ یعنی اس بات کا کوئی جواب موجود نہیں‌کہ بینکوں کی شکل کیا ہوگی۔ لین دین کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ ملکی اور بین الاقوامی معاہدے کس اصول کے تحت کیے جائیں‌ گے؟‌ ادارے قومی ملکیت میں ہونگے یا نجی ملکیت میں اور کثیر القومی کمپنیاں کس اصول کے تحت اپنے کاروبار سر انجام دیں‌گی؟‌
جواب: اسلامی معاشیات کی بنیاد ” سرمایہ دارانہ نظام” نظام کےطرح سود اور سرمایہ پر نہیں ہو گی۔ نہ ہی “اشتراکیت” کی طرح شخصی جذبہ نفع اور مسابقت کو کچلنے کی غیر فطری کوششوں پر ہو گی۔ بلکہ اس کی بنیاد ان اسلامی اصولوں پر ہو گی جو عام انسانوں کے لیے فلاح کا باعث بنتے ہیں۔ ملاحظہ ہو معاشیات اسلام از سید ابو الاعلی مودودی۔ اسلام اور جدید معاشی نظام از سید ابو الاعلی مودودی۔ سود از سید ابو الاعلی مودودی۔ جو جدید اصول معاشیات اسلام سے متصادم نہیں ہوں گے ان کو اپنانے میں کوئی حرج نہ ہو گا۔ خلاف اسلام اور ناگزیر معاملات کو اسلامی قالب میں ڈھالا جاےَ گا۔ ویسے آپس کی بات ہےکہ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام اسی صدی کے اندر ہی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ ان سے عام انسان کو طفل تسلیوں کے سواء کچھ نہیں مل سکا۔ موجودہ اکنامک ریسیشن اور روس کے زوال پر تحقیق کریں۔

سوال: مجوزہ اسلامی نظام میں پاکستانی شہریوں کے حقوق کسطرح کے ہونگے؟ اولین زمانے کی خلافتوں میں امت نمایاں اور قومیت پس منظر میں تھی جبکہ آج کل مسلمان ملکوں میں بھی قومیت پیش نظر رکھی جاتی ہے کس طرح حقوق کا تعین ہوگا؟ کیا کوئی بھی مسلمان اسلامی ریاست کے تحت پاکستان کی شہریت اختیار کرسکے گا؟‌ ریاست کس حد تک شخص کے معاملات میں‌مداخت کرے گی؟ کیا ریاست چار دیواری کے اندر مملکت کی سطح‌پر نافذ مذہب کا بزور قوت نفاذ کرے گی؟
جواب: اسلامی نظام میں شہریوں کو شخصی و مذہبی آزادی ہو گی لیکن اس کو اس بات کی آزادی نہ ہوگی کہ اس کے کسی عمل سے اس کی اپنی ذات یا کسی دوسرے فرد یا معاشرے کو نقصان پہنچے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو اس بات کی آزادی نہیں دی جا سکتی کہ وہ ہیروئین پی کر اپنی یا کسی کی زندگی کو مفلوج کر دے۔ زنا کے ذریعے عورتوں کے حقوق کو غصب کرے اور فطری ذمہ داریوں سےراہ فرار اختیار کرے۔ جس طرح آجکل مغربی معاشرے میں ریت بن چکی ہے کہ عورتیں صرف اور صرف مرد کی تسکین کا ذریعہ بن چکی ہیں اور عملا ان کی ذمہ داری اٹھانا جوان مردوں کے لیے ناقابل قبول ہو چکا ہے۔ بھائی ایک بات یاد رکھیں اسلام قومیت اور سرحدوں کا قائل نہیں ہے بلکہ انسانیت کا قائل ہے۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہونے والا تو وسائل کا بھرپور فائدہ اٹھاےَ اور کسی قحط زدہ علاقہ میں پیدا ہونے والے اپنے قحط زدہ علاقے کی سرحد تک نہ عبور کر پاےَ اور سسک سسک کر جان دے دے۔ ترقی یافتہ ممالک جو لوگ ان کے لیے مفید ہوتے ہیں ان کو شہریت کی دعوت دیتے ہیں مثلا کاروباری یا فنون جدیدہ میں ماہرین کو۔ جہاں تک بات رہی دیگر مسلمان ملکوں کی تو ہم ان سے ٹھیک اسی طرح کے معاہدے کر سکتے ہیں جیسے یورپی اور اتحادی آپس میں کرتے ہیں۔ ان کا عسکری معاشی اور معاشرتی اتحاد ہو سکتا ہے تو مسلمانوں کا آپس میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ ریاست چاردیواری کے اندر کسی قسم کی مداخلت کا جواز نہیں رکھتی۔ ہمیں اسلام میں ایسے کسی واقعہ یا حدیث کا حوالہ نہیں ملتا۔ ریاست چار دیواری کے اندر تو کیا چار دیواری سے باہر بھی مذہب کا “بزور قوت” نفاذ نہیں کرے گی۔ ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ نبی کریم نے کبھی کسی کو بزورقوت کہا ہو کہ وہ داڑھی رکھے یا نماز نہ پڑھنے پر کسی کو کوڑے مارے ہوں۔

سوال: اسلامی نظام کے زیر انتظام پاکستان میں عدلیہ کا ادارہ کیسے کام کرے گا؟ ججوں کا تقرر کون کرے گا؟‌ کیا سربراہ مملکت کے کرتے کا حساب لیا جاسکے گا؟ اور شخصیت پرستی سے کیسے جلد از جلد عدلیہ اور انتظامیہ کو آزادی دلائی جاسکے گی؟ تعزیرات کی شکل کیا ہوگی؟‌ کیا ہاتھ کاٹنے اور سر قلم کرنے کے قوانین طالبان طرز پر نافذ‌ کیے جائیں‌ گے؟
جواب: مختصرا عدلیہ اسلامی اصولوں کے تحت فوری اور مفت انصاف فراہم کرے گی۔ اس کا پورا ڈھانچہ قرون اولی میں موجود ہے ذرا دین کا مطالعہ بھی کرلیا کریں۔ سربراہ مملکت ہر ایک کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ کسی بھی سزا سے قبل معاشرے کی تعلیم و تربیت کرنا اسلامی نظام کی اولین ترجیہہ ہے۔ چرائم کے اسباب کا خاتمہ بھی سزا سے قبل کرنے والے کام ہیں۔ جیسا کہ بیروزگاری وغیرہ۔ سزا عبرت کے لیے ہوتی ہے۔ ہاتھ کاٹنا ہو یا سر قلم کرنا سزا کا مقصد برائی کو روکنا ہے نہ کہ برائی کرنے والے کی مزید برائی کے لیے تربیت فراہم کرنا۔ کسی ایک کے ہاتھ کاٹنے سے لاکھوں اگر چوری کی جراَت نہ کریں تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے بہ نسبت اس کے کہ چور جب جیل جاےَ تو ڈاکو بن کر نکلے اور ڈاکو جیل جاےَ تو قاتل بن کر نکلے۔ جب خدا پرستی ہوگی تو شخصیت پرستی از خود ختم ہو جاےَ گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بدو بھی فاروق اعظم سے سوال کرنے میں ڈرتا نہیں تھا۔ جس کے زیر نگیں ریاست میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

سوال: تعلیمی نظام کس طرح کا ہوگا؟‌ مذہبی تعلیم اگر سرکاری سطح‌پر دی جائے گی تو اقلیتوں اور سرکاری مذہب سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کی تعلیم کا کیا انتظام کیا جائے گا؟‌ کیریر بلڈنگ، تکینیکی علوم اور عمومی علوم و فنون کی تعلیم کا اسلامی نظام میں کیا درجہ ہوگا؟‌ حکومت کسطرح روزگار کا بندوبست کرے گی؟‌
جواب: تعلیمی نظام افراد کو علوم جدیدہ کے ساتھ ساتھ اخلاق اور کردار سازی کو پیش نظر رکھ کر مرتب ہوگا۔ اقلیتیں اپنے مذہب کے مطابق تعلیم حاصل کر سکیں گی۔ کیریر بلڈنگ، تکینیکی علوم اور عمومی علوم و فنون کی تعلیم کا عروج مسلمانوں ہی کے دور میں ہوا تھا۔ مسلمان سائنسدان ۔۔۔ سائینس کی ایسی کڑی ہیں جو اگر نہ ہوتی تو موجودہ ترقی ہونا عبث تھی۔
یار تم ریسرچ کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔

سوال: اظہار رائے کی آزادی مجوزہ اسلامی نظام میں کس طرح‌ کی ہوگی؟‌ کیا سرابرہ مملکت تنقید سے بالا تر ہوگا؟ کیا مملکت کے اختیار کردہ قوانین (مذہب)‌میں بحث کی گنجائش ہوگی؟ اختلافی نکتہ نظر رکھنے والوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا؟‌ میڈیا کی اخلاقی حدیں کون متعین کرے گا؟‌ لباس، ثقاوت اور روز مرہ کی تفریحات میں لوگوں کو کتنی آزادی حاصل ہوگی؟
جواب: اظہار راےَ کی آزادی ہوگی بدو کی مثال پڑھو اوپر۔ قوانین پر علمی بحث قرآن سنت کی روشنی میں ممکن ہوگی۔ میڈیا کی اخلاقی حدیں شوری ہی مقرر کرے گی۔ لباس۔۔۔ ایسا جو لباس کہلانے کے لائق ہو اور اس کا مقصر جسم ڈھانپنا ہو نا کہ نمایاں کرنا۔ روز مرہ کی تفریحات کی آزادی ہو گی مگر ایسی تفریح جس سے کسی کاجانی مالی یا اخلاقی نقصان ہو مثلا جواء سٹہ بازی فحاشی پر مکمل پابندی ہو گی۔

پاکستان میں اسلامی نظام کی بات کو کبھی تعروں کی حد سے آگے بڑھنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی اور مغرب سے متاثر زہنوں کو میڈیا نے مفلوج کر رکھا ہے۔ جو نظام اس وقت پوری دنیا پر رائج ہے اس سے فائدہ اٹھانے والے اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے اسلامی نظام کو خواہ مخواہ دھندلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مسلمان نام کے مسلمان بن گئے ہیں دینی معاملات کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ پیشہ ور مولویوں کے محتاج ہیں جو ان کا رخ جس سمت چاہیں موڑ دیتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ طالبان کا نظام اسلامی نظام نہ تھا اور یہ نہ ہی اسلام کا آئیڈیل نظام ہے مگر پھر بھی اپنے اندر تھوڑا بہت اسلامی اقدار رکھنے کے باعث وہ موجودہ نظام سے قدرے بھتر ہے۔

راشد کامران

April 24th, 2009 at 12:41 pm    


عمران صاحب۔۔ وقت نکال کر تبصرے کا بہت شکریہ۔۔۔
یہ تو سیدھا سیدھا 73 کے آئین کے تحت جمہوریت بحال کرنے کا نسخہ ہے۔۔ اور اسی پر سب کو متفق ہونا ہے تو پھر یہ بلا وجہ کا شور شرابا اسلامی نظام کے نفاذ کی آڑ میں‌کیوں مچایا جاتا ہے۔۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website