یوسفی صاحب

اردو مزاح کو  ایک لمحے کے لیے عیسائیت کا فرقہ مان لیں تو یوسفی صاحب کے مجموعے کی حیثیت بالکل ایسی معلوم ہوگی  جیسے رائج انجیل؛  اب کسی “سان یوسفی مشنری اسکول” کی موجودگی سے یہ نتیجہ اخذ نا کربیٹھیے گا کہ بعینہ یہی صورتحال ہے جبکہ راقم محض تمثیل پر اکتفا کرنے پر بضد ہے۔ ہمارے لیے تو یہ یقین کرنا ہی محال تھا کہ کوئی زندہ ادیب اس قدر عمدہ مزاح تخلیق کرسکتا ہے؛ اول اول تو وکی پیڈیا کا ہی قصور نظر آیا اور جب تک ان گنہگار آنکھوں نے آلئہ تشریحات بصری پر روبرو حضرت کا دیدار نا کرلیا اس بابت شک  پر ہی یقین رہا‌، اس چشم کشا انکشاف سے پہلے  تو عظیم ہونے کی “ٹوڈو لسٹ”  میں مردہ ہونا ہمارے نزدیک اندراج اولی کے درجے پر فائز تھا۔ یوں بھی جب آپ ایسے دور میں جی رہے ہوں جب  اعلٰی مذاق کے حامل و حاملہ حضرات و خواتین بھی وصی شاہ کے اشعار کی تقطیع بگاڑ کر موبائل مزاح تخلیق کررہے ہوں (جیسے اپنی اصلی حالت میں شاعر سے کوئی کسر رہ گئی ہے) تو ایسے میں حقیقی مزاح نگار کی طبعی زندگی خواہ مخواہ کی امید پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے جو موجودہ حالات میں قابل محصول عیاشی ہی سمجھی جانی چاہیے۔

یوسفی صاحب کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا ایسا ہی ہے جیسے صدر مکرم جمہوریہ کا انسداد بدعنوانی کی مہم میں حصہ لینا، اسرائیلی وزیر اعظم کا نسل کشی کے خلاف مرن ورت رکھنا  یا کسی اردو بلاگر کا اپنی تحریروں کو دلیل سے مزین کرنا لیکن جس قسم کی نرگسیں آج کل بین ڈالنے کے قومی اداروں سے منسلک ہیں ایسی صورت میں ہمارے جیسے دیدہ ور کی پیدائش کو بھی خداداد ہی سمجھیے اور بقول طارق عزیز(الیکٹرا والے) تھوڑا کہے کو بہت جانیے ۔

یوسفی صاحب کی تحریروں کا مزاج ایسا ہے کہ نا تو یہ نصاب میں‌شامل کی جاسکتی ہیں‌اور نا ہی طالبانی طرز کی حکومتیں بھی ان پر پابندی لگانے کی کوئی راہ نکال سکتی ہیں نصاب کی موجودہ صورت حال سے یہ اندازہ لگانے میں قطعا کوئی دشواری نہیں‌ہونی چاہیے کہ مضامین یوسفی کو سمجھنے کے لیے جن دماغی خلیوں‌کی موجودگی ایک ضروری امر ہے ہمارے ” ارباب نصاب” خصوصی طور پر ایسے جینیاتی عمل کے ذریعے پیدا کیے جاتے ہیں جہاں‌اس قسم کے کسی خلیے کی پیدائش  اتنی ہی دشوار ہوگی جیسے ایران میں ہم جنسوں کی موجوگی۔ اور مذکورہ حکومتوں کا تو رونا ہی کیا وہ کسی بھی قسم کے دماغی خلیوں‌کی پیدائش کو ایک غیر شرعی فعل سے تعبیر کرتی ہیں جو اس مخصوص صورتحال میں باعث رحمت سمجھا جانا چاہیے۔ یوسفی صاحب کے بارے میں کچھ ناقدین کی رائے یہ بھی ہے کہ وہ تاریخ، مذہب اور سیاست کے موضوعات سے دانستہ اجتناب برتتے ہیں ایسے ناقدین کے بارے میں یوسفی صاحب کے الفاظ میں عرض کروں توں انہوں نے مضامین یوسفی بھی اسی طرح پڑھے ہیں جیسے قران و حدیث۔

مسئلہ کافی پر چائے کی  برتری کا ہو یا کاربار کتب خانہ۔ تاریخی لڑائیاں ہوں یا دوستوں کی پھبتیاں۔ تذکرہ مغل بچے کا ہو یا ہینری ہشتم کا، آغوش یوسفی میں یہ ایسے پروان چڑھتے ہیں کہ پھر کسی بدنظر کا اثر ان پر نہیں ہونے پاتا لیکن اب کہ یہ آب گم ہوا تو اُس کے بعد سوکھا ہے کئی نسلوں تک۔

Filed Under: اردو, طنزومزاح

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (40)

عدنان مسعود

October 4th, 2010 at 6:41 pm    


راشد بھائی، کیا کہئے کہ آج غالب غزل سرا ہو گیا۔۔۔ماشااللہ، بہت خوب۔

اس قدر اعلی معیا ر کا مزاح لکھتے ہیں ، پر شکایت ہے کہ کم کم لکھتے ہیں، آپکے استعارات مثلا سان یوسفی اردو ادب میں ہسپانوئ عمل دخل کی راہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں، یقینایہودی سازش ہے۔ بقیہ یوسفی صاحب کی کیا کہیں کہ بقول شخصے ہم مزاح کے عہد یوسفی میں رہ رہے ہیں۔ اب تو قحط الرجال ہے، کون لکھے گا بے بند کی آبی محرم کا فقط قوت ارادی پر ٹکا رہنا۔ آپ کو شش کریں، اللہ کرے زور قلم اور۔

نعمان

October 4th, 2010 at 7:08 pm    


کن الفاظ میں اس مضمون کی تعریف کی جائے؟ مجھ میں تو اتنی قابلیت نہیں کہ کچھ کہوں۔ جی چاہتا ہے کہ آپ کی انگلیاں چوم لی جائیں۔  

ایم اے امین

October 4th, 2010 at 8:18 pm    


راشد برادر، تسی چحا گئے ہو سچی وچ، اول یوسفی پر لکھنا اور دوم اسقدر روانی اور خوبصورتی سے لکھنا کمال ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بلاگ اگر یوسفی بھی پڑھیں تو ضرور متاثر ہوں گے۔

عثمان

October 4th, 2010 at 9:51 pm    


بھائی جی۔۔۔۔
آپ کم کم کیوں‌ لکھتے ہیں۔ کیا ہم نوواردوں‌ سے کوئی ناراضگی ہے؟
تحریر خوب ہے۔ حق یوسفی ادا کردیا ہے۔ :)

قدیر احمد جنجوعہ

October 4th, 2010 at 10:44 pm    


راشد: واللہ ابھی تک زبان پر اس تحریر کا مزہ باقی ہے۔

یاسر خوامخواہ جاپانی

October 4th, 2010 at 11:57 pm    


زبردست۔
یوسفی صاحب بھی کیلکولیٹر لئے حساب و حساب خوش ہو رہے ہوں گے۔
تعریف کیلئے دماغ اور الفاظ نہیں ہیں۔
بہت خوب۔
نہ سمجھ آنے والی بات ایک ہی ھے۔حامل و حاملہ حضرات و خواتین۔۔۔۔۔
یہ حضرات حاملہ کیسے ہوتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا۔

محب علوی

October 5th, 2010 at 12:10 am    


بڑے عرصہ بعد لکھا ہے اور حسب توقع لکھا ہے اور لکھنے کی رفتار بھی یوسفی صاحب کی طرح ہوتی جا رہی ہے۔ یہ جملہ مجھے تو حاصل مضمون لگا ویسے اور بھی بہت شاندار جملے ہیں مگر فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں

ہمارے لیے تو یہ یقین کرنا ہی محال تھا کہ کوئی زندہ ادیب اس قدر عمدہ مزاح تخلیق کرسکتا ہے

کاشف نصیر

October 5th, 2010 at 1:05 am    


بہت عمدہ تحریر ہے
اور یوسفی صاحب کی کیا بات ہے۔
شاید پہلی دفعہ آپکے بلاگ پر آیا ہوں، پڑھ کر اچھا لگا۔۔۔۔

جعفر

October 5th, 2010 at 1:08 am    


گنگ ہوکے رہ گیا ہوں۔۔

محمد وارث

October 5th, 2010 at 2:29 am    


قبلہ اگر پہلے ہی جملے میں دی گئی آپ کی تشبیہ درست مان لی جائے تو آپ بھی کسی ‘سینٹ پال’ سے کم ثابت نہیں ہونگے :)

لاجواب!

عمر احمد بنگش

October 5th, 2010 at 6:13 am    


واہ صاحب۔۔ بڑے عرصے بعد آمد ہوئی اور قسمت میری دیکھیے کہ ابھی ابھی شام کی چائے کا دور شروع کیا تو ساتھ بلاگستان میں‌آپکی تحریر دیکھتے ہی دوڑا چلا آیا۔۔۔۔ یقین جانیے دن بھر کی تھکان رفوچکر ہو چکی ہے۔
نہایت عمدہ۔۔۔

نبیل

October 5th, 2010 at 6:59 am    


کل ہی میں نے کسی کو آب گم کا وہ اقتباس سنایا جس میں ایک بزرگوار املتاس کے درخت پر ٹنگے ہوئے بشارت کے ٹانگے کے گھوڑے کے شجرہ نسب میں پدری حیثیت سے داخل ہونے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔ :)
جن اردو بلاگرز کی آپ نے بات کی ہے وہ شاید اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے نہیں آئے۔ یہاں تبصرہ کرنے والے تو نہایت مدلل تحاریر لکھتے ہیں۔ اور ان میں سے کچھ میں ایک آدھ دماغی خلیہ پائے جانے کا قوی امکان بھی پایا جاتا ہے۔ :)

راشد کامران

October 5th, 2010 at 3:23 pm    


آپ تمام احباب کی حوصلہ افزائی پر نہایت مشکور ہوں؛
خصوصا وارث صاحب‌کہ قبلہ آپ کے تحریر پڑھ لینے سے ہی اس کی وقعت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور امید رہتی ہے کہ نثر میں بدنظمی نہیں‌ہوئی۔

منیر عباسی

October 5th, 2010 at 10:26 pm    


اتنی اچھی تمہید کے بعد اس خوبصورت تحریر کا یک دم ختم ہو جانا اچھا نہ لگا، مگر پھر یہ سوچ کہ دل کو تسلی دی کہ شائد اس کی اگلی قسط جلد شائع ہو ۔۔

ابن سعید

October 6th, 2010 at 12:45 am    


اتنی دیر تک ہماری خاموشی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے تحریر دیر سے پڑھی بلکہ ہم گنگ سے تھے کہ کچھ لکھنے کو نہ سوجھتا تھا۔ کیفیت کچھ ایسی ہو رہی ہے کہ اپنا بینک اکاؤنٹ ٹٹول کر دیکھ چکے ہیں جس کے تین عددی ہندسے میرا منھ چڑا رہے ہیں ورنہ سوچ رہے تھے کہ فیض یابی کی غرض سے آپ کے شہر کا قصد کر کے رخت سفر باندھ لیتے اگلے لانگ ویک اینڈ پر۔ خیر اب تو آپ کو یہاں بلوانے کی درخواست کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔

عنیقہ ناز

October 6th, 2010 at 12:54 am    


صرف اس لئے تبصرہ کرنا پڑا کہ یہاں پہ تبصرہ کرنے والے مدلل تحاریر لکھتے ہیں اور ان میں ایک آدھ دماغی خلیہ پائے جانے کا قوی امکان ہے۔ سوچا اس بہانے اپنا نام بھی شامل ہو جائے تو کیا حرج۔ تو انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو رہی ہوں۔ یوسفی صاحب کی کتاب زرگذشت میں یقینآ کچھ ایسے پہلو ہیں جن پہ طالبانی حکومتیں پابندی لگائیں گی۔
اور انکی بعض تحاریر پہ تو متعصب ہونے کا الزام بآسانی لگ سکتا ہے۔
میرے ایک کو لیگ تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے پوزیشن ہولڈر۔ دنیا کے ایک بڑے مشہور اسکالر شپ کے حامل، جرمنی سے پی ایچ ڈی کرنے کی سعادت حاصل کی۔ شطرنج اچھی کھیلتے تھے۔ یہ سارے حوالے اس لئے کہ انکی دماغی ساخت کا اندازہ ہو جائے۔ ان کے سامنے ایک دفعہ میں نے غلطی سے یوسفی کی شان میں ایک قصیدہ پڑھ ڈالا اور زور جذبات میں انہیں پسندیدہ مزاح نگار تک کہہ ڈالا۔ ماتھے پہ بل ڈالے اور کہنے لگے کہ اگر انکے مزاح میں سے خواتین کا بیان، جنس کا احوال اور اردو کی مشکل تراکیب کو منفی کر دیا جائے تو شاید آپ یہ دیکھنے میں کامیاب ہو جائیں کہ اردو میں ان سے کہیں بیش قیمت مزاح نگار موجود ہیں۔
میں اس دن سے خاموش ہوں۔

محمد وارث

October 6th, 2010 at 1:44 am    


قبلہ آپ کی پیشگی اجازت کے بغیر اس خوبصورت تحریر کو اردو محفل فورم کی زینت بنا دیا ہے، امید ہے برا نہیں مانیں گے :)
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?31739-%DB%8C%D9%88%D8%B3%D9%81%DB%8C-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D8%A7%D8%B2-%D8%B1%D8%A7%D8%B4%D8%AF-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D8%B1%D8%A7%D9%86

تلمیذ

October 6th, 2010 at 2:52 am    


یوسفی صاحب کی مدح میں لکھے گٕے بے شمار مضامین میں ایک گران قدر اضافہ!

عنیقہ ناز

October 6th, 2010 at 5:15 am    


اور ہاں ایک بات تو کہنا بھول گئ تھی کہ اگر خواتین اور جنس کو نکال دیا جائے تو آپکی اکثر تحریریں یوسفی کی یاد دلاتی ہیں۔
:)
آپ ان سے آن لائن شاگردی اختیار کر لیں تو یہ آب گم نہیں ہوگا۔ اور ہمارے کو لیگ کسی کو تو اچھا مزاح نگار تسلیم کریں گے۔
:)

محمد وارث

October 6th, 2010 at 6:02 am    


ویسے عنیقہ صاحبہ نے جن موصوف کا تبصرہ یوسفی پر بیان کیا ہے ان کے متعلق یہ نہیں لکھا کہ وہ گنجے بھی ہیں یا نہیں اور موٹا چشمہ بھی لگاتے ہیں یا نہیں، تا کہ انکی “دماغی ساخت” اور “ذہنی حالت” کا مکمل ادراک ہو سکے :)

نبیل

October 6th, 2010 at 8:28 am    


عنیقہ نے جن کا ذکر کیا ہے وہ پی ایچ ڈی ضرور ہوں گے لیکن شاید ان کے دماغ میں خلیوں کی تعداد صفر ہوگی۔ :(
اور کامران کے لیے بھی اشارہ ہے کہ انہیں بہتر مزاح نگار بننے کے لیے کن اضافی لوازمات کی ضرور ہے۔ :)

فیصل

October 6th, 2010 at 9:13 am    


بڑی عمر ہے مولانا آپکی۔ کل ہی آپکے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کہاں غائب ہیں۔ اور یہ بھی کہ ہم کم کم لکھتے ہیں‌تو کیا برا کرتے ہیں اگر آجکل آپ اور ابو شامل بھی کم کم ہی نظر آتے ہیں۔
تحریر کا مزا آ گیا۔ یوں لکھا ہے جیسے کائی زدہ گھڑے پر برسات کی بوندیں پھسلتی ہیں۔ بہت ہی شستہ۔ ایک تبصرہ نگار کے تبصرے نے البتہ مزا خراب کر دیا۔ شائد کچھ لوگ اپنی نوئزنس ویلیو
nuisance value
پر ہی خوش ہیں ؛)

امتیاز

October 6th, 2010 at 11:57 am    


طبیعت باغ باغ ہو گئی جناب۔۔
بہت اعلی

راشد کامران

October 6th, 2010 at 12:04 pm    


ڈاکٹر صاحب۔۔ شکریہ، نا معلوم کیوں مجھے یہ خدشہ لاحق ہے کہ طویل تحریریں چاہے کتنی اچھی کیوں نا ہوں‌ اس ٹوئٹر کے دور میں ہر فقرے پر قاری کی توجہ حاصل کرنا مشکل ہے، اس لیے ذاتی طور پر میں مختصر کی مشق میں مصروف ہوں جس میں کبھی جزوی کامیابی اور اکثر ناکامی کا سامنا رہتا ہے :)

ابن سعید صاحب۔۔ جناب آپ تشریف لائیں یا ہمیں “شرف بازیابی” دیں کیا فرق پڑتا ہے، اصل بات تو ملاقات ہے۔

وارث صاحب۔ جناب آپ کی مہربانی ہے جو آپ نے اس قابل سمجھا اجازت کو تو کوئی بات ہی نہیں

عنیقہ صاحبہ۔ میں آپ کی پسند اور مشوروں پر شکر گزار ہوں۔
جن صاحب نے یوسفی صاحب کی تحریروں میں خواتین کا بیان، جنس کا احوال اور اردو کی مشکل تراکیب تلاش کرلیں ہیں مجھے شبہ ہے کہ وہ منٹو کے افسانے یوسفی کی کتاب سمجھ کر پڑھتے رہے ہیں یا مصروفیات کی بنا پر “تھرڈ پارٹی”‌ خلاصوں سے کام چلایا ہے :)‌ ورنہ پطرس اور یوسفی صاحب کے مضامین سے ہی انسان کو پتہ چلتا ہے مزاح محض‌ زیر ناف ہوئی وارداتوں کا بیان نہیں اور ایک اچھا مذاق غیر فحش بھی ہوسکتا ہے۔

فیصل بھائی۔۔۔ ہم کہاں مولانا جناب ہم تو مسٹر بھی نہیں‌ :)‌ آپ کے دو فقروں نے سیروں خون بڑھا دیا ہے۔ ابوشامل صاحب بلاشبہ ایک بڑے سانحے سے گزر رہے ہیں اللہ انہیں صبر عطا کرے اور انشاء اللہ جلد وہ اپنے بلاگ پر کچھ تحریر کریں گے۔

راشد کامران

October 6th, 2010 at 12:28 pm    


شکریہ امتیاز صاحب۔

عثمان

October 6th, 2010 at 1:10 pm    


” مزاح محض‌ زیر ناف ہوئی وارداتوں کا بیان نہیں ”
بہت خوب!! :)

ویسے۔۔۔صاحب۔۔منٹو پر اک نظر اور ڈال لیجئے۔ کثرت کلام نے معیار کو کچھ زک ضرور پہنچائی ہے۔ لیکن ایسی بھی بات نہیں۔ کم از کم ہم عامیوں کو تو وہی سمجھ لگتی ہے۔ :)

عثمان

October 6th, 2010 at 1:16 pm    


نجانے کیوں‌ مجھے آپ کے تبصرے سے یوں لگا کہ آپ منٹو کے افسانے مزاح‌ نگاری کے ضمن میں‌ پڑھتے رہے ہیں۔ :) :)

راشد کامران

October 6th, 2010 at 1:26 pm    


عثمان صاحب۔۔ میری ناقص رائے میں تو منٹو معاشرے کی تصویر کشی کرتا ہے۔۔ معاشرہ ننگا تو تصویر بھی ننگی۔۔ اور یہ آپ جانتے ہیں کہ ننگی تصویریں کسی کے لیے عبرت کا نشان اور کسی کے لیے شہوت کا سامان۔۔ اصل بات تو مقصد کی ہے۔۔ موضوع پر رہیں تو میں‌ اپنی بات پر قائم ہوں کہ یوسفی کے مزاح میں عام فہم واقعات سے جتنا عمدہ مذاق بیان کیا جاتا ہے کم از کم میری نظر سے تو اس کی مثال اردو میں نہیں گزری اور کچھ چیزیں تو بہت خالص ہیں غزل کی طرح۔

عثمان

October 6th, 2010 at 3:03 pm    


قبلہ آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ میں تو صرف آپ کی رائے لینا چا رہا تھا۔ ویسے ہوسکے تو دوسرے ادیبوں پر بھی اسی طرح کی تحریر لکھیں۔ اسی بہانے ہمیں آپ کو بھی پڑھنے کا موقع ملتا رہے گا۔ :)

عرفان بلوچ

October 15th, 2010 at 1:19 am    


حاملہ کا اضافہ خوب کیا ، اس طرف تو یوسفی کا بھی شیطانی ذہن نہیں گیا آج تک ۔۔ باوجود طالبانی ذہن رکھنے کے داد دینی پڑے گی
عثمان اور عدنان آپ کی راشد بھائی سے کم کم لکھنے کی شکایت بے جا ہے ۔راشد بھائی پر یوسفی چھاپ نمایاں ہے یہ ان ہی کے نقش قدم پر ہیں
جعفر بھائی آپ گنگ ہو کر نہیں رہ گئے گم ہو کر رہ گئے ہیں ،۵ ستمبر کے بعد سے گم ہیں میں تو اعلان کروانے والا تھا
بہر حال تحریر شاندار ہے جاری رکھیں‌طالبان کو کوءی اعتراض نہیں ہے 

راشد کامران

October 16th, 2010 at 12:20 pm    


شکریہ عرفان بلوچ صاحب۔۔
ازراہ مذاق کہ یہ میرے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ طالبان کو میری تحریروں‌پر اعتراض نہیں‌ رہا :)۔

ڈاکٹر جواد احمد خان

November 30th, 2010 at 3:44 am    


عثمان صاحب۔۔ میری ناقص رائے میں تو منٹو معاشرے کی تصویر کشی کرتا ہے۔۔ معاشرہ ننگا تو تصویر بھی ننگی۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

معزرت کے ساتھ راشد کامران صاحب،
اگر مصور کسی غسلخانے میں سوراخ کر کے وہیں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جائے تو ؟
سعادت حسسن منٹو ایک بڑا افسانہ نگار تھا شاید اردو ادب میں اس سے بڑا افسانہ نگار کوئی نہیں گزرا مگر ایک ظلم اس نے خود اپنے ساتھ یہ کیا کیا کے موضوعات کو پھیلا نہ سکا .

راشد کامران

December 1st, 2010 at 7:05 pm    


ڈاکٹر صاحب‌ایک طرف ہم اسے سب سے بڑا افسانہ نگار کہیں‌دوسری طرف اسے موضوع کے معاملے میں قلاش قرار دیں تو یہ عجیب معاملہ ہوجائے گا۔۔ واقعہ یہ ہے کہ منٹو صرف حمام میں‌ سوراخ نہیں کرتا بلکہ چوک پر برہنہ پھرنے والوں‌ کی بھی بات کرتا ہے۔۔ کس معاشرتی موضوع پر آپ سمجھتے ہیں کہ منٹو نے نہیں‌ لکھا؟

ابوشامل

December 9th, 2010 at 5:39 pm    


“یوسفی صاحب کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا ایسا ہی ہے جیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی اردو بلاگر کا اپنی تحریروں کو دلیل سے مزین کرنا”
ہاہاہاہا ۔۔۔۔ حضور! آپ نے تو چھتر گیلا کر کے مارا ہے :) تحریر بہت لاجواب ہے، کئی مرتبہ پڑھ پڑھ کر محظوظ ہو رہا ہوں۔

Shehzad

December 23rd, 2010 at 7:44 am    


Incredible use of metaphors, mashAllah

دانیال دانش

January 31st, 2011 at 9:58 am    


بہت عمدہ تحریر ہے۔

یوسفی صاحب | Tea Break

May 5th, 2011 at 1:51 am    


[…] یوسفی صاحب […]

صابر ساگری

November 8th, 2011 at 7:11 am    


جناب راشد کامران صاحب
تحریر پسند آئی، بہت ہی خوب۔

Ajaz Latif

June 3rd, 2012 at 3:14 pm    


I dont understand why are ou scared of using Quran ibstaed of Bible , Because:
1. Islam is superior than Christianity.
2. Aapki phat tee hai ke kahin maar na diye jayen
3.Its okay to be funny with other religions but not islam

Pakistanis are the biggest problem in the region. That has to be dealt with firm hand or its going to devil-ise the whole region- Nothing personal about you, but you seem to be an off shoot of that brethren.
Ajaz Latif

مانی

February 5th, 2013 at 6:58 pm    


ہے بڑی پرانی، لیکن سوادلی اے۔ خوب است پیارے بھیا

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website