قاتلوں کو کچھ نا بولو۔

ہر زخمی اور ہلاک ہونے والے پر ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن قاتلوں کو کچھ نا بولو وہ معصوم ہیں دشمن کو پہنچانتے نہیں دشمن تو ان صوبوں میں رہتے ہیں جن کا وزیر اعلی شہباز شریف نہیں ہے۔ وہاں حملے کرو پنجاب میں کیوں کررہے ہو۔

چلو ایک قدم آگے بڑھ کر یہ تو مانا کہ حملے طالبان ہی کرتے ہیں ورنہ اب سے پہلے  تو “بغیر ختنہ شدہ”  کتے بلی کا گوشت کھانے والے را کے ایجنٹ خود کش حملہ آور ہی دستیاب تھے۔

Filed Under: پاکستان, سياست

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (15)

arifkarim

March 15th, 2010 at 4:10 pm    


جی نہیں۔ حملے انسان ہی کرتے ہیں اورمرتے بھی انسان ہی۔ کیا طالبان طالبان کی رٹ لگا کر اپنے آپکو مہذب ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے!

راشد کامران

March 15th, 2010 at 4:18 pm    


عارف صاحب تو کیا آپ کے خیال میں لاہور میں حملے کرنے والے اور بلاوجہ جانیں گنوانے والوں میں کوئی فرق نا رکھا جائے؟

عبداللہ

March 15th, 2010 at 4:36 pm    


امیر شہر غریبو ں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلہ مذہب کہیں بنام وطن
خدا کا نام جہاں لوگ بیچتے ہیں فراز
بصد وثوق وہاں کاروبار چلتے ہیں

کنفیوز کامی

March 15th, 2010 at 4:53 pm    


بڑا غیر ذمہ دارانہ بیان ہے شک و شبہات سے لبریز اب بھی عوام کو عقل نا آئے تو ماتم واجب ہے ۔

نعمان

March 15th, 2010 at 6:22 pm    


میں اس پر لکھنے والا تھا۔ شہباز شریف کا بیان ایک بزدل حکمران کی رحم کی اپیل معلوم ہوتی تھی۔

قدیر احمد

March 15th, 2010 at 9:04 pm    


کیا کہہ سکتے ہیں
:(

عنیقہ ناز

March 16th, 2010 at 12:34 am    


میں بھی اس پہ لکھنے والی تھی۔ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کچھ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا۔ لیکن اب نون لیگ نے اپنے آپکو کھول کر پیش کر دیا۔ اور یہ بات بھی سامنے آگئ ہے کہ کس طرح مذہب کو استعمال کیا جاتا ہے۔
شہباز شریف نے وہ کہا جو انکے دل میں تھا۔ صرف پنجاب کو چھوڑ دو۔ باقی لوگوں کیساتھ جو دل چاہے کرو۔ اب کہاں گئ مسلم پرستی، کیا یہ قومیت پرستی اور تعصب پرستی نہیں ہے۔ اور دعوی انکا ملک گیر جماعت ہونے کا ہے۔ اگر لوگوں میں ذرا بھی سمجھ ہو تو انکا بائیکاٹ کر دیں۔
سرحد میں ایک خاتون پارلیمنٹ ممبر نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران اپنی چادر اتار کر پھینک دی کہ بزدل شہباز شریف اسے پہن کر گھر بیٹھ جائیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ بزدل نہیں ہیں۔ انکی جماعت کا نظریہ وہی ہے جو طالبان کا ہے۔ اور یہ انکی مکمل تاریخ ہے۔ وہ خود حیران ہیں کہ وہ بے وفا نہیں ہیں انہوں نے ہمیشہ اپنے نظرئے سے وفا کی ہے چاہے پاکستانیوں سے بے وفائ کریں۔ اور اب طالبان ایسا کر رہے ہیں۔
لیکن اس سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پنجاب میں لوگوں کی ایک اکثریت طالبان کی حامی ہے جبھی تو نواز شریف کو ووٹ دیتے ہیں بس انہیں یہ بات پسند نہیں آتی کہ طالبان پنجاب میں دھماکے کریں۔ اور وہ معصوم حیران ہوتے ہیں کہ پنجاب میں طالبان ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لئے را کے ایجنٹس کو سامنے لانا پڑتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ لاہور کے رہنے والے کب تک اس دہشت میں رہیں گے۔ کیونکہ فی الحال تو دہشت گردوں نے اسے اپنا مرکز بنا لیا ہے۔ کراچی میں بھی عرصہ ءدراز تک لوگوں کو طالبان کی موجودگی ایک بے کار کا واویلہ لگتی تھی۔ اور طالبان حامی گروپ اسے طالبان کے خلاف سازش سمجھتا تھا۔ اب پچھلے دو مہینوں میں کیا کیا خبریں سامنے نہیں آئیں۔ اب جیسے ان لوگوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اب بھی کہہ دیں کہ یہ وہ نہیں ہیں۔ یہ ہیں عوام کی جانوں کی پرواہ نہ کرنیوالے بے حس لوگ، جو نجانے کس مذہب کی بالادستی چاہتے ہیں۔
خیر ہم تو پہلے سے یہی کہہ رہے تھے۔ اب دیکھیں نواز حمائتی گروپ کیا توجیہہ سامنے لاتا ہے۔

راشد کامران

March 16th, 2010 at 12:52 am    


عنیقہ صاحبہ میرا نہیں خیال کے کوئی بھی باشعور آدمی چاہے اس کا تعلق یا ہمدردی کسی بھی جماعت سے ہو شہباز شریف کے اس احمقانہ بیان سے متفق ہوگا۔ باقی جن لوگوں کو طالبان لیڈروں کے اقبالی بیانات تک قائل نہیں کرسکتے کہ خود کش حملوں میں شدت پسند مذہبی تنظیمیں ملوث ہیں ان کو آپ کسی دلیل سے قائل نہیں کرسکتے وہ خوابوں اورکانسپیریسیز کی دنیا میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں۔

ڈفر

March 16th, 2010 at 1:00 am    


مجھے تو جی اس گنجے جونئیر کے بیان سے بڑی مایوسی ہوئی ہے

عمر احمد بنگش

March 16th, 2010 at 2:09 pm    


یہ نہایت دلچسپ ہے، باقی کے لوگ جو چاہیں‌کریں۔۔۔ جناب وزیر اعلٰی صاحب عرضی لے کر پہنچ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ انشاء‌اللہ امید ہے پنجاب کے لوگ جلد ہی خوشخبری سنیں‌گے، یہاں‌ بھی اسلام کا بول بالا ہوا ہی چاہتا ہے۔۔۔
اس سے بھی دلچسپ یہ ہے کہ طالبان نے تو اب وزیر اعلٰی صاحب کو پیشکش بھی کر دی ہے۔۔۔ تو کیا خیال ہے، شہباز صاحب۔۔۔۔ ہو جائے ایک اور راؤنڈ؟
بات آپکی بالکل درست ہے کہ شکر ہے صاحب نے یہ مانا تو کہ یہ طالبان ہی ہیں۔۔۔ ورنہ امیر المومنین بننے کا خواب تو “شرفاء” کافی عرصہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔۔۔
میں‌تو صرف کہوں‌گا۔۔۔۔ حد ہے یار، اتنے بے وقوف ہیں‌ باقی کے ملک والے خاص کر صوبہ سرحد والے ایویں‌میں‌جانیں‌گنوائیں‌، چنگی بھلی شریعت نافذ بھی ہو گئی تھی۔۔۔

عبداللہ

March 17th, 2010 at 10:05 pm    


http://ejang.jang.com.pk/3-18-2010/pic.asp?picname=313.gif

apna korea..

March 30th, 2010 at 11:06 am    


اس کو کہتے ھیں جی قوم پرستی کی سیاست ،،

علی رضا

July 8th, 2010 at 7:40 am    


میں تو یہ کھہوں گا جب پاکستان آزاد ھوا تھا تو پاکستان ک چار صوبے تھے تو جو کوئی ب حکمران ھو اسے سب صوبون ک بارے میں سوچنا چاھیے یہ اچھی بات نھیں ھے دوسرے صوبوں والوں کا بھی حق ھے پاکستان پر وہ بھی پاکستانی ھیں باقی میری اردو کمزور ھے تھوری معزرت چاھتا ھوں

سید مسعود حیدر

August 22nd, 2010 at 12:13 pm    


پیارے پاکستانی بھائیوآپ لوگ پر دیس میں بیٹھے جب پاکستان کا کوئ بھی خبروں کا چینل دیکھتے ھیں تو آپ کے دل پر کیا بیتتی ھے۔؟کیا آپ کا بھی دل اسی طرح بیچین ھوتا ھے جیسے کہ میرا۔اگر بے چین نھی ھوتا تو اپنے بارے مین پریشان ھو جائين اور اللہ سے دعا کریں کہ اللہ آپ کو ایک مضطرب دل عطا کرے کیونکہ اللہ کو بھی مضطرب دلوں سے پیار ھے اور وہ بھی مضطرب دلوں کی فریاد سنتا ھے اسی لیے تو شائد اقبال نے مانگی خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے۔۔۔۔کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نھی

ائیے پہلے اپنے دلوں کو مضطرب کریں اور پھر سوچتے ھیں کہ ھم 70 لاکھ اورسیز پاکستانی اپنے ملک کے لیے کیا کرسکتے ھیں لیکن پہلے سوچیں اور اپنے دلوں میں اضطراب پیدا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔کس طرح ھمارے بچے مائیں اور بہنیں سیلاب کی آفتوں میں گھری ھیں اور پکار رہی ھیں اللہ ھمارا کوئ مدد گار بھیچ ھمارا کوئ حامی بھیچ سورہ النساء کی آئیت نمبر 75 ضرور پڑھیے گا اور پھر سورہ البقرہ کی آئیت نمبر 209 اور 210 ترجمے کے ساتھ پڑھ کراس تناظر میں ملک کے حالات کو دیکھیے گا سب شمجھ آجاۓ گا کیوں کہ ھم اپنی رھنمائ کے لیے قرآن رکھتے ھیں اور قرآن بہت ھی آساں کلام ھے اس کو سمجھنے کے لیے کسی مولوی کے پاس جانے کی ضرورت نھی ھے یہ ھمارے اس مہربان اور رحیم اللہ تعالی کا کلام ھے جو ھم سے 70 ماؤں کے پیار سے زیادہ پیار کرتاھے۔ھم اس وقت جو یہ سوچ رھے ھیں کہ ھمارے حکمران یا سیاسی قیادت ھمارے ستم رسیدہ عوام کے لیے کچھ کرے گی اس بڑی خام خیالی کوئ اور ھو ھی نہی سکتیی ۔ان لوگوں کی تو اس وقت لاٹری نکل آتی ھے جب ھم لوگ کسی آفت کا شکا ر ھوتے ھیں۔ان کے فوٹو سیشن اورامدادوں سے جیبیں بھرنے کی بہار آتی ھے۔مین نے تو اپنی حیتیت کے مطابق اپنے چند دوستوں کی ڈیوثی لگائ اور جو امداد مینے بھیجی وہ خود لیکرسیلاب زدہ علاقے میں گیۓ اور وہاں پر انہوں نے وہ امداد خود تقسیم کی انہیں وہاں پر الخدمت ٹرسٹ والوں کا کیمپ بھی مل گیا اور انہوں نے ان کی مدد کی۔اسی طرح اگر 70 لاکھ اورسیز پاکستانی اپنے عزیزوں کو امداد بھیج کر ان کی ڈیوٹی لگا دیں تو آپ اندازہ کریں کہ ھم پردیس میں بیٹھ کر کتنے لوگوں کو اس آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے موبلا ئیز کرسکتے ھیں۔۔۔ اورسیز پاکستانی اپنے آپکو کمزور نہ سمجھیںآپ میں اپنے ملک کی باگڈور خود سمبھال لینے کی طاقت بھی ھے۔۔اسی لیے تو ھمارے لٹیرے سیاست دانو نے پردیس میں بھی اپنے ٹٹو چھوڑ رکھے ھیں جن کا مشن صرف یہ ھے کے بیرونے ملک پاکستانیوں متحد نہ ھونے دیا جاۓ کیونکہ وہ جانتے ھیں کہ یہ 70 لاکھ پاکستانی اگر پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے متحد ھوگۓ تو ان کو اپنا بوری بستر گول کرنا پڑے گا


[…] قاتلوں کو کچھ نا بولو۔ […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website