سافٹ ویر پائیریسی سے بچاؤ۔ ایک ممکنہ حل
پچھلے دنوں سافٹ ویر پائیریسی کے حوالے سے کئی بلاگز پر مختلف قسم کے مباحثے ہوئے اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس پوسٹ میں ایک ممکنہ حل پیش کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ دیے گئے جدول میں کم و بیش تمام عام استعمال کے سافٹ ویر اور ان کے متبادل اوپن سورس یا فری سافٹ ویر کا لنک فراہم کیا گیا ہے۔ جو لوگ بھی سافٹ ویر پائیریسی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی سہولت کے حساب سے مختلف مدارج میں غیر قانونی سافٹ ویر سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ تمام ٹولز کا انتخاب ایک عام یا گھریلو صارف کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے کیونکہ کاروباری استعمال کے سافٹ ویر کی چوری تو یوں بھی درست نہیں کہ منافع بخش کاموں میں استعمال کیا جاتا۔
Category |
Commercial |
Open Source / Free Software |
Operating System | 1. Windows (Different variants) 2. Mac OS |
1. Linux(Ubuntu for home users and Fedora for professional) 2. Open Solaris |
Application Software Office Productivity |
1. MS Office (Microsoft) 2. iWork (Apple) 3. Star Office (Sun. Almost half the price of MS office) |
1. Open Office (available for all popular operating systems) 2. Lotus Symphony (IBM) 3. Google Docs (Online) 4. Zoho Office (Online) Note: Google and Zoho tools can be used in off line modes by installing google gears in your web browser. |
Media Players | All commercial Operating Systems have their own players available. 1. Windows Media Player 2. iTunes and QuickTime(All are actually free but supported operating systems are not) |
1. Video Lan or VLC This one supports almost all media format and can play DVD’s without any extra installation. All linux distributions include some kind of Media player but extra paid or free plugging required to play different formats. |
Internet browsers and email | All commercial Operating Systems have their own browser. 1. Internet Explorer (Microsoft) 2. Safari (Apple) (All are actually free but supported operating systems are not) 3. Windows Mail (Microsoft) 4. Outlook (Microsoft) Mac has its own mail client; definitely commercial platform. |
1. FireFox (Mozilla) 2. Opera (Opera Software) 3. Chrome (Google. Only for windows) (There are other different browsers available but FireFox is the dominant and available for all popular operating systems) 4. Thunderbird (Mozilla) 5. Gmail 6. Yahoo 7. HotMail All social networking and instant messaging tools are free for all platforms |
Camera and Photos | All commercial Operating Systems have their own photo browser and camera support. Some are available as free downloads but supporting operating systems are not free | 1. Picasa (Google. Comes with free online storage) 2. Pictomio (PictoGeo is commercial though) A bunch of online photo apps allow minor tweaks like photoshop.com |
Advanced Graphis | 1. PhotoShop (Adobe) PhotoShop kind of ultimate tool for graphic professionals 2. iLife (Mac; a complete suit of tools) |
1. GIMP 2. GIMPSHOP (A GIMP variant to provide the feel of photoshop) 3. Krita (for Linux only) |
Software Development | Most of the SDK’s are free downloads but platforms could be commercial. 1. Visual Studio (Microsoft) 2. XCode (Mac programming) 3. MyEclipse (Java programming) 4. Rational Tools (IBM) 5. Visio (Microsoft) |
Most of the software platforms developed by open source community have variety of tools available for free like PHP and Ruby. 1. SharpDevelop (.NET development) 2. Eclipse (Universal IDE) 3. StarUML (For windows) 4. ArgoUML (Java based) |
اس جدول کی پی ڈی ایف یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہے۔ کسی بھی دوسرے کمرشل سافٹ ویر کے متبادل اوپن سورس کی تلاش کے لیے اس ویب سائٹ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پوسٹ کے آخر میں پچھلی گفتگو کے اہم جز پر کچھ وضاحت باقی رہتی ہے؛ جو قارئین اس بحث میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں وہ براہ راست تبصرے ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
یاسر عمران مرزا کی اس سلسلے کی اولین پوسٹ پر نعمان صاحب نے ایک بہت اہم نکتہ اٹھایا تھا جس کا دلچسپ اقتباس میں یہاں پیش کررہا ہوں۔
میرے خیال میں صاحبان اس معاملے میں ایک اہم پہلو نظر انداز کررہے ہیں وہ ہے اسلامی معاشی و تجارتی قوانین۔ میرے خیال میں اسلامی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی سافٹوئر ان شرائط کے ساتھ بیچا جائے جن کے تحت وہ آج کل بیچے جاتے ہیں۔ یہ سراسر سودی کاروبار جیسا ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑھئی ایک کرسی بناتا ہے اب وہ یہ کرسی کسی شخص کو اس شرط کے ساتھ بیچتا ہے کہ آپ اس کرسی کو صرف اپنے گھر پر استعمال کرسکتے ہیں۔ آپ اسے اپنی دکان نہیں لے جاسکتے، آپ اسے اپنے کسی دوست کو استعمال کے لئے ادھار نہیں دے سکتے۔ اس کرسی پر اتنے لوگوں سے زیادہ لوگ نہیں بیٹھ سکتے اور اگر بیٹھیں تو ہر بیٹھنے والے کو بڑھئی کو اجرت دے کر اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔ اسطرح تو بڑھئی ایک ہی کرسی سے ساری زندگی ہزاروں روپے کماتا چلا جائے گا جو اس کی اصل محنت اور کرسی پر لگنے والی اس کی لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔ اسطرح کی ناجائز منافع خوری کی اسلامی قوانین کی رو سے اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ ناجائز منافع خوری کے خلاف نبی کریم کی احادیث موجود ہیں۔ اور شریعت کی رو سے ایسے اجازت نامے غیر اسلامی قرار پائیں گے۔
الف
اس مسئلے کی وضاحت سافٹ ویر کے بزنس ماڈل کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔ جس طرح ایک کرسی کا استعمال ایک وقت میں ایک صارف کرسکتا ہے اور بیک وقت دو لوگوں کے استعمال کے لیے دو کرسیاں درکار ہوں گی بالکل اسی طرح ایک وقت میں ایک صارف کے استعمال پر سافٹ ویر کی شرائط میں کوئی قدغن نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ وہی کرسی اپنے دوست کو بھی استعمال کرنے کے دے دیں بیک وقت آپ کے استعمال بھی رہے پھر سافٹ ویر کے لیے اس بات پر زور کیوں۔
ب
مادی اشیائے صرف کے ایک یونٹ کی پیداوار اور سافٹ ویر کے اولین یونٹ کی پیداوار پر آئی لاگت; فروخت کے بزنس ماڈل میں بنیادی فرق ہے۔ انفراسٹرکچر کی لاگت اگر دونوں صورتوں میں پس منظر میں رکھ دی جائے تو ایک کرسی پر آئی لاگت ایک کرسی کی فروخت سے حاصل کی جاسکتی ہے لیکن سافٹ ویر کے اولین یونٹ پر آئی لاگت ایک یونٹ کی فروخت سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ جسطرح بڑھئی کا بزنس ماڈل اس بات پر کھڑا ہے کہ دو لوگوں کے بیک وقت استعمال کے لیے دو کرسیاں درکار ہوںگی اسی طرح سافٹ ویر کی بنیادی لاگت اور منافع سافٹ ویر کے ایک یونٹ کی مختلف نقول پر تقسیم کیا جاتا ہے جسے ہم لائسسنس کا نام دیتے ہیں۔ کسی مادی شے کی نقل تیار کرنے اور سافٹ ویر کاپی کرنے میں بنیادی فرق ہے اور مادی اشیاء کی نقل کے مترادف وہ نقل ہوگی جو آپ نئے سرے سے پورا کوڈ لکھ کر حاصل کریں گے۔ اسلیے سافٹ ویر کی کاپی دراصل اصل ہی ہوتی ہے جو اس کا ایک یونٹ مانی جاتی ہے۔
ج
سبکرپشن ماڈل عام طور پر کاروبار یا پھر سپورٹ کے لیے ہی ہوتے ہیں اور عام استعمال کے سافٹ ویر گھریلو صارفین کے لیے ایک دفعہ کی ادائیگی پر زندگی بھر استعمال کے لیے ہی فروخت کیے جاتے ہیں۔ سبسکرپشن ماڈل پر ابھی تک میری نظر سے ایسی رائے نہیں گزری کے اسے سود کا متبادل قرار دیا جائے یہ بہت حد تک ہماری یوٹیلیٹی کے استعمال کے بزنس ماڈل سے ملتا جلتا ہے جیسے ٹیلیفون کا لائن رینٹ چاہے آپ فون استعمال کریں یا نہ کریں۔
مجھے امید ہے کہ اس تفصیلی گفتگو سے کئی چیزیں ایک منطقی نتیجے تک پہنچ جائیں گی۔ اور یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ قیمتیں کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں لیکن انہیں غیر اسلامی کہنا شاید درست نہ ہو بلکہ کمرشل سافٹ ویرز کا غیر قانونی استعمال میری نظر میں غیر اسلامی اور چوری کے مترادف ہے۔
Filed Under: انفارمیشن ٹیکنالوجی, پاکستان, تعلیم و تربیت
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (14)
DuFFeR - ڈفر
August 8th, 2009 at 4:22 pm
یہ چیز، بہت عمدہ پوسٹ
میرے پاس تقریباً دئے گئے سارے سافٹوئیرز میں سے اوپن سورس ہی زیادہ تر قابل استعمال ہیں ما سوائے ونڈوز، آفس اور وزؤل سٹوڈیو کے، ہاں فوٹو شاپ بھی
SharpDevelop کا مجھے آج ہی علم ہوا ہے
اس کا بھی اپریشن کرتا ہوں کہ کس قدر قابل بھروسہ ہے
یہ پوسٹ کافی سارے لوگوں کے کافی سارے مسائل حل کر دے گی
شکاری
August 9th, 2009 at 2:04 am
کامران بہت زبردست لسٹ پیش کی ہے میرے پاس عموماً اوپن سورس ہی استعمال ہوتے ہیں سوائے اس کے جس کے بغیر گزارہ مشکل ہومثلاً:: آفس، ونڈو اور فوٹوشاپ کے باقی سب فری کا ہے۔ ونڈو کو لینکس پر بوجہ نیٹ کنورٹ نہیں کرسکتا۔
یاسر عمران مرزا
August 9th, 2009 at 9:16 am
راشد صاحب
موجودہ سافٹ وٕئر کی بجائے متبادل سافٹ وٕئر استعمال کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ کمپیوٹر ایک بار پھر ابتدا سے سیکھنا۔ جیسے میں ایک گرافک ڈیزائنر ہوں، میں نے پروفیشنل سافٹ وئر کی تعلیم حاصل کی جو کہ مفت نہیں ہیں، جیسے کورل ڈرا، تھری ڈی میکس، ایڈوبی پرئمیر، میری ملازمت کا دارو مدار میری ان سافٹ وئر میں مہارت پر ہے، اگر میں یہ سافٹ وئر چھوڑ دوں تو مجھے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، کیوں کہ مام پروفیشنل سافٹ وئر کے متبادل مفت سافٹ وٕئر موجود نہیں۔ تو میرے جیسے افراد کیا ایک بار پھر پروفیشنل ٹریننگ کورسز کرنے کے لیے جائیں؟ جبکہ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ مفت سافٹ وئر کی پروفیشنل ٹریننگ کرانے والے ادارے موجود ہیں۔ اسی طرح جو افراد مائیکروسافٹ اپریٹنگ سسٹمز اور نیٹ ورک کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں ان کو بھی ملازمتیں چھوڑنی پڑیں گی، مفت سافٹ وئر کا شعبہ ابھی اپنی ارتقائی مراحل میں ہے۔ تونئے سیکھنے والوں کو ان سافٹ وئر کی ترغیب دینا ، پوری قوم کو 10 سال پیچھے دھکیلنے کے مترادف ہے
محمداسد
August 9th, 2009 at 10:23 am
بہت عمدہ کامران بھائی۔ حتی الامکان کوشش کے باوجود، اکثر حضرات اوپن سورس ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ امید ہے آپ کے مراسلہ سے کافی مدد ملے گی۔ اگر ممکن ہوسکے تو illustrator کا متبادل بھی بتلادیں۔
یہاں میں یاسر عمران مرزا بھائی سے کلی اتفاق کرتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ یہاں لوگوں کی انتہائی قلیل تعداد پائیریسی کے قانون و احترام سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمپیوٹر کے بڑے تعلیمی ادارے، جو خود کو عالمی طرز کا ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، پائریٹڈ آپریٹنگ سسٹم و دیگر سوفٹوئیر ہی استعمال کرتے ہیں۔ نا صرف نجی یونیورسٹیز بلکہ حکومت کے زیر انتظام یونی ورسٹیز میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ایسے میں تعلیم کی شروعات جس سوفٹوئیر سے ہو، عموما اسے استعمال کرنے میں آفیت محسوس کی جاتی ہے۔
اخبار اٹھا کر اگر کمپیوٹر کے شعبہ میں ملازمتوں کے مواقع دیکھیے جائیں تو سو فیصد مانگ ان لوگوں کی ہوگی جو کہ پائیریٹڈ سوفٹوئیر میں مہارت رکھتے ہوں۔
راشد کامران
August 9th, 2009 at 8:16 pm
یاسر صاحب اور اسد صاحب آپ حضرات کے تبصروں کا شکریہ۔
یہ تو ہے کہ پائریسی کے متعلق شعور بتدریج ہی پیدا ہوگا لیکن جہاں تک ٹرینگ کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوںکہ ہر نئے ٹول یا ورژن کے لیے نئے سرے سے ٹرینگ درکار نہیں ہوگی۔۔ گرافکس ڈیزائنرز بڑے ہی آرام سے کسی بھی ٹول پر تھوڑی سے محنت سے کام کرسکتے ہیں۔
لسٹ کے بالکل نیچے میں نے ایک لنک دے رکھا ہے وہاںسے کسی بھی کمرشل سافٹ ویر کا اوپن سورس تلاش کیا جاسکتا ہے۔۔
http://www.osalt.com/
نعمان
August 10th, 2009 at 4:08 pm
بہت اچھی دلائل دی ہیں آپ نے اور قائل ہونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ پائریسی چوری ہی ہے۔
دوست
August 11th, 2009 at 7:48 am
بالکل پائریسی چوری ہی ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ کہاں جائیں اور کوئی راستہ بھی نہیں۔ اوپن سورس اچھا ہے لیکن نوازائیدہ شاید یہ کبھی بھی پنپ نہ سکے جیسے کمرشل سافٹویر ہیں۔
راشد کامران
August 11th, 2009 at 11:37 am
نعمان۔ شکریہ۔ ۔
دوست۔ کچھ اوپن سورس شاید نئے ہیں۔۔ لیکن کمرشل اور اوپن سورس دونوں صورتوں میں کوئی پراڈکٹ کامیاب ہوتی ہے اور کوئی نہیں ہوپاتی۔ جہاں تک پنپنے کی بات ہے تو لینکس آپریٹنگ سسٹم نہ صرف یہ کہ پوری طرح جڑیں پکڑ چکا ہے بلکہ دنیا کی کئی بڑی کمپنیوں میں لینکس بطور بنیادی پلٹ فارم کے استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح کئی پراڈکٹ ہیںبلکہ ایک عام استعمال کے لیے آپریٹنگ سسٹم، براؤزر اور آٍفس تینوں اوپن سورس میں نہایت عمدہ پراڈکٹس ہیں۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ جیسے جیسے سروس اورئینٹڈ آپریٹنگ سسٹم کا رواج بڑھے گا پاکستان جیسے ممالک کے لیے اوپن سورس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا کیونکہ انٹرنیٹ پر موجود اپلیکیشنز کی پائیریسی ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں ہوگی۔
محب علوی
August 12th, 2009 at 12:47 am
بہت عمدہ پوسٹ ہے راشد مگر میں چاہوں گا کہ سافٹ وئیر بزنس ماڈل اور پائریسی پر ایک علیحدہ پوسٹ ہو کیونکہ یہ ایک بحث طلب اور خاصہ مشکل موضوع ہے اور میرا نہیں خیال کہ سافٹ وئیر کی موجودہ قیمت جو کمپنیاں چارج کرتی ہیں کسی طور پر جائز اور حدود میں ہے بلکہ حد سے بڑھی منافع خوری اور بے جا بوجھ ہے صارف جس کی وجہ سے پائریسی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ساتھ ساتھ آزاد مصدر کی طرف بھی لوگ جا رہے ہیں بلکہ آزاد مصدر کا پیدا ہونا اس ناجائز منافع خوری اور علم دشمنی کا رد عمل ہی تھا جس کی وجہ سے اب تمام سافٹ وئیر کمپنیوں کو آزاد مصدر کو طوہا کرہا قبول کرنا پڑا ہے۔
آپ کی لسٹ عمدہ ہے اور بہت سے لوگوں کو اس سے فائدہ ہوگا۔ اس میں AntiVirus AVG شامل کر لیں کیونکہ اس کی تقریبا سب صارفین کو ضرورت رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اینٹی سپائی وئیر اور اینٹی میل وئیر کا بھی اضافہ کر لیں۔
چند مزید سافٹ وئیر جنہیں شامل کر لیں تو لسٹ اور بڑی ہو جائے گی ۔
لینکس میں ASUS اور Red Hat
سٹار آفس ( شاید بہت تھوڑی سی قیمت ہے اس کی (
براؤزر میں Opera
Advanced Graphics میں Paint.Net
سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ میں NetBeans IDE
راشد کامران
August 12th, 2009 at 11:51 am
محب آپ نے بڑی اہم چیز کی طرف توجہ دلائی یعنی اینٹی وائرس اور سپائی ویر۔۔ میں یہ تمام جلد اس جلد اس لسٹمیں شامل کردوں گا۔ سٹار آفس تو میں نے پہلے ہی لکھ رکھا ہے لیکن کمرشل کے کالم میں۔
ناجائز منافع خوری تو ہر صنعت کا حصہ ہے۔۔ آپ دوائیںبنانے والی کمپنیوںکو دیکھیں لیکن یہ چوری کا جواز فراہم نہیں کرتی۔۔ شاید سافٹ ویر کی چوری آسان ہے یا دانستہ آسان رکھی گئی ہے اس لیے لوگ اس طرف راغب ہوتے ہیں۔
سافٹویر بزنس ماڈل پر میرا لکھنے کا ارادہ ہے اور آج مکی صاحب کے بلاگ پر انہوں نے ایک عمدہ مضمون کا ریفرنس فراہم کیا ہے تو امید ہے گفتگو جاری رہے گی اور ہم لوگ ایک منطقی نتیجے پر پہنچ سکیںگے۔
محمد موسیٰ طاہری
January 25th, 2010 at 8:55 am
آپ کمپیوٹر اور آءی ٹی کے حوالے سے اپنی تحریریں پندرہ روزہ کمپیوٹر نیوز میں اشاعت کے لءے بھجوا سکتے ہیں۔۔ جو پاکستان کا پہلا اردو کمپیوٹر اخبار ہے۔
محمد موسیٰ طاہری
بانی و چیف ایڈیٹ
سافٹ وئر کمپنیوں کے انسانی حقوق کے منافی قوانین | Yasir Imran Mirza
July 31st, 2010 at 10:17 am
[…] نہ لے پائیں۔ جیسا کہ راشد کامران صاحب نے اپنی تحریر سافٹ ویر پائیریسی سے بچاؤ۔ ایک ممکنہ حل میں فرمایا کہ سافٹ ویر پرائس ماڈل دوسری مصنوعات کے […]
سعید
June 19th, 2011 at 11:13 am
کچھ عرصہ پہلے میں نے بھی ایک آپ کی باتوں سے ملتی جلتی تحریر لکھی تھی۔اگر وقت ھو تو دیکھ لیں
شکریہ
راشد کامران
June 20th, 2011 at 6:09 pm
شکریہ سعید صاحب۔۔ آپ نے عمدہ تحریر لکھی ہے۔۔ اور اب تو ویسے بھی ایپس کا دور دورہ ہے اور کچھ عرصے میں سافٹ ویر کی قیمتیں نا صرف کم ہوجائیںگی بلکہ فائل سسٹم جیسا ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ بھی کافی بدل جائے گا اور پائیریسی کی ضرورت ہی شاید نا رہے۔۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں