کالم نویس – 2

گرمیوں کی چھٹیاں کالم نگار کے لیے نہایت اہم ہوتی ہیں اور کالم نگار کے وہ دیرینہ دوست جو یورپی و امریکی ممالک میں مقیم ہیں ان پر انتہائی بھاری۔ کالم نویسی کیوں کہ اب ایک پیشہ بن چکا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ کالم نگار بھی اب پیشہ کرنے لگے ہیں تو کچھ بیجا نہ ہوگا اور ہر پیشہ کرنے والے کی طرح نئے کی طلب پوری کرنے کے لیے ہمیں سفر کا یہ بار گراں اٹھانا پڑتا ہے۔ یورپی ممالک کے سفر کا براہ راست فائدہ تو یہ ہوتا  کہ ہم ترقی یافتہ ملکوں کا اپنے بدبودار شہروں سے موازنہ کرکے لوگوں کا شعور بیدار کرسکتے ہیں، وہیں عوام کو ان کی اوقات بھی یاد دلاسکتے ہیں جن کا شاید ہی کوئی دوست یا عزیر بیرون ملک مقیم ہو اور ان کے سفر کا بار اٹھا سکے۔ بالواسطہ طور پر یہی سفر اخبار کا پیٹ بھرنے اور کم از کم دو ہفتوں کی دہاڑی لگانے کے کام بھی آتا ہے۔ لوگوں کو کالم نویس کی اس مجبوری کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارے ہم عصروں کی تعداد انتہائی قلیل ہے جن پر کیچڑ اچھالنے یا اچھلا کیچڑ صاف کرنے کے لیے مسلسل اظہاریے کا استعمال نہیں کیا جاسکتا، پھر ٹی وی چینلز کی بھرمار نے بھی ہماری ذمہ داریوںمیں کئی گنا اضافہ کردیا ہے جس سے من گھڑت باتوں کو ایک ہی طرح بیان کرنا انتہائی مشکل ہوچلا ہے اور جاہل عوام کو بھی ہماری اصل نظر آنے لگی ہے۔ ایسی صورت میں یورپی اور امریکی شہروں کی خوشنما تصویر کشی نہایت اہم ہوجاتی ہے تاکہ لوگوں پر ہماری سیاحت کا رعب پڑسکے۔  وہ چند لوگ جو حقیقتا ان جگہوں پر مقیم ہیں اور ہمارے سیاحتی کالم میں موجود ہر سقم کی نشاندہی کرسکتے ہیں وہ اس جنجال میں پڑ کر اپنی زندگی مزید تلخ نہیں کرنا چاہتے کہ وطن سے دور رہتے ہوئے اخبار میں ہماری اچھالی گند صاف کرنا ان بے وطنوں کے بس کا روگ نہیں۔

کہنے کو سیاحتی چھٹیاں؛ ہماری جان کا وبال بن جاتی ہیں۔ اُن ممالک کے چیدہ چیدہ سیاستدان، اقتصادیات کے ناخدا اور کرتا دھرتا ہماری ایک جھلک دیکھنے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ وہ مہینوں پہلے سے اپنے جدول مرتب کرتے ہوئے ہمارے دورے کے وقت کا خاص خیال رکھتے ہیں تاکہ کوئی بھی مصروفیت انہیں ہماری قربت سے دور نہ رکھ سکے۔ عوام کا تو حال ہی کیا کہ نہائے دھوئے کا پانی زمین تک پہنچنے نہ پائے۔ اُن ممالک میں مقیم پاکستانی تو کسی بھی قیمت پر ہماری میزبانی کرنا اپنے مستقبل کے حوالے سے نہایت اہم جانتے ہیں کیوں کہ اپنے چند روزہ قیام میں اپنی ذہانت اور باریک بینی کے سبب ایک کالم نویس سے بہتر یہ کون بتا سکتا ہے کہ کس ملک میں کس کو سفیر لگانا چاہیے اور کس ملک سے سفیر واپس بلا لینا چاہیے۔ سیاحتی سفر کے اس ضخیم خرچ کے ماخذ کا اندازہ تو اب آپ کو ہو ہی چکا ہوگا۔ اگر بدقسمتی سے کسی ایسے ملک جا نکلیے جہاں اپنے مفرور سیاستدان مقیم ہیں تو پھر اُن کو ملک کے مستقبل اور سیاسی صورتحال سے آگاہ کرنا بھی ایک ذمہ داری بن جاتی ہے لیکن اگر کوئی گٹّوں کو ہاتھ لگا کر درخواست کر رہا ہو تو ہمارے ایسے مصروف آدمی سے بھی انکار نہیں ہوپاتا، یہ علحیدہ بات ہے کہ سیاستدان کا آئندہ دنوں میں اقتدار میں آنے کا قوی امکان اس اقرار کا اول محرک ہوا کرتا ہے۔

عوام کے اس درد خاص کو محسوس کرنے والے اور میڈیا کی آزادی کے علمبردار کالم نگاروں کو جب کل کے لکھنے والے مافیا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ دل پر کیا گزرتی ہے لیکن انہیں یاد رہنا چاہیے کہ”حاجی گویم” کالم نگاروں کے اس اتحاد کو توڑنا ممکن نہیں ویسے بھی ہمارے لیے تو اس طرح کے القابات نعمت خانے میں موجود خوراک کے ذخیرے سے کم نہیں کہ خبر تو ہمارے پاس ہوتی نہیں ہمیں اسی سے تو کالم چلانا ہے۔

نوٹ۔ کالم نویس سلسلے کی پہلی تحریر یہاں دیکھی جاسکتی ہے

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (8)

جعفر

July 20th, 2009 at 11:40 pm    


آپ کی تحاریر میں ایک مسئلہ ہے
پڑھنے کے بعد خود کچھ لکھنے کو دل نہیں کرتا۔۔۔

راشد کامران

July 21st, 2009 at 11:49 am    


نہیں جعفر صاحب۔۔ ایسا نا سوچیے جناب۔۔ پہلے ہی’ نیک‘ نامی کا بہت چرچا ہے اس پر یہ تہمت (:

DuFFeR - ڈفر

July 21st, 2009 at 1:00 pm    


میں بھی جعفر سے سہمت ہوں
نہیں تو مجھے بھی ”سیکرٹ“ بتائیں

راشد کامران

July 21st, 2009 at 4:47 pm    


نہیں صاحب ایسا تو کوئی سیکرٹ نہیں ہے۔ جو من میں‌ آتی ہے الفاظ کے کپڑے پہنا کر آپ لوگوں‌ کو پیش کردیتے ہیں۔

ابوشامل

July 21st, 2009 at 10:20 pm    


اصل میں آپ کی تحریر لاجواب کر دیتی ہے کہ اتنی گہری باتوں کے بعد بالآخر کیا تبصرہ کیا جائے۔ دل مانتا تو نہیں کہ بہت اچھا، بہت زبردست کہہ کر چلتے بنیں لیکن کیا کریں مجبور ہیں۔ ہماری سوچ اتنی آگے تک پرواز نہیں کرتی۔

راشد کامران

July 23rd, 2009 at 3:44 pm    


ابوشامل صاحب۔۔ آپ بلاگ کو رونق بخشتے ہیں تو حوصلہ افزائی ہوجاتی ہے اور بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔

ata muhammed Tabussum

July 27th, 2009 at 11:30 pm    


بھائی کالم نویس کا دال دلیا چل رہا ہے۔ کئی تو ایسے سٹیائے ہوئے ہیں۔کہ بستر مرگ سے بھی کالم لکھتے ہیں۔انھیں کالم فوبیا کا مرض لاحق ہے۔ایک نا جی ۔۔۔۔۔ہاںجی ہاں جی کہتے نہیں تھکتے۔دوسرے ہر کالم میں کپتان کو ڈال کر وفاداری نبھاتے ہیں۔ اور ایک ہیں کہ اس خوف سے اپنے پرانے کالم پڑھاتے ہیں کہیں ان کی جگہ کوئی اور نہ لے لے۔کبھی قائد اعظم کو سیکولر نظریات کا حامل کہتے ہیں۔اور کبھی اس بڑھاپے میں ان پر انکشاف ہوتا ہے کہ عربی کی تعلیم بچوں پر بوجھ ہے۔یہ کالم فوبیا کے مرض میںمبتلا ہیں۔فوبیا ایسا خوف ہے جو بہت گہرا ہو، جس کی وجہ آسانی سے سمجھ میں نہ آ سکے اور نہ اسے عقلی بنیاد پہ پرکھا جا سکے۔ فوبیا کے شکار لوگوں پر کوئی منطقی استدلال کام نہیں کرتا کیونکہ ان کا خوف بجائے خود غیر منطقی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بیوقوف یا پاگل سمجھنے کے بجائے ان سے اسی طرح ہمدردی کرنی چاہئے جیسے کسی مریض سے کی جاتی ہے۔ اور ان کا مذاق اڑانے کے بجائے جہاں تک ہو سکے ان کی مدد کرنی چاہئے۔ اگر آپ ان کا علاج کراسکیں تو مہربانی ہوگی۔بہت سے لوگ ان آزار سے محفوظ ہوںگے اور آپ کو دعائیں دیں گے۔

راشد کامران

July 28th, 2009 at 1:33 am    


عطا محمد تبسم صاحب کاش کہ علاج ہوسکتا۔ کاش کہ تمام کالم نگار ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے مقصدیت کو موضوع بنائیں تو بہتوں کا بھلا ہو۔ لیکن خبر تو ہمارے پاس ہوتی نہیں قصے کہانیوں سے ہی کالم چلانا ہے۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website