مجھے ورلڈ کپ نہیں چاہیے۔

میچ دیکھا تو خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ جب پاکستان نے 92 میں ورلڈ کپ جیتا تو میں وہ میچ نہیں دیکھ سکا اور اسکا افسوس مجھے ہر وقت رہتا ہے، پچھلے ورلڈ کپ میں فائنل میں بھارت سے شکست تو بہت بھاری تھی اور اس بار جب ورلڈ کپ جیتا تو مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح خوشی کا اظہار کروں۔ صبح اخبار پڑھ کر ساری خوشی ہوا ہوگئی کہ دوران جشن بھی ہم نے دو لوگوں کی جان لے لی اور دو درجن افراد زخمی کردیے۔ اگر ورلڈ کپ کی یہی قیمت ہے تو مجھے ورلڈ کپ نہیں چاہیے۔ ہم کس قسم کی قوم ہیں کہ خوشی منانے کے لیے بھی انسانوں کی بلی چڑھاتے ہیں۔۔ تھو۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (14)

محمد وارث

June 22nd, 2009 at 12:35 am    


واقعی افسوس ہوا قیمتی جانوں کے ضیاع پر، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔

جعفر

June 22nd, 2009 at 12:37 am    


آپ نے شاید صرف کراچی کے بارے میں خبر پڑھی ہے ۔۔۔
گوجرانوالہ میں 3 بچے اس وحشیانہ جشن کی بھینٹ چڑھے ہیں۔۔۔
یہ کیا وحشت سرایت کرچکی ہے ہم لوگوں میں۔۔۔
لعنت ہے ایسے جشن پر ۔۔۔۔

یاسر عمران مرزا

June 22nd, 2009 at 1:12 am    


یہ بلی جشن منانے والوں نے نہیں چڑھائی بلکہ جشن کی آڑ‌ میں‌کچھ ایسے لوگوں نے یہ کیا ہو گا جو ملک میں‌امن و سکون نہیں چاہتے
الزام آپ انے ملک کی حکومت کو دیں جو ملک میں‌لا اینڈ آرڈر کی ذمہ دار ہے

ابوشامل

June 22nd, 2009 at 1:55 am    


ہم ورلڈ کپ 92ء دیکھنے کی سعادت رکھتے ہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ اس کے بعد جس مہذب انداز میں جشن منایا گیا تھا اس کے بارے میں آج سوچ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے اندر سے تہذیب مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد غالباً پہلی نماز مغرب کی تھی اور لوگوں کی بڑی تعداد شکرانے کے نوافل پڑھتی دکھائی دی اور معمول سے کہیں زيادہ لوگ مسجد میں موجود تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے اس دن موسم بہت خوشگوار تھا اور جس وقت پاکستان میچ جیتا تھا اس وقت بھی بوندا باندی ہو رہی تھی۔
اب 17 سال بعد کل جس طرح کا جشن منایا گیا ہے اس کا اندازہ ٹی وی چینلوں پر ہی ہو رہا تھا کہ اس میں سوائے وحشت کے کچھ نہ تھا۔ پھر 2 جانوں کا ضیاع تو بہت ہی افسوسناک ہے جن کا ازالہ ورلڈ کپ کیا کسی بھی چیز سے نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ بہت عرصے بعد پاکستان کو ایک بہت بڑی خوشی کی خبر ملی ہے۔ اور یقیناً اس سے قوم کے مورال میں زبردست اضافہ ہوگا۔

افتخار اجمل بھوپال

June 22nd, 2009 at 8:35 am    


میں اسی لئے لکھتا رہا ہوں کہ طالبان طالبان کا شور تو ہے لیکن دہشتگردی باقی ملک میں بھی کم نہیں

بلوُ

June 22nd, 2009 at 9:10 am    


جناب یہ صرف ایک جگہ نہیں پورے پاکستان مین‌کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی زخمی ہوا ہے۔ کیا جوش ہے پاکستانی قوم میں کہ ایک خوشی کی خبر سنتے ہی اتنا ہنگامہ کر دیتے ہیں کہ اب تو یہی سو کر کسی کو خوش خبری نہیں سنا سکتے کہ کہیں مارا ہی نہ جاؤں۔

یاسر عمران مرزا

June 22nd, 2009 at 9:36 am    


یہا ں پر میں ہندوستانی فلم کا ایک ڈإئلاگ دوہرانا چاہوں گا

کوئی بھی کنٹری پرفیکٹ نہیں ہوتا، اس کو پرفیکٹ بنانا پڑتا ہے اور اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، فوج میں شامل ہوں‌گے، سیاست میں شامل ہوں گے اور ہر جگہ سے گند صاف کر کے اس کنٹری کو پرفیکٹ بنائیں‌گے، ایک دن آے گا جب یہ کنٹری بالکل پرفیکٹ ہو جائے گا

شکریہ، یہ سب ہماری ذمہ داری ہے، بجائے اپنی قوم کو لعن طعن کرنے کے کوئی ڈھنگ کا کام کر کے دکھائیں اور دوسروں کے لیے مثال کام کریں

تانیہ رحمان

June 22nd, 2009 at 4:07 pm    


ہم اپنے جزبات میں بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھی ہیں ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے ۔ لیکن پتا نہیں کب ہمیں احساس ہو گا اس بات کا کہ خوشی کرو ۔ لیکن پڑوسی کا بھی خیال رکھو ، اپنے گھر ڈھوک بجتی ہے ۔ سات گھر دور لوگ ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں ۔ جب میچ کی خوشی کا جشن منایا جا رہا تھا ۔ تب بھی ایک خوشی کے ساتھ ڈر بھی تھا کہ خدا خیر کرئے۔ پتا نہیں کب ہم اپنے آپ کو پڑھے لکھے مہذب شہری سمجیں گئے۔

مسٹر کنفیوز

June 23rd, 2009 at 3:45 pm    


بات تو اچھی کہی مگر آخر میں ” تھو ” یہ اچھی عادت نہیں۔کامی

عبداللہ

June 23rd, 2009 at 8:10 pm    


راشد آپ میچ کی فتح کی بات کرہے ہیں یہاں تو آئے دن شادی بیاہ میں وہ فائرنگ کی جاتی ہے کہ الاماں الحفیظ اور اکثر کوئی معصوم بچہ یا کوئی خاتوں بارات دیکھنے کے جوش میں اس فائرنگ کا نشانہ بنتی رہتی ہے،
شاہد افریدی کے گھر کے باہر جس طرح ہوائی فائرنگ کی گئی اور جیو نے مسلسل اس کو دکھایا یہ اس برائی کو ختم کرنے کے بجائے اور پرموٹ کرے گا،ہر شاخ پے الو بیٹھا ہے انجام گلاستاں کیا ہوگا:(

عبداللہ

June 23rd, 2009 at 8:11 pm    


معاف کیجیئے گا گلستاں

راشد کامران

June 25th, 2009 at 1:43 pm    


آپ تمام لوگوں کے تبصروں‌ اور آراء کا شکریہ۔۔ بس امید یہی ہے کہ ہم لوگ اپنے معاملات پر نظر ثانی کریں گے اور انتہائی پستی کے عکاس بے حسی میں نہائے ہوئے معاشرے کی بہتری کے لیے جہاں ممکن ہو جس طرح ممکن ہو آواز بلند کریں گے اور اپنی بساط بھر کام کریں گے۔

غفران

June 29th, 2009 at 1:43 pm    


بہت پہلے سوچتا تھا کہ غیر مہذب حرکات کی وجہ تعلیم کی کمی ہے، پھر جب خود پڑھ لکھ لیا اور پڑھے پکھون کا حال دیکھ لیا تو معلوم پڑا تعلیم سے تو کچھ نہیں‌ہوا ، تربیت سے ہو گا، مگر تربیٹ کون کرے۔ والدین‌ ؟ وہ جو خود صبح شام حرام کماتے ہیں، وہ تربیت کریں گے۔ پاکستان تو دنیا کا سب سے زیادہ کرپٹ ملک بن گیا ہے۔ ہر ادارے میں رشوت ہے اور سرکاری ملازمیں کی تعداد کچہ کم تو نہیں۔ اور وہ بھی بچوں والے ہی ہوں گے، خاک تربیت کریں گے وہ اپنی اولاد کی /

DuFFeR - ڈفر

July 1st, 2009 at 12:42 pm    


اس جشن کی تیلی لگانے کا سہرا سارے کا سارا جیو کے سر جاتا ہے

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website