علم گوشت

فاقہ مستی کے رنگ لانے کا چرچا تو بہت سنا تھا، محض ایک ظہرانے کا ناغہ اتنا رنگ بکھیرے گا کہ علم دوستی سے علم گوشتی تک سلوک کی تمام منازل یک بیک طے ہوجائیں گی یہ تجربہ نیا تھا اور صرف احساس کی زبان میں ہی سمجھایا جاسکتا ہے۔ اب تک یار غار کے نایاب کتب خانے کو کشش مانتےاپنے آپ کو علم دوست ہی سمجھتے رہے لیکن ایک دن کبابوں کا ناغہ شکم پر اتنا بھاری ہوا کہ فلسفہ کی دلچسپ کتب کا دیباچہ بھی بھاری پڑ گیا۔ وہ جو علامہ نے عقل و دل کے چور سپاہی والے کھیل کی روداد بیان کی اور شکم کو دانستہ موضوع بحث نہیں بنایا تو وہ عقدہ بھی آج کھلا کہ تن و من کی بصارت سے تھوڑا جنوب کا سفر کیا جائے تو شکم کی بے باک نگاہیں پڑھی جانے والی ہر سطر میں ایک نئی کہانی بیان کرتی ہیں۔

سیرشکم اس علم گوشتی کا اثر محسوس کرنا ممکن نہیں؛ “طاؤس و رباب” اور”شراب و کباب” کی اصل ترتیب ایسی ہی حالت  میں سمجھ آتی ہے کہ اُس وقت اگر ماہر موسیقار الٹا لٹک کر بھی رباب کی تاریں گھس رہا ہو تو غسل دجاج کا سا سماں معلوم ہوتا ہے۔ کوئی کہہ گیا کہ خواب ٹاٹ پر دیکھیں یا مخمل پر مناظر نہیں بدلتے؛ حالانکہ شکم سیری کی شرط حکایت سے منسوب رہنی چاہیے کہ یہاں تو یہ عالم ہے کہ بھوکے پیٹ سرمایہ دار کے خواب کا ہر منظر بھی درانتی لیے دوڑا چلا آتا ہے۔ شکم کی نظریں وہاں تک جاتی ہیں جہاں من کے پر جلتے اور تن کی آنکھیں چندھیاتی ہیں۔ فلسفہ کا پوچھو تو استحصالی نظام کی بات کروں،  اشتراکیت سے سرمایہ داری کا فاصلہ محض ایک پر تکلف عشائیہ ہے۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (14)

ابوشامل

September 10th, 2009 at 3:46 am    


کمال کی تحریر ہے۔ لگتا ہے رمضان خوب اثر کر رہا ہے شکم پر :) میرا اندازہ ہے کہ شکم اگر بالکل خالی نہ ہو تو دماغ کا تخلیقی حصہ خوب متحرک رہتا ہے، ذاتی تجربہ ہے :)

تحریر میں آپ نے استعارے و اصطلاحیں بہت شاندار استعمال کی ہیں۔ “تن و من کی بصارت سے تھوڑا جنوب کا سفر”، “غسل دجاج” :) اور “پرتکلف عشائیہ” تو اچھے خاصے دماغ کی چولیں ہلا دیں گے۔

غسل دجاج کی اصطلاح پڑھ کر تو مجھے کچھ یاد آ رہا ہے۔ ناحق ہم مجبوروں پہ ۔۔۔۔۔ :)

تفنن برطرف۔ حضرت یہ بتائیے کہ معاشی نظاموں پر کوئی دلچسپی رکھتے ہیں؟ اگر کبھی سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام پر کچھ لکھیں تو مجھے امید ہے کہ مجھ ایسے کم علموں کے لیے کافی کارآمد ہوگا۔ ویسے میری کوشش ہے کہ تھوڑے سے مطالعے کے بعد ان نظاموں کا ہلکا سا جائزہ کبھی پیش کیا جائے اور پھر ان کا تقابل اسلام کے معاشی نظام سے کیا جائے۔ کیا کہتے ہیں؟

کنفیوز کامی

September 10th, 2009 at 3:50 am    


میں نے دو تین ٹکریں مانیٹر پر ماریں پھر کہیں جا کر تھوڑی سی سمجھ آئی

اسماء

September 10th, 2009 at 5:14 am    


دو دفعہ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی مگر صرف مندرجہ ذيل الفاظ سمجھ ميں آئے ہيں
کا سنا سے تھا نہيں تو ہے کر بھی عالم کے آتا ہے والی ہر
اورآخری آدھا فقرہ ُ ایک پر تکلف عشائیہ ہے۔`
پر يہ عشائيہ ہے کہاں؟

عنیقہ ناز

September 10th, 2009 at 12:45 pm    


ھالانکہ پر تکلف عشائیے سے شکم کی دیواریں ہل جاتی ہیں۔ لیکن دماغ کی چولیں ہلنے کے بعد اس کی اور معدے میں موجود مآل کی ظاہری حالت ایک جیسی ہوتی ہوگی۔ مسلمان اسی لئے علم گوشت کے ماہرین رہے ہیں ۔ خدا کا شکر کے یہ رتبہ ابھی تک ہم سے کوئ چھیننے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اچھا لکھا ہے میرا تو دل دہل گیا۔
اشتراکیت سے سرمایہ داری محض ایک پر تکلف عشائیے کا فاصلہ ہے۔ اچھا جملہ ہے۔

عدنان مسعود

September 10th, 2009 at 4:47 pm    


“اشتراکیت سے سرمایہ داری کا فاصلہ محض ایک پر تکلف عشائیہ ہے”

بہت اعلی!

محمد وارث

September 10th, 2009 at 11:46 pm    


اللہ جنت نصیب کرے اپنے لینن ایوارڈ یافتہ، دار و رسن کے شاعر فیض احمد فیض صاحب، ایک ‘بوتل’ مع پرتکلف عشایئے کے، کسی بھی جاگیردار اور سرمایہ دار کےآستانے پر حاضری فرائض میں‌سے سمجھتے تھے، نا صرف اتنا ہی بلکہایک دفعہ اپنے گھر کھانے پر مدعو ن م راشدکو بھی اپنے ساتھ ‘دعوت کھلانے’ لے گئے تھے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ لیکن حضور ذرا استعاروں اور کنایوں‌ پر ہاتھ ‘ہولا’ رکھیں :)

عمار عاصی

September 11th, 2009 at 12:27 am    


واہ ری بھوک تیرے بھی کیا رنگ
تو انسانی سوچ کو دروازوں پر بھی قفل ڈال دیتی ہے۔

فیصل

September 11th, 2009 at 2:21 am    


بہت خوب جناب۔ غسل ِ‌دجاج کے معنی گوگل ترجمےمیں‌دیکھے :(
ذرا منظر کشی ان لمحات کی بھی کرتے جب افطار کے فوراَ‌بعد نشے اور غنودگی کا ایک ملا جلا حملہ ہوتا ہے جو بندے کو کہیں‌کا نہیں‌رہنے دیتا اور اقبال کا شاہیں‌کبوتر بن کر پروں‌میں منہ چھپا لیتا ہے۔
کافی عرصے بعد بلاگستان میں‌آمد ہوئی ہے، انشااللہ آپکی تحاریر فرداَ‌فرداَ‌پڑھونگا کچھ دیر میں۔

راشد کامران

September 11th, 2009 at 11:39 am    


ابوشامل صاحب حوصلہ افزائی کا شکریہ۔۔ اب یہی تحریر دیکھیے افطار کے فورا بعد چائے کا ایک کپ بھی کیسا خمار دے گیا۔۔ دجاج کی کیا کہیں‌کہ “چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی ہوئی”۔۔۔ جہاں تک معاشی نظاموں کا سوال ہے تو قبلہ بنیادی سا علم ہے‌ اور مزید کی جستجو رہتی ہے لیکن کچھ لکھنے سے تو معذور ہی سمجھیں لیکن آپ کی اس تحریر کا انتظار رہے گا۔

کامی بھائی جناب معذرت کے آپ کو سر ٹکرانا پڑا لیکن تجرباتی تحریر کسی بھی تجربہ کی طرح‌ الٹ ہوجاتی ہے اسے بھی یہی سمجھیں۔

اسماء بی بی خوش آمدید۔۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ پوری طرح‌ بات آپ کو سمجھا نہیں‌سکا بس اتنی سی بات کہنا چاہتا تھا کہ بھوک اور افلاس ختم کیے بغیر یہ نظام اور فلسفے کسی کام کے نہیں۔

عنیقہ صاحبہ ۔۔ مسلمان ہی کیا میں‌ تو کہوں کہ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے علم گوشتی۔ آپ کو کچھ الفاظ کی ترتیب پسند آئی بہت شکریہ۔

عدنان بھائی بہت شکریہ۔۔‌آپ سے اختتام ہفتہ اس بابت ایک نشست رہے گی۔

محمد وارث صاحب۔۔۔ جناب آپ کی حوصلہ افزائی بہت اہم ہے جس کے لیے نہایت مشکور ہوں (: لینن والوں‌ کی کہیں آخر کو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ ہے کچھ تو قبیلہ کی پردہ پوشی کر لینے دیں۔

عمار عاصی صاحب خوش آمدید۔۔ جناب درست فرمایا۔

فیصل صاحب۔۔ واپسی مبارک۔۔ کیا ہی اچھا لفظ ہے دجاج۔۔۔ اور جناب جن لمحات کی آپ نے بات کی ہے وہ تو جذب کا عالم ہے جناب انسان مجذوب ہوجاتا ہے وہ کیا کہتے ہیں صاف سوتا بھی نہیں پورا جاکتا بھی نہیں۔۔ محب علوی کے بلاگ پر ایک تحریر آپ کی توجہ کی طالب ہے۔۔

جاوید گوندل ، بآرسیلونا ، اسپین

September 13th, 2009 at 10:32 am    


بہت عمدہ!

آپ نے تو بھوکے پیٹ کا پورا فلسفہ بیان فرما دیا۔ لگتا یوں ہے کہ آپ سحری پہ اٹھ نہیں پائے۔اور بغیر سحری کئیے روزہ رکھا۔ اور افطاری چھوٹ گئی۔

عشائیہ پر تکلف یا بے تکلف تو سمجھ میں آتا ہے پر رمضان میں ظہرانہ اور ایک ظہرانے کا ناغہ چہ معنی دارد اب تو ماہ رمضان المبارک کا آخیر چل رہا ہے اب تک تو آپ کو تئیس ظہرانوں کے ناغے کا عادی ہوجانا چاہئیے۔

علم گوشتی میں مرغ مسلم اور غسل دجاج کہ آپ شیدائی نظر آتے ہیں

مختصر مگر جامع۔ بہت عمدہ

راشد کامران

September 13th, 2009 at 10:13 pm    


جاوید صاحب ۔۔ شکریہ۔۔ یہ تو ہے کہ رمضان کے آخری عشرے تک انسان مکمل تبدیل ہوچکا ہوتا ہے بلکہ عید اور بعد کا ایک ہفتہ عجیب معلوم ہوتا ہے۔

ریحان

September 14th, 2009 at 12:11 pm    


اسلام و علیکم راشد بھائی ۔۔ آج عمران بھائی کے بلاگ پر ان کی تحریر پر اور ان کے تبصرات پڑھ کر تھوڑا ڈپرس تھا ۔۔ میں نے غلطی سے آپ کا نام تبصرات میں لکھ دیا ۔۔ آئی ایم سو سوری آپ کو کافی ہرٹ ہوا ہوگا ۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں ۔

اکثر ہوتا ہے میرے ساتھ ۔۔ کہ میں اپنی موٹر سائیکل کھڑی کرتا ہو کہی تو واپسی پر اس جیسے کوئی بئیک کھڑی ہو تو اس میں چابی لگانا شروع ہو جاتا ہوتا ہوں

۔۔ امید ہے راشد بھائی آپ میری غلطی کو نظر انداز کروگے

بہت بہت شکریہ

راشد کامران

September 14th, 2009 at 2:32 pm    


ریحان صاحب والسلام۔ آپ نے فوری تصیح کردی مسئلہ وہیں‌کا وہیں حل ہوگیا۔۔ اور یہ ہوتا رہتا ہے میں فکر مند ہوگیا تھا کہ ایسی کونسی تحریر میں نے لکھی ہے۔ آپ کا شکریہ۔

shakeel

March 29th, 2012 at 6:26 pm    


boht khoub aap ki tahreer very nice ,,,i like it ……

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website