نائن الیون۔ ایک تاریخی دن

آج ستمبر کی گیارہ تاریخ ہے ۔۔ پاکستان کے لیے تو اس دن ایک دکھ بابائے قوم کی وفات کی شکل میں‌ پہلے ہی موجود تھا لیکن سات سال پہلے ہونے والی ایک سفاک دہشت گردی نے نا صرف امریکہ بلکہ دنیا کی تاریخ کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کردیا۔ نائن الیون سے وابستہ کئی جھوٹی سچی کہانیاں‌ ہیں‌۔ کئی مفروضے کئی حکایتیں اس واقعے سے منسوب ہیں‌۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور نے اس واقعے کے رد عمل کے طور پر دو ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ساری دنیا میں خوف، بد اعتمادی اور دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا جس کا سلسہ جاری و ساری ہے ۔ اور اس خوف اور شدت پسندی کی قیمت پچھلے سات سالوں سے عام بےگناہ لوگ بڑی عمارتوں، ایر پورٹس، ریلوے اسٹیشنز، سفارت خانوں، کاروباری مراکز اور عمومی تعلقات میں ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان کو اس واقعے سے جتنا نقصان اٹھانا پڑا شاید ہی کسی اور ملک کو نائن الیون کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہو۔ نو سالہ ڈکٹیٹر شپ، ملک کے کونے کونے میں کشت و خون کا بازار، دہشت گردوں کی خطرناک حد تک بڑھی ہوئی طاقت اور سرحدوں پر امریکی اور اتحادی افواج کا اجتماع۔یہ بھی شاید حسن اتفاق تھا یا دل جلوں کی زبان میں‌ ’یہودی سازش‘ کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے تمام بڑے بڑے کامیاب و ناکام منصوبوں کے ڈورے کسی نہ کسی طور پاکستان تک پہنچنے لگے اور آج سات سال بعد صورت حال یہ ہے پاکستان خانہ جنگی اور ابتری کی بدترین صورت حال سے دوچار براہ راست یا بالواسطہ ایک خطرناک جنگ کے انتہائی قریب موجود ہے۔

ان حالات میں‌ پاکستانی شہریوں‌ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو جانتے بوجھتے آگ میں دھکیلنا نہ عقلمندی ہے، نہ حکمت اور نہ ہی دین۔ نائن الیون یہودی سازش تھی یا شدت پسند اسلامی تنظیموں کے ماتھے کا جھومر اس سے قطع نظر ہمیں اپنے آپ کو اسکا براہ راست نشانہ بننے سے روکنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو اس کی ہر سطح‌ اور ہر طریقےسے مذمت کرنا وقت کی ضرورت اور اس نازک صورت حال میں اشد ضروری ہے۔ بودے دلائل اور نفسیاتی ہیجان میں مبتلا لوگوں‌ کی باتوں‌ کا رد انتہائی ضروری ہے۔خاص طور پر مسلمانوں‌ کے لیے کسی بھی صورت حال میں بے گناہ انسان کی جان لینے کا کوئی جواز موجود نہیں ۔ شدت پسندی مذہبی ہو یا روشن خیال دونوں‌ سے دور رہنے میں ہی ہماری بقا ہے۔۔ نائن الیون کے ساتویں سال مل کر دہشت گردی اور شدت پسندی کی مذمت کریں اور اس کا نشانہ بننے والے تمام لوگوں‌ سے بلا تفریق رنگ و نسل، زبان و مذہب اظہار یکجہتی کریں‌ کیونکہ دہشت گردی کا نا مذہب ہوتا ہے نا قوم اسکا نشانہ خدانخواستہ آپ بھی بن سکتے ہیں‌ اور آپ سے ہزاروں‌ میل دور ایک امریکی بھی۔ اسکا تدارک دونوں‌ کے لیے ضروری ہے۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (6)

ابوشامل

September 11th, 2008 at 10:54 pm    


جب 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر تباہ ہوا تو اس کا ملبہ مین ہٹن کی سڑکوں پر گرا تھا اور اب خصوصاً پاکستان اس ملبے تلے دبا ہوا ہے۔ افغانستان پر حملے میں ساتھ دینے کا فیصلہ درست تھا یا غلط، اس سے قطع نظر موجودہ صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی جائے اور آئندہ کسی بھی سرحدی خلاف ورزی کی صورت میں منہ توڑ جواب دیا جائے اور اس معاملے کو سلامتی کونسل میں اٹھانے کے علاوہ تمام دوست ممالک خصوصاً چین کو اعتماد میں لیا جائے۔ قومی سطح پر اس وقت سب سے زیادہ ضرورت تعلیم و شعور اجاگر کرنے کی ہے تاکہ ہر قسم کی شدت پسندی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

افتضار اجمل بھوپال

September 11th, 2008 at 11:31 pm    


اگر کوئی مسافر اُس گاڑی پر چڑھنے سے رہ جائے جس کا اُس نے ٹکٹ لیا ہو تو اُسے خاصا خوار ہونا پڑھتا ہے ۔ ہماری قوم کو کئی بار ٹکٹ ملا لیکن اِدھر اُدھر دیکھتے ہر بار گاڑی نکل گئی ۔
بات سوچ کی ہے جو اوجِ ثریّا بھی پہنچا سکتی ہے اور تحت السّرا بھی پھینک سکتی ہے ۔
ہماری قوم بالعموم ذہنی طور پر سفید فاموں کی غلام ہے ۔ جب تک ہماری قوم ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوتی اس وقت تک کسی بہتری کی توقع بیکار ہے ۔ ذہنی آزادی حاصل کرنے کیلئے ہر شخص کو اپنی پیدائش کا مقصد جاننا ضروری ہے جس کیلئے سوا چودہ سو سال قبل پورا دستور العمل ہمارے پاس آ چکا ہے ۔

راشد کامران

September 12th, 2008 at 12:13 pm    


ابوشامل صاحب اور افتخار اجمل صاحب اپنے موقف بیان کرنے کا شکریہ۔۔ بس یہی دعا ہے کہ قوم کو اس مشکل گھڑی میں سمجھ بوجھ عطا کرے تاکہ اس مشکل صورت حال سے کم سے کم نقصان کے ساتھ نمٹا جاسکے۔

احمد

September 14th, 2008 at 7:19 pm    


یہ واقعہ نہ بھی ہوتاتو میں دہوستوں کی محفل میں کہا کرتا تھا کہ آج ہا کل بڑے بڑے نام نہاد اسلامی ملک جیسے بھی ہیں مٹنے والے ہیں ے یار لوگ اسکو الہام ہونے لگا
میرے پاس البتہ ایک مضبوط دلیل تھی جس کو رد تو کوئ عالم بھی نہ کرتاتھا مگر کہتے یہی کہ ایسی باتیں نہ کرو
دلیل مختصراّ یہ تھی کہ دجال کی نشانیاں پوری ہیں تقریباّ اب اگر مسلمانوں کو عروج ملے تو کیا نئے سرے سے دجال کیلیئے ماحول بنے گا؟ نہیں بلکہ اب حالات آخری حد تاک جائیں گے کہ وہ فتنہ ظاہر ہو کر رہے ۔ اس بناء پر مسلم ممالک کا یکے بعد دیگرے خاتمہ ہونے کو ہے
اصل مسئلہ بڑاصاف سا ہے کہ اپنا ایمان مشکل میں کون بچاپائے گا؟ جس نے تیاری کی ہوگی ناکہ صرف باتیں کرنے والے ۔
واضح بتایا گیا ہے کہ دجال کے زمانے میں جب ایمان کی آزمائش آئے گی تو پھو جانے والوں پر بخشش کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے
ہم بھلا بہتوں کیلیئے مجنون ہوں ہیاں، مگر وہی کہا بھیا جو اللہ کے رسول نے بتایا

عماد

September 16th, 2008 at 1:28 am    


احمد بھائ درست فرما یا آپنے آج ہمکو اپنی قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے اس ویب سائٹ کو بھی وزٹ کر لیں
http://muslimtents.com/truepath

ظہیر اشرف

October 6th, 2008 at 10:58 am    


جن قوموں کو تباہی (دجال) کا انتظار ہو اور اس سے بچنے کے لیئے آسمانی انصاف (مسیح و مہدی) کا انتظار رہے وہ یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہیں ۔۔۔ اور ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔ کچھ کا تو مسیح و مہدی آ گیا کچھ کا رہتا ہے ۔۔۔ اور پھر اس پر ختم نبوت کے دعوے ۔۔۔ سراسر منافقت ہے اور بد قسمتی سے ہم لوگ منافقت کے اعلٰی درجے پر فائز ہیں ۔۔۔
وسلام

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website