جعفرانّا

جعفر اناّ‌، آداب
تمہید و الخابات میں وخت ضائع کرنے کے بجائے ہم براہ راست مطلب کی بات کرنا چاہتے ہیں،  آپ کے خطاں ہم تک پہنچتے رہے ہیں اور ہم آپ کی خلبی کیفیات سے بھی پوری طرح‌ واخف ہیں‌لیکن معاملے میں ہمارا خصور کتنا ہے یہ لوگاں ابھی سمجھنے کو تیار نہیں۔  آپ بہر حال سمجھدار آدمی ہیں اور اس فلسفے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ

زمانہ صاحب زراں اور صرف بلاگراں تو

آپ کے پچھلے نامے نے تو زندگی میں‌وہ ہلچل مچائی، وہ ہلچل مچائی کہ پوچھو نکو۔ مرزا صاحب تو اتنے آگ بگولہ ہوئے بولے کیا دل پہ خینچی چلائی، بچپن کی محبتاں‌یوں‌ بینگن میں ملادی۔  خسم چار مینار کی  ہم نے تو سوچ رکھا تھا کہ اب سارا وخت صرف ٹینس کو دینا ہے اور یہ دل و جان کی حکایت پر خطعی کان نہیں دھرنا  لیکن دنیا کیا ہے؟  چندی چوروں کا اڈا۔  کیا فیس بکاں کیا بلاگاں ادھر اسیکنڈل اُدھر اسکینڈل اور پھر آپ!۔ آپ تو سمجھدار انسان ہیں‌ اناّ۔

زندگی میں نیا موڑ آیا ہے اور آپ کا سوال ہے کہ آپ کو نکو پوچھے۔ میری سمجھ میں نہیں‌ آتا کہ (بقول منصور) ٹیپ ٹینس کی کرکٹ کھیلنے والے ملک میں لوگاں اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ یہ جوڑا تو آسماناں میں بنا ہے بھائی۔ ٹینس اور کرکٹ کا ایسا جڑاؤ کدھر اور کسی ملک میں دیکھے کبھی؟‌ خسمت کا لکھا سمجھ کر معاملہ خبول کرو اور خوشی خوشی دعاؤں‌ کے ساتھ رخصتی دو اور وہ کیا کہتے ہے شاعر لوگاں خلب پر بڑی بڑی چٹاناں ر کھ لو اور جو رخیب ادھر ادھر بغلاں بجا بجا کر آپ کو خبر میں اتارنے پر تلے بیٹھے ہیں‌ ان کی باتاں ایک کاناں‌ سنو اور دوسرے کاناں بھلا دو اور ہم یہ یخین دلاتے ہیں کہ

اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کہ ہم
اب کے گئے تو کوئے ستم گر کے ہوگئے

یہ پہلا اور آخری نامہ سمجھو اور ہاں اناّ  گیٹ اے لائف :)
فخط کسی اور کی۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (18)

کنفیوز کامی

March 31st, 2010 at 5:23 pm    


واہ میاں اتنی اچھی حیدرٓبادی لکھتے ہیں ٓپ یقینا بولتے بھی ہوں گے اس ٓپ کا بھی حیدرٓباد سے لگاو اور پیار ثابت ہوتا ہے کیا کہیں گے اس بار میں ۔

عدنان مسعود

March 31st, 2010 at 6:46 pm    


ارے میاں، حیدرآبادی ہم ہیں اور آپ نے تو یہآں کمال کر دکھایا! یعنی بقول فراز (معذرت کے ساتھ)

زبان یار حیدرآبادی، ما از حرف بیگانہ

بہت خوب۔ بس سوچتے ہیں‌سہراب پر کیا گزرے گی کہ اک پردیسی، وہ بھی ایک پاکستانی کے بچے جب انہیں ماموں ماموں کہیں گے۔

کیا کہیے کہ نہیں جاتی مگر یہ عصبیت ہند نہیں جاتی :)

لیلی شبیر

March 31st, 2010 at 7:42 pm    


اسلام علیکم،
مجھے یھ بلاگ دیکھ کر بھت خزشی ھئ – بھت عرسے میں اردو پڑھی ھے اور انگریزی بول بول کر تھک گی ھوں- کےکیا اپ بتا سکتے ھیں کے اس بلاگ پر نئ پوسٹ کیسے بناتے ھیں؟ بھت شکریا-
لیلی

جعفر

March 31st, 2010 at 11:13 pm    


ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
حضرت میلہ، مشاعرہ، بلاگ سب لوٹ لیا آپ نے۔۔۔
ایک بات کی خوشی بھی ہے کہ کم ازکم شعیب ملک کے بچے ہمیں ماموں نہیں کہیں گے
ہم تو چاچے ہوئے ناں۔۔
ایک دفعہ پھر
واہ واہ واہ واہ۔

بدتمیز

April 1st, 2010 at 12:46 am    


جنی بےعزتی کرو کھٹ اے

محمد وارث

April 1st, 2010 at 1:09 am    


خوب لکھا قبلہ :)

DuFFeR - ڈفر

April 1st, 2010 at 2:57 am    


واہ جی واہ
لگتا ہے اآپ بھی چھپے رستموں کی فہرست میں آنے کے پروگراموں کے تحت حیدرآبادی کی کلاسیں لیتے رہے ہیں
ایک لائن کا ضافہ کر کے کم سے کم مستقبل قریب نہیں تو بعید کے ہی دروازے تو کھلے رکھتے اپنے انا کے لیے
😀

محمد عمران

April 1st, 2010 at 5:02 am    


اب کچھ کچھ سمجھ میں آیا کہ جعفر بھائی بات کچھ اور ہی ہے بقول شاعر کے

اک تم ہی نہیں تنہا، الفت میں‌(ثانیہ کے) رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں‌ہے

محمداسد

April 1st, 2010 at 5:53 am    


واہ بہت ہی خوب! 😀
آپ کا حسن تحریر اور حیدرآبادی انداز ۔ ۔ ۔ بہت اچھا مسکچر بنا۔

پھپھے کٹنی

April 1st, 2010 at 10:14 am    


اتنی رواں حيدر آبادي، شعيب کا ہم زلف بننے کا ارادہ تو نہيں ہے

محمد ریاض شاہد

April 1st, 2010 at 12:55 pm    


اتنی خ بولنے کی بعد تو انسان صرف خوخیا سکتا ہے

عنیقہ ناز

April 1st, 2010 at 1:12 pm    


ریاض شاہد صاحب کیساتھ ہوں۔ سچ بتائیے یہ آپ دکنی تو نہیں یا کسی سے اصلاح لی ہے۔ سوچتی ہوں پندرہ اپریل آنے سے پہلے سارا پاکستان ھیدر آبادی بولنے کا ماہر نہ ہوجائے۔ اور ثانیہ کہیں کہ دھت تیرے کی حیدرآباد چھوڑنے کا کوئ فائدہ نہ ہوا۔ یہاں بھی وہی خوخیاہٹ ہے۔

عمر احمد بنگش

April 1st, 2010 at 1:40 pm    


بہت خوب۔۔۔۔۔۔

راشد کامران

April 1st, 2010 at 3:57 pm    


کامی صاحب۔۔ بس جی ادھر ادھر کی سنی سنائی لکھی ہے ہم نے کیا بولنا ہے۔
عدنان بھائی۔۔ جناب آپ کی صحبت کا اثر ہے۔
جعفر صاحب۔۔ شکریہ۔۔ جناب اب آپ کے اتنے خطوط پر ایک جواب تو بنتا تھا نا۔۔ ورنہ ہماری کیا مجال۔
بدتمیز صاحب۔۔ :)
وارث صاحب۔۔ شکریہ جناب۔
ڈفر صاحب۔۔ کہاں کلاسیں جی۔۔ یہاں تو پورا حلقہ یاراں ہی آندرا سے تعلق رکھتا ہے۔
عمران ۔۔ :)
محمد اسد صاحب۔۔ شکریہ جناب۔
اسماء بی بی (پیرس)‌۔۔ اگر آپ کا تبصرہ ہماری نصف بہتر تک پہنچ گیا نا جی تو ہم زلف تو دور کی بات مجھے اپنی زلفوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑجائے گا۔۔ :)
ریاض صاحب۔۔ بس جناب یہی تو دکن کا حسن ہے اور ظالم سارے لفظ بھی وہی چنتے ہیں‌ جن میں ق کا استعمال زیادہ ہو۔
عنیقہ صاحبہ۔۔ اصلاح کیا لینی ہے جی۔۔ پچھلے کئی سالوں‌سے کئی دوست احباب دکن اور آندرا پردیش سے تعلق رکھنے والے ہیں‌جس کی وجہ سے کئی چیزوں اور لہجے کی تھوڑی معلومات حاصل ہوگئی ہیں ویسے تو جی وہ فلم ہے نا دی انگریز دکنی اردو کا انسائیکلو پیڈیا :)۔
عمر صاحب۔۔ شکریہ۔

راشد کامران

April 1st, 2010 at 3:58 pm    


لیلی شبیر صاحبہ۔۔ خوش آمدید۔۔ اگر آپ کا اشارہ اردو بلاگ بنانے کی طرف ہے تو آپ ورڈپریس پی کے پر اپنا بلاگ بنا سکتی ہیں۔
http://wordpress.pk/

قاضی محمد یاسر

April 8th, 2010 at 10:44 pm    


بہت ہی خوب

عدنان سیال

May 28th, 2010 at 4:01 am    


کمال ھے ، بحت خوب

جعفرانّا | Tea Break

May 5th, 2011 at 1:57 am    


[…] جعفرانّا […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website