کوا بریانی

آپ نے ٹی وی پر عموما کھانے پکانے کے پروگرام تو دیکھے ہی ہونگے جن میں زیادہ تر کھانوں کی ترکیبیں کوا بریانی کی ترکیبوں سے ملتی جلتی ہیں۔ کوا بریانی بنانے کی ترکیب نہایت آسان ہے۔۔

ایک کلو چاول میں حسب ذائقہ نمک اور بریانی مصالحہ ملا کر چھت پر چھڑک دیجیے۔
کوا کیونکہ سیانا پرندہ ہے لہذا چاول اور بریانی مصالحہ،  مناسب مقدار میں چن چن کر کھانے آپ کی چھت پر آجائے گا۔ اس بات کا خیال رہے کے کوئل کووں میں چھپ چھپا کر بریانی کو بد ذائقہ کرنے نا آسکے۔
جب کوا حسب توفیق چاول کھا چکے تو پیچھے سے دبے پاؤں آن کے اسکو دبوچ لیں اور جھٹ حلال کرکے پہلے سے گرم کیے ہوئے پانی میں ڈال دیں۔ آدھے گھنٹے تک چولہا جلا کے اور کھڑکیاں دروازے بند کرکے انتظار کریں تاکہ کووں کا جم غفیر گمشدہ کوے کی بازیابی سے مایوس ہو کر اپنے اپنے گھونسلوں میں واپس چلا جائے۔

لیجیے صاحب کوا بریانی تیار ہے۔۔

یہ کھانا پکانے کی ماسٹر ترکیب ہے اور آج کل ججز کی بحالی اور ملک کی موجودہ صورت حال کے لیے بھی استعمال کی جارہی ہے۔ تھوڑا بہت اختلاف صرف اس بات پر ہے کے کوا حلال ہے یا حرام۔ زرداری صاحب کا کہنا ہے کے جو کوا ٹھونگ مارتا ہے وہ حرام ہے اور نواز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ کیونکہ میں نے بال لگوا لیے ہیں چناچہ کوے کی ٹھونگ کا اثر براہ راست میرے سر پر نہیں پڑنے والا۔ سیلیکشن ہار سیاہ ست دانوں کا خیال ہے کے دو نومبر سے پہلے والے کووں کی بریانی حلال مانی جائے گی لیکن ابھی چھت پر منڈلانے والے کسی کوے کی بریانی حلال نہیں مانی جائے گی۔ مولانا صاحب کا کہنا ہے کے کوئی بھی ایسی  بریانی جو انہیں کسی طرح دوبارہ پاور گیم میں لے آئے اس بریانی پر نیاز وہ خود دیں گے اور مولانا صاحب کے لیے حرام کو حلال کرنا کونسا بڑا مسئلہ ہے۔

بہر حال ہمارا کام تو آپ کو کوا بریانی کی ترکیب بتانا اور اس کے ثانوی استعمال سے آگاہ کرنا تھا اب یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے کے پہلے بغداد جلنے سے بچا لیں یا کوے کے حلال و حرام کا تعین کرلیں۔۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (6)

میرا پاکستان

May 16th, 2008 at 7:44 pm    


سیاستدانوں کی حرکتوں سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ مخلوق کوا بریانی ہی کھاتی ہے اس کے سوا کچھ نہیں‌کھاتی۔ ہمارے ایک دوست کے سامنے جب کوئی منہ میاں مٹھی بنا کرتا تو وہ کہتے کوا بہت سیانا ہوتا ہے مگر تمہیں‌پتہ ہے وہ چونچ کہاں مارتا ہے۔ یہی حساب ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔ عقل میں‌سب اپنے آپ کو ثانی مانتے ہیں مگر چونچ کہاں مارہے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

قدیر احمد

May 16th, 2008 at 8:28 pm    


جناب آپ کو ایک عدد ای میل کی تھی ، ہنوز منتظرِ جواب ہوں ۔

عدنان مسعود

May 17th, 2008 at 5:00 am    


بہت اعلی جناب۔ کیا مماثلت ڈھونڈ نکالی ہے آپ نے کالے کوے اور کالے کوٹ کے درمیان۔

اب ایک نیا طریق (ٹرینڈ) یہ نکلا ہوا ہے لوگ روٹی ، امن و امان، ملکی معیشیت کو اہمیت دینے کی بات کو آگے رکھنے اور عدلیہ کی کی بحالی کو پس پشت ڈالنے کی بات کرنے لگے ہیں، کچھ تھالی کے بینگن ، نام کے ناجی عقل کے پاجی ۔ناعاقبت اندیش کالم نگار بھی اس ظمن میں پیش پیش ہیں۔ بس اتنا کہنا یہ چاھوں گا کہ اداروں کی مضبوطی کسی بھی ملک کی ترقی اور سلامتی کی ضمانت ہے اور عدلیہ مملکت کا ایک اہم ستون ہے۔ اگرعدلیہ کو آزادی حاصل نہیں تو عوام کے حقوق کی پاسبانی کی زمہ داری کس پر ڈالی جاے گی؟

دوسرے امریکی صدر جان آیڈمز نے کیا خوب کہا تھا

“The way to secure liberty is to place it in the people’s hands, that is, to give them the power at all times to defend it in the legislature and in the courts of justice”

John Adams quotes (American 2nd US President (1797-1801), 1735-1826)

یہ ایک بڑا بنیادی نکتہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی کسی بھی معاشرے کی نمو کی کلید ہے۔ کیا عدلیہ ہحال کرنے سے آٹا سستا ہو جاے گا یا پٹرول کی قیمتیں کم ہو جاٰیں گی یا لوگ غربت کے مارے خود کشیاًں کرنا بند کردیں گے؟ میرا جواب ہوگا جی ہاں، اگر عدلیہ مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہو تو یہ عین ممکن ہے ۔ میرے بھی موجودہ عدلیہ پرتحفظات ہیں کیونکہ یہ ان لوگوں پر ہی مشتمل ہے جنہوں نے پہلے عبوری آینی حکم پر حلف لیا تھا لیکن ان ججوں کی بحالی موجودہ حالات میں بہتری کی طرف ایک اہم قدم ہوگا جو کے آگے چل کر عدلیہ کی مکمل خود مختاری کی سمت بھی جا سکتا ہے۔ optimist ہونے پر تو کوی پابندی نہیں ہے۔

امریکہ کی تاریخ میں جو فیصلے بڑی تبدیلی کا باعث بنے وہ یا تو عدلیہ سے آے یا پھر حکومتی ایونوں سے۔ وہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی تھے جنہوں نے امریکی صدر کو اپنے مخالفین کا فون ٹیپ کرنے پر impeachment کی حد تک پہنچایا اور جس نے صدر نکسن کا سیاسی قدوقامت تباہ کردیا۔ اسی عدلیہ نے کینتہ اسٹار نامی وکیل کو اس قابل بنایا کہ وہ امریکی صدر کو اپنی بے راہ روی اور جھوٹ کی بنیاد پر ٹی وی پر معافی مانگنے پر مجبور کرے۔ یہ کورٹ وہی ہے جو فرانس میں یاک شیراک کو کرپشن کی تحقیقات میں شامل کر سکتی ہے اورزرداروں کو کھلا راستہ دے سکتی ہے، وہی کورٹ جو ایک سیاہ فام خاتون(روسا پارکس) کے آحتجاج پر اسکولوں سے نسلی تفاوت کے خاتمے کا اعلان کرسکتی ہے اور یہی عدالت حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو دبا کرسالوں بیٹھ بھی سکتی ہے، فرق صرف آزادی کا ہے۔

کچھ تاریخ ساز فیصلے

segregation in public schools is unconstitutional (Brown v. Board of Education);
the Constitution protects a general right to privacy (Griswold v. Connecticut);
public schools cannot have official prayer (Engel v. Vitale), or mandatory Bible readings (Abington School District v. Schempp);
many guarantees of the Bill of Rights apply to the states (e.g., Mapp v. Ohio, Miranda v. Arizona);
an equal protection clause is not contained in the Fifth Amendment (Bolling v. Sharpe);
that the Constitution grants the right of retaining a court appointed attorney for those too indigent to pay for one (Gideon v. Wainwright).
bortion was a constitutional right (Roe v. Wade)

affirmative action (Regents of the University of California v. Bakke)
campaign finance regulation (Buckley v. Valeo),
held that the implementation of the death penalty in many states was unconstitutional (Furman v. Georgia), but that the death penalty itself was not unconstitutional (Gregg v. Georgia)

شکاری

May 17th, 2008 at 2:00 pm    


آپ کوا بریانی کی بات کررہے ہیں اور عوام ڈکیت کباب بنا رہی ہے۔

راشد کامران

May 19th, 2008 at 12:53 pm    


افضل صاحب آپ کا تبصرہ بلاشبہ بروقت ہے اور واقعی ہمارے لیڈران بریانی کے بجائے سالم کوا کھائے معلوم ہوتے ہیں۔

عدنان صاحب یہ بات درست ہے کے کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں ۔۔ کوئی یہ نہیں کہتا کے آزاد عدلیہ کی ضرورت نہیں ۔۔ لیکن عدلیہ کی بحالی کو بہانہ بنا کر بقیہ مسائل کو پس پشت نہ ڈالا جائے ۔۔ خوراک کا بحران، مہنگائی کا طوفان اور سیکیورٹی کی صورت حال میں یا تو اس مسئلہ کو جلد اس جلد نمٹا لیا جائے ۔۔ یا پھر طوالت درکار ہے تو باقی مسائل پر بھی اتنی ہی توجہ دی جائے۔۔ کیونکہ آزاد عدلیہ بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں چاول کی قیمت کم نہیں کرسکتی۔۔ جو بہت جلد پاکستانی عوام کی پہنچ سے دور ہونے والا ہے۔۔

شکاری صاحب بلاگ میں خوش آمدید۔۔ جناب یہی کوا بریانی کا اثر ہے جو ڈکیٹ کباب اور حکمرانوں کے اجتماعی روسٹ پر اختتام پذیر ہوگا

باجی

May 27th, 2008 at 2:48 pm    


پہلے تو پانچ روپے پلیٹ کوا برئانی مل بھی جاتی تھی مگر چاول تواب صرف میوزم میں ھی دیکھے جا سکتے ہیں اس لئے آپکی ترکیب فی الحال عمل ممکن نہیں وہ آپ کا رقیب بریانی والابھی آجکل پوریان بیچ رہا ہے وہ بھی آتے کی دستیابی سے مشروط ہے بے چارہ کالے کوون کالی اچکنوں ، کالے کوٹوں سے بے نیاز یوٹیلٹی اسٹور کی لمبی لائن مین اپنی کالی قسمت کو رو رہا ہے کاش میں کہانی والا پیاسا کوا ہوتا جس کے کنکر ڈالنے سے کم از کم گھڑے کا پانی اوپر آجاتا ہے اب تو یہ گھڑا یعنی اپنی پارلیمنٹ سانجھے کی ہنڈیا بن چلی ہے کسی بھی لمحے بیچ چوراہے پہ پھوٹ سکتی ہے

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website