ہمیں ماتھے پے بوسہ دو۔۔

کہتے ہیں طبیعات کے اصول ماضی حال مستقبل اور خلاء میں یکساں رہتے ہیں۔ بات تو ماننے والی ہے اور کوئی بھی ذی ہوش آدمی اس کی نفی نہیں کرسکتا لیکن چچا نیوٹن اور پھوپھا آئن سٹائن کا ہمارے ملک کے بارے میں کیا خیال ہوتا؟ کیا طبعیاتی اور معاشرتی قوانین میں اس خطہ زمین کے لیے مثتثنیات رکھی جاتیں اور قوانین کچھ اسطرح بیان کیے جاتے

ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے “لیکن“ پاکستان میں صرف رد عمل ہوتا ہے عمل نہیں ۔ مقالے کی منظوری کے لیے ساٹھ سالہ اخباری ردی کے تمام بیانات شائع کیے جاتے ہیں جہاں ہر سیاسی جماعت اور سیاستدان کا رد عمل موجود ہوتا اور عمل نہیں۔ فوجی حکومت ہو یا سیاسی ، بات متنازعہ خاکوں کی ہو یا عراق جنگ گی صرف “ردعمل“‌

ایک عام تاثر یہ بھی ہے کے زیادہ تر ایسی جگہیں جہاں انسان بستے ہوں قانونی کام کرنا آسان اور غیر قانونی کام کرنا پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے “لیکن“ پاکستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں ماورائے آئین کام کرنا ہو تو کسی حیل حجت کی ضرورت نہیں کر ڈالیے، جمہوری حکومت کر برطرف کرنا ہو یا سوموٹو عدلیہ کا نام و نشان مٹانا ہو ماورائے قانون جا کر کرڈالیے کیونکہ جب بات قانون کے دائرے میں بحالی کی آئے گی تو پھر کام پیچیدہ ہوجائے گا اور بقول شخصے
میں مانتا ہوں یہ سچ ہے لیکن، یہ کیسے کہہ دوں یونہی ہوا تھا۔

یہ بھی ایک جانا مانا اصول ہے کے ہر چیز بہتری کی طرف جاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء کی منازل طے کرتے ہوئے ہر چیز میں بہتری آتی ہے “لیکن“ پاکستان میں کوئی بھی چیز پہلے دن اپنی بہترین حالت میں ہوتی ہے اسکے بعد ہر گزرنے والا لمحہ “میٹا بولزم“‌ کے عمل کو تیز سے تیز تر کرتا جاتا ہے۔ بات آئین کی ہو یا کسی ادارے کی، بات سڑک کی ہو یا کسی نو تعمیر شدہ عوامی بہبود کے ادراے کی عمارت کی پہلا دن اسکے عروج کا دن ہوتا ہے پھر “کبھی ہم خوبصورت تھے“‌ کی منہ بولتی تصویر۔

خیر صاحب ہم نے تو ہر سائنسی اور معاشرتی قانون آزما کر دیکھ لیا لیکن کوئی اصول اس طرح لاگو نہیں ہوا جیسا کے کتابوں میں لکھا ہے۔ آپ بھی کوشش کریں شاید کوئی کامیابی حاصل ہوجائے؟

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (4)

جہانزیب

May 3rd, 2008 at 9:00 pm    


عمدہ تحریر ہے 😀

عدنان مسعود

May 4th, 2008 at 3:03 am    


جس طبعیاتی یا فطری ارتقا کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اس کے لیے ایک بنیادی شرط یکسانیت ہے۔ جیسے کہ دیگر تمام طبعی مظاہرات کے لیے یکسانیت شرط ہے۔ یہاں پر اس سے مراد اداروں کی مظبوطی ہے۔ کسی بنانا رپبلک کی طرح ساٹھ سال بعد بھی ہمارے ادارے غلام اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ردعمل ظاہر کرتے ہیں، عمل نہیں کرپاتے کیونکہ باعمل ادارے یا تو نا پید ہیں یا سیاسی مصلحتوں کا شکار۔ پروفیشنلزم (پیشہ ورانہ ) رجحانات کا فقدان۔ تعلیمی نظام کی تباہی، قانون کی بے بسی میری ناقص راے میں اس فقدان راست عمل کی کچھ اہم وجوہات ہیں ۔ ذمہ دار کون؟ صرف ہم خود۔۔

میرا پاکستان

May 4th, 2008 at 10:15 am    


چچا نیوٹن کا ایک قانون گریوٹی یعنی کشش ثقل بھی ہے جو ہم پاکستانی عوام پر پورا صادق آتا ہے یعنی اگر زمین کو عوام اور اس پر گرنے والی ہر چیز کو ظلم، زیادتی، ناانصافی، مہنگائی، لاقانونیت اور بے بسی کہا جائے تو لگتا ہے چچا نیوٹن نے یہ قانون ہم بے بس پاکستانیوں کیلیے ہی ایجاد کیا تھا۔
ہاں وہ چیزیں زمین کی طرف لوٹ کر نہیں‌آتیں جو اس کی کشش سے باہر چلی جاتی ہیں۔ اس خلا میں‌رہنے والے ہمارے مطلق العنان حکمران ہیں جو کسی سپر پاور یعنی دوسرے سیارے کے مدار میں‌گھوم رہے ہیں اور جن کا ہماری زمین کیساتھ کوئی واسطہ نہیں‌ہے۔

راشد کامران

May 4th, 2008 at 10:06 pm    


جہانزیب صاحب پسند کرنے کا شکریہ۔

عدنان صاحب ۔۔ آپ کی بات درست ہے، ہلکے پھلکے انداز میں یہی بتانا مقصود تھا کے جب تک ہم پاکستانی ایکسیپشنلزم ختم کرکے بنیادی اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے ہم اسی طرح دوسروں کو ترقی اور اپنے آپ کو تنزلی کی طرف جاتا دیکھتے رہیں گے۔

افضل صاحب ۔۔ یہ تو درست ہے کے کشش ثقل کا قانون پوری طرح لاگو ہے لیکن تمام چیزوں کے گرنے کی رفتار اس رفتار سے کہیں زیادہ ہے جسے ہم فری فال کہتے ہیں۔۔۔ بلکے ایسا لگتا ہے کے روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے یہ چیزیں عوام پر گرتی ہیں ۔۔ شاید عوام کی اپنی کشش ان چیزوں کے لیے اتنی ہے کے ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا ہے :)

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website