زبان غیر سے کیا شرح‌ آرزو کرتے

گو مشرف گو کی شاندار کامیابی کے بعد پیش خدمت ہے “گو طالبان گو”۔ امریکہ میں‌ گرما گرم بحث چل رہی ہے کہ امداد دی جائے کہ نہ دی جائے۔۔ صدر زرداری کے دورہ امریکہ المعروف بھیک مشن کے بابرکت موقع پر فوج کا اچانک حالت بیداری میں آنا بلاوجہ ذہن میں عجیب عجیب سے خیالات کی آمد کا سبب بن رہا ہے۔۔ لیکن ٹہریے۔۔ سی این این پر اسے چیک کریں۔۔۔ تصویر دیکھ کر اور “گو طالبان گو” پڑھ کر تو آدھا امریکہ یہی فیصلہ  نہیں کرسکے گا کہ موصوف طالبان کے حق میں ہیں کہ طالبان کے مخالف۔۔۔ اسے دیکھ کر بس یہی ذہن میں‌ آیا کہ

زبان غیر سے کیا شرح‌ آرزو کرتے.۔

Filed Under: دیار غیر, سياست

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (21)

منیر عباسی

May 5th, 2009 at 10:30 pm    


ہاہا،

میں بھی اس قسم کی تصاویر اخبار میں دیکھ کر حیران ہوا تھا ، مگر کچھ کہہ نہ پایا۔

اس لئے نہیں کہ مجھ پر طالبان کا سپورٹر کا لیبل لگ جائے گا، بلکہ اس لئے کہ شائد بڑے شہروں میں ایسا ہی ہوتا ہو۔۔

جس بزرجمہر نے بھی یہ ٍفیصلہ کیا ہوگا، اسے اس فیصلے پر مناسب جزا ملنی چاہئے۔

اعتراض مجھے سی این این کے تصویر کے کیپشن پہ ہوا، کیا صرف داڑھی ہی ایک اسلامسٹ اور نان اسلامسٹ میں واحد فرق ہے؟

ابوشامل

May 5th, 2009 at 10:50 pm    


جب سے طالبان کا غلغلہ اٹھا ہے ۔۔۔ ہر کوئی اپنے مخالف پر طالبانیت کا الزام لگا کر اپنے دل کو سکون پہنچا رہا ہے۔ الطاف حسین کراچی کے پٹھانوں کو طالبان کہہ کر ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں تو یہ حضرات، جن میں سے ایک تصویر میں موجود ہیں، اپنے حریف مسلک کے خلاف نفرت کو باہر نکالنے کے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حقیقتا طالبان کے اقدامات کے خلاف مجھے کوئی قدم اٹھتا دکھائی نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ وہ مذہبی جماعتیں جو جدید ذہنیت رکھتی ہیں، وہ بھی ایک حد تک طالبان کی حمایت ہی کرتی نظر آتی ہیں جو میرے لیے ایک افسوسناک امر ہے۔

جعفر

May 6th, 2009 at 3:44 am    


یہ مجھے مسلکوں کے گورکھ دھندے کی سمجھ نہیں آئی ابھی تک۔۔
سوال ::آپ کون ہیں؟
جواب:: الحمد للہ ۔۔ مسلمان ہوں۔۔۔
سوال: پھر بھی کیا ہیں آپ؟
جواب:: مسلمان ہونے کے بعد کچھ اور بھی ہونے کی ضرورت باقی ہے؟؟؟؟
سوال:: نہ جی پھر بھی عقیدہ کیا ہے آپ کا؟؟؟
جواب:: جو تمام مسلمانوں کا ہے۔۔۔ وہی میرا ہے۔۔۔ اللہ ایک ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخری نبی ہیں، قرآن اللہ کی کتاب ہے، روز قیامت پر ایمان ہے، نماز، روزہ زکوۃ، حج، جہاد سب پر ایمان ہے۔۔۔
سوال:: پھر بھی عقیدہ کیا ہےآپ کا؟
جواب:: کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!!!

نعمان

May 6th, 2009 at 7:23 am    


پاکستان کی عوام قطعا طالبان کے حامی نہیں ہیں۔ یہ محض ہماری ایجنسیاں اور پاک فوج کے چند عناصر ہیں۔ اور آپ نے بالکل ٹھیک پوائنٹ آؤٹ کیا کہ ہماری فوج مزے سے بیٹھی تھی جب طالبان شانگلہ پر قبضہ کررہے تھے۔ مگر برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کے آتے ہی فوج تیزی سے حرکت میں آگئی۔ زرداری کی امریکہ سے واپسی کے ہفتے تک ہماری فوج متحرک رہے گی اور دو تین دو تین شدت پسند ہلاک کرنے کے دعوے کرتی رہے گی۔ اور اس کے بعد پھر جرگے بیٹھیں گے، پھر امن معاہدے ہونگے۔

صوبہ سرحد کے عوام بھی طالبان سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن اس خاموش اکثریت کو انٹرنیٹ‌ یا میڈیا پر اپنے خیال کا اظہار کرنے کے مواقع میسر نہیں۔ مثال کے طور پر سوات کے عوام طالبان سے اسقدر خوفزدہ ہیں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کسی ٹیلیوژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان یا تحریک نفاذ شریعت محمدی سے بیزاری کا اظہار کریں۔ نتیجہ ان کی املاک کی تباہی، درے اور کوڑے، پھانسی یا بے رحمی سے ذبح کیا جانا بھی ہوسکتا ہے۔

پاکستان کا ملا تو ویسے ہی طالبان کے خلاف ہے۔ کیونکہ پھر وہ شریعت اور اسلام کے نام پر اپنی تجارت کو طالبان کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ رہے ہیں۔ تاجر طالبان کے خلاف ہے کیونکہ تجارت اور طالبان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ دانشور طالبان کے خلاف ہیں کیونکہ طالبان خیال کی پرواز کے خلاف ہیں۔ خواتین طالبان کے خلاف ہیں جس کی وجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ بچے طالبان کے خلاف ہیں کیونکہ طالبان بربریت اور ظلم کی علامت بن گئے ہیں۔

جعفر

May 6th, 2009 at 8:49 am    


::نعمان:: بحث نہیں کرنا چاہتاہے۔۔لیکن
جہاں جہاں آپ نے طالبان لکھا ہے اسے بدل کے ایم کیوایم کردیں تو بھی عبارت کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں‌ آئے گا۔۔۔
پریم سنگھ اینڈ نتھا سنگھ
ون اینڈ دی سیم تھنگ

راشد کامران

May 6th, 2009 at 11:59 am    


منیر عباسی صاحب۔۔ خوش آمدید۔۔ ہاں یہ تصویر دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ ویسے سی این این کے اس کیپشن میں میرا خیال ہے کہ داڑھی سے زیادہ ہیڈ بینڈ کا دخل ہے ۔۔ لیکن عمومی صورتحال آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں‌ یہی ہے کہ ہر داڑھی والا خاصل کر شلوار قمیض کے ساتھ انہیں خود کش بمبار ہی دکھائی دیتا ہے۔

ابوشامل صاحب۔۔ یہی رونا ہے، لاشوں کے انبار پر کھڑے لوگ ذاتی دشمنیاں نمٹانے میں‌ لگے ہوئے ہیں۔۔ جہاں تک مذہبی جماعتیں جو جدید ذہنیت رکھتی ہیں۔۔ اگر میں غلطی کروں تو درست کیجیے کا صرف ایک ہی ہے جماعت اسلامی لیکن نہ معلوم کیوں ابھی تک مخمصے کا شکار ہے حالانکہ طالبان کے چیدہ ارکان جماعت کے پورے سسٹم کی نفی کرچکے ہیں۔ مجموعی طور پر دینی جماعتوں کا طرز عمل دوغلا ہے۔ انہیں احساس ہے کہ جمہوری عمل کے نتیجے میں شاید ہی وہ کبھی حکومت بناسکیں چانچہ انہیں بھی ایک آس سی ہوگئی ہے کہ اگر طالبان کسی صورت حکومت پر قابض‌ہوجاتے ہیں تو داڑھی کے سہارے وہ بھی کسی طور پاور گیم میں شامل ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے میرا تجزیہ غلط ہو لیکن دینی جماعتوں کی کبھی پراسرا خاموشی اور کبھی طالبان کی حمایت اور کبھی مخالفت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ کچھ نہیں۔

جعفر بھائی ۔۔ کاش کے مسلمان اس بات کو سمجھ سکتے کہ ہمارے نبی نہ سنی تھے نہ شیعہ نہ وہابی نہ بریلوی ۔۔ وہ صرف مسلمان تھے تو ہماری اتنی ہمت کیسے ہوگئی کے اپنے لیے اور بہت سے نام چن لیے۔ اسی لیے فرقہ بندی اور فرقہ پرستی اسلام میں‌ حرام ہے۔

نعمان صاحب یہ درست ہے پاکستان کے عوام کی اکثریت کسی صورت طالبان کا نظام نہیں چاہتی ، وہ انصاف چاہتی ہے اور اس کا مظاہرہ چیف جسٹس کی بحالی تحریک میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ عوام بے شک خوفزدہ ہیں‌کیونکہ اللہ اکبر کا نعرہ دونوں‌طرف سے لگایا جاتا ہے۔ دونوں طرف کے جنگجو شہید ہوجاتے ہیں۔۔ اور اخبار کہتا ہے چار شہری ہلاک۔۔ ایسے میں عوام خوفزدہ ہوں کہ نہ ہوں۔‌

اصل بات جس کی طرف توجہ دلانی تھی کہ وہ یہ کہ انگریزی میں لکھے ہوئے نعروں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کی جائے لیکن غلط انگریزی ترجمے کی وجہ سے ایک اینٹی طالبان نعرے کو انگریزی بولنے والے پرو طالبان نعرہ سمجھتے ہیں‌۔

عمر احمد بنگش

May 6th, 2009 at 3:26 pm    


یہ تو وہی بات ہوئی جی، ٹائیں‌ٹائیں‌فش ناول والی۔ جس میں‌ہیروئین کا باپ اردو اور انگریزی کا حسین ملاپ کرتا ہے، ایک مثال پیش خدمت ہے کہ، Just like a tiger اور اس کا اردو ترجمہ ایسے کیا کہ، “سور کا بچہ نہ ہو تو” ہاہاہاہاہاہا۔
اب یہ اور بات ہے کہ ساری فساد کی جڑ یہی ہے کہ ہماری قوم اب تک یہ فیصلہ قطعا نہیں‌کر پائی کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟
دوسری بات یہ کہ جناب، آج تو میں‌واقعی خوفزدہ ہو گیا تھا، کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں‌فوجی اور بھاری توپخانہ مانسہرہ سے ہوتا ہوا شانگلہ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ یہ پتہ نہیں‌اب کیا کھچڑی پکانے جا رہے ہیں۔

نعمان

May 6th, 2009 at 9:18 pm    


جعفر یہاں‌ ایم کیو ایم کا کیا ذکر تھا؟‌

ابوشامل

May 6th, 2009 at 10:21 pm    


راشد صاحب! قاضی حسین احمد کی اپروچ تو مجھے اس معاملے میں درست دکھائی دیتی تھی جنہوں نے کئی مواقع پر واضح الفاظ میں طالبانیت کی مخالفت کی جیسے “طالبانائزیشن کا خاتمہ صرف اسلامائزیشن سے ممکن ہے” اور “طالبان، طالبان ہیں عالمان نہیں” وغیرہ لیکن منور حسن اس معاملے کو نجانے کیوں اتنا ہلکا سمجھ رہے ہیں۔ مانا کہ طالبان مخالف عناصر ایسے ہیں جن کی حمایت ہر گز جماعت نہيں کرنا چاہے گی لیکن جماعت کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ طالبان عناصر انہیں گلے لگائیں گے بلکہ یہ “مودودی کافر تھا” کہہ کر ان کے گلے بھی کاٹیں گے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے افغانستان میں پرو جماعت حزب اسلامی کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا اور حیران کن پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں انہوں نے “قبضہ” بھی انہی علاقوں پر کیا ہے جو ہمیشہ جماعت کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں جیسے سوات اور دیر۔ نجانے کون سے مشیر ہیں جو نو منتخب امیر جماعت کو اس جانب سے غفلت میں رکھے ہوئے ہیں؟

جعفر

May 6th, 2009 at 11:28 pm    


میں طالبان کا یا ان کے سو کالڈ اسلام کا حامی نہیں۔۔۔۔ لیکن بندوق کے زور پر ملک اور شہروں پر قبضے کی روایت فوج اور ایم کیوایم نے ہی ڈالی ہے۔ اسی لئے ذکر کیا تھا۔۔۔ اگر یہ سب کرنے پر طالبان قصوروار ہیں اور وہ ہیں تو پھر چور کو نہیں اس کی ماں کو مارنا چاہئے۔۔۔
وما علینا الا البلاغ

عبداللہ

May 7th, 2009 at 11:07 am    


جعفر اور ان جیسے دوسرے اس طرح کی باتیں کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالا کرتے ہیں خود تو کچھ کر نہیں سکتے نہ ملک کے لیئے اور نہ اپنی کمیونٹی کے لیئے تو بس ایم کیو ایم کہ کہ کر جلے دل کے پھپھولے پھوڑا کرتے ہیں بندوق کے زور پر ایم کیو ایم شہر کے شہر فتح کر رہی ہے اور ہم کراچی والوں کو خبر بھی نہیں ورنہ مفتوحہ علاقوں میں جا کر کچھ مزے ہم بھی اڑا لیتے جیسے پنجاب کے لوگ اڑا رہے ہیں اور ابو شامل صاحب کی ساد گی پر تو قربان ہونے کو جی چاہتا ہے
اس سادگی پے کون نہ مر جاے اے خدا
کرتے ہیں قتل ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ارے حضرت جامعہ حفصہ اور لال مسجد سے لے کر سوات اور مالا کنڈ تک جو بیج بوئے گئے ہیں ان کے مالی اپنے قاضی صاحب ہی ہیں ا ن کی ذاتی سیاست کا تو یہ حال ھے جب ایم کیو ایم نے گانوں کے زریعے اپنی سیاست چمکائی تو انہیں لگا کہ وہ بھی یہ ہتیار استعمال کرکے مقبول ہو جائیں گے چنانچہ قاضی جی نے دھنوں پر ناچنا شروع کر دیا پھر لگا کہ متحدہ کا نام شائد بڑا لکی ہے اور دوسرے کم پڑھے لکھے لوگ اسی غچہ میں چند ووٹ ڈال ہی جائیں گے تو متحدہ مجلس عمل بن گئی یہاں تک کے خدمت خلق کمیٹی کا نام بھی چرا کر الخدمت بنا لی،مگر کہی داؤ کارگر نہ ہوا اور مولویوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر جا پھوٹی،تو وہ کند ہتھیار جو طالبان کے نام سے تھا کو دوبارہ تیز کیا گیااس میں کام آئی صوبہ سرحد میں جماعت کی 5 سال کی حکومت کیونکہ اس دور میں ان کو خوب تیر و تفنگ سے آراستہ کیا گیافوج میں جو ان کے چہیتے پیارے موجود تھے انہوں نے بھی حصہ بقدر جثہ ڈالا وہی جو آج کل ایکس سروس مین کے نام پر دہائیاں دیتے پھرتے ہیں،جماعت کے کردار کے بارے میں آپ جب کہیں آپ سے تفصیلی بات چیت کرنے کو تیار ہوں ،
رہا نو منتخب امیر جماعت پر آپکا نزلہ تو قاضی جی تو تادم مرگ جماعت کے امیر بن بیٹھے تھے پر برا ہو ایم کیو ایم کا کہ اس کی وجہ سے کراچی کے لوگوں نے جماعت اسلامی کو پنجابی پختوں اتحاد بنا کر رکھ دیااب بے چارہ قاضی مرتا کیا نہ کرتا بڑوں کے اشارے پر امیری سے دست بردار ہونا پڑا تاکے کراچی کا امیر بنے تو شائد ایک بار پھر کراچی میں جماعت کی دال گلنا شروع ہو جائے،مگر اللہ نے چایا تو یہ خواب اب خواب ہی رہے گاکراچی کے لوگ اب اس جھانسے میں آنے والے نہیں جماعت کا کردار کراچی کے لوگ خوب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں جماعت کے پیچھے کون سی سیاسی جماعت ہے یہ بھی سب کو اچھی طرح معلوم ہے،
راشد امید کرتا ہوں کہ اپنی کسی ذاتی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ میرا تبصرہ مٹائیں گے نہیں،اتنی کرٹسی کی تو مجھے آپ سے امید ہونا ہی چاہیئے:)

راشد کامران

May 7th, 2009 at 11:28 am    


عبداللہ صاحب۔۔ آپ کی آمد اور تبصرے کا شکریہ۔۔۔ میرے بلاگ پر آج تک کوئی تبصرہ نہیں مٹایا گیا ہے۔۔ نئے تبصرے زیادہ تر اپروول کے لیے رک جاتے ہیں اس لیے بلاگ پر ظاہر ہونےمیں تاخیر ہوجاتی ہے۔۔

تما تبصرہ نگاروں سے عرض یہ کرنی تھی کہ موضوع بلاگ یہ قطعا نہیں تھا جس رخ‌ پر بحث جاچکی ہے۔۔ بلاگ کا موضوع احتجاج میں استعمال ہونے والی مبہم زبان اور طریقے ہیں‌جس سے بین الاقوامی میڈیا اور دوسرے ملکوں کی عوام احتجاج کے مقصد کے برعکس رائے قائم کرتے ہیں۔

ابوشامل

May 7th, 2009 at 11:58 pm    


انتہائی معذرت عبد اللہ صاحب کہ میرے اس بیان سے آپ کو دل کو “اتنی” ٹھیس پہنچی۔ لیکن جواباً آپ نے جو الطاف “بھائی” کی “تقریر” پیش کی ہے وہ ہمیشہ کی طرح مسئلے کے بجائے اِدھر اُدھر کی باتیں ہیں۔ الزامات کی سیاست کا کھیل بہت پرانا ہو چکا ہے جو ملک کی ہر جماعت کو ختم کر دینا چاہیے۔ مزید تبصرہ نہیں کروں گا کہ یہ اس تحریر کا موضوع نہیں تھا البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ بحث و مناظرہ جاہلوں کا کام ہے جو کم از کم مجھے تو زیب نہیں دیتا۔ قالو سلاما

عبداللہ

May 9th, 2009 at 1:52 pm    


آپ سے معزرت کے ساتھ راشد آپکی بات صحیح ہے مگر یہاں بے ٹریکا میں ہی نہیں ہوا تھا بلکھ بڑے بڑے لوگ ہوگئے تھے اور اکثر ہوجاتے ہیں، مزید بے ٹریک ہوتے ہوئے صرف اتنا کہوں گا ابو شامل صاحب کو بصد احترام کہ اوپر ر لکھی باتیں الطاف بھائی کی تقریر نہیں کراچی کی اکثریت کی زبان تھی،اور یہ قالو سلاما آپ لوگ صرف اس وقت کیوں کہتے ہیں جب کوئی جواب نہ بن پڑ رہا ہو،آپ فرماتے ہیں بحث مناظرہ جاہلوں کا کام ہے زرا اپنے تبصروں پر غور فرمائیے اور پھر بتائیے کہ الطاف حسین کا نام پہلے آپنے لیا تھا یا کسی اور نے،کاش یہ قالو سلاما آپکے بڑے میاں طفیل ضیاء الحق کو اس وقت کہتے جب وہھ قران پاک پر جھوٹی قسم اٹھا کر بھٹو کیس کے گواہوں کو اس بات کا یقین دلا رہے تھے کہ وہھ جھوٹی گواہی دے دیں تو وہ انہیں بچا لیں گے،یہ قالو سلاما اس وقت آپ کے عظیم رہنماؤں نے کیوں نہ کہا جب وہ ایک غیر اسلامی قانون کوٹہ سسٹم پر مزید 10 ساال کے لی دستخط فرما رہے تھے اور اس وقت جب اللہ کے قانون کے زمین اس کی جو اس پر کاشت کرے کے خلاف دلائل دے رہے تھے؛)

ابوشامل

May 10th, 2009 at 10:29 pm    


انا للہ و انا الیہ راجعون
محترم عبد اللہ صاحب! جائیے جا کر تاریخ کا مطالعہ کیجیے خصوصاً کوٹہ سسٹم کے بارے میں کہ جو آپ کی “مہاجر قومی موومنٹ” کے قیام کا سبب تھا اور یہ بھی پڑھیے کہ اس میں توسیع کون کرواتا رہا؟

DuFFeR - ڈفر

May 12th, 2009 at 3:38 am    


تو اب تک کی لڑائی میں کون جیتا؟
ہمیں بھی معلوم پڑے تو بھاری پلڑے میں بیٹھ جائیں 😀
ہمارا وہی حساب ہے
لوگ چاند پر پہنچ گئے اور ہم چاند چڑھانے میں لگے ہوئے ہیں

عبداللہ

May 14th, 2009 at 7:43 am    


بد تمیز آپ اپنے ن لیگ کے پلڑے میں بیتھے رہیں اور وہاں بیٹھ کر ایم کیو ایم پر چانڈ ماری کرتے رہیں جو آپ لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے،اور مجھے ابو شامل صاحب کی بات کا جواب دے لینے دیں،
ابو شامل صاحب چلیئے آپ نے یہ تو ماناکہ جاگیر دارانہ نظام کو پروان چڑھانے اور بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے میں آپ کی جماعت نے بھرپور کنٹری بیوشن کیا ہے!
باقی رہا سوال کوٹہ سسٹم کا تو اس کا جواب دینے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گاکہ آج جو لوگ کراچی کے لوگوں کو سیکولر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان کی اطلاع کے لیئے عرض ہےکہ کراچی کے لوگ ہمیشہ سے پاکستان میں سب سے زیادہ مزہب سے نزدیک رہے ہیں آج بھی کراچی کی 70 فیصد سے زائد خواتین کسی نہ کسی طرح سے حجاب کرتی ہیں مزہب یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا بنیادی جزو ہےمگر وہ پھر بھی طالبانائزیشن کو سخت نا پسند کرتے ہیں،اسی پس منظر کے تحت ایک زمانے میں جماعت اسلامی کراچی کے لوگوں کی نمائندہ جماعت تھی اور اس کا ہیڈ آفس پنجاب میں ہونے کے باوجوداس کا ووٹ بنک صرف کراچی میں تھا،
کوٹہ سسٹم سب سے پہلے بھٹو نے کراچی پر مسلط کیا اس کا مقصد سندھ کے لوگوں کو کراچی میں نوکریاں دلواناتھا جس سے میرٹ کی کوئی وقعت نہ رہی اور اداروں کی تباہی ہوئی10 سال بعد جب اس کی مدت ختم ہونے والی تھی (اور یہ ضیاء الحق کا دور تھا اور جماعت اس وقت تک ایجینسیوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن چکی تھی اس کا ثبوت یہ کہ ووٹ بنک کراچی کا ہونے کے باوجود اس کے کرتا دھرتا سب پنجاب سے تعلق رکھتے تھے )ضیاء الحق نے اس میں مزید 10 سال کا اضافہ کردیااور جماعت اسلامی کراچی کی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے اس ظالمانہ اور غیر اسلامی قانون پر دستخط کیئے اس بار مقصد پنجاب کے لوگوں کو کراچی پر مسلط کرنا تھااور اس گھٹیا قانون کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں ہر ادارہ تباہ و برباد ہو چکا ہے جہاں میرٹ پر اقربا پروری کو ترجیح دی جائے وہاں ایسا ہی ہوتا ہے،
اب اگر آپ کے بڑوں نے آپ کو اس حقیقت سے ناآشنا رکھا ہے تو انا للہ و انا الیہ راجعون تو آپ کو ان پر اور ان کی عقلوں پر پرھنا چاہیئے!
مزید جوابات چاہیئے ہوں تو نعمان کے بلاگ پر فرمان بھائی جو ایک حق پرست پنجابی ہیں نے کچھ تفصیلات درج کی ہیں کراچی کے فسادات اور ایم کیو ایم کے حوالے سے انہیں بھی پڑھ لیجیئے،باقی اگر پھر بھی سچائی سمجھ نہ آئے تو وقت کا انتظار کیجیئے کیونکہ حق آنے کے لیئے اور باطل مٹ جانے کے لیئے ہے،انشاء اللہ!

عبداللہ

May 14th, 2009 at 8:03 am    


کچھ تصحیح،
بیٹھے رہیں ،چاند ماری،اندرون سندھ کے لوگوں کو کراچی میں نوکریاں دلوانا،

ابوشامل

May 14th, 2009 at 10:11 pm    


عبد اللہ صاحب! ویسے تو میں آپ کو “سلام” پہلے ہی کر چکا ہوں۔ اس لیے اگر اس بحث میں شریک ہوا تو خود بھی “جاہلوں” میں شمار ہوں گا۔
باقی پہلے تو میں یہ سمجھتا تھا کہ آپ کو تاریخ کے مطالعے کی ضرورت ہے لیکن اب پتہ چلا کہ آپ کا تو جغرافیہ بھی خراب ہے :)
نعمان بھائی سے میری ذاتی دوستی ہے، ان سے میں نے اس موضوع پر جو بات کرنا ہوتی ہے روبرو کر لیتا ہوں۔
والسلام

عبداللہ

May 15th, 2009 at 1:46 pm    


یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ اپنے آپ کو بہت بڑا علامہ سمجھتے ہیں :)
میرا آپکو مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ تاریخ آپکی جماعت کو ایک بہت بڑا سبق پہلے ہی سکھا چکی ہے اس سبق کو ہمیشہ یاد رکھیئے ورنہ کہیں رہی سہی جماعت کا جغرافیہ مزید مختصر نہ ہو جائے :) والسلام

منیر عباسی

June 13th, 2009 at 11:11 am    


بہت دنوں بعد آنا ہوا تو علم ہوا کہ بحث تو کہیں سے کہیں جا چکی ہے۔
اب کچھ کہنے کو کیا رہ گیا ہے مگر،
راشد کامران صاحب،
آپ کے اس تجزیئے سے میں سو فیصد متفق ہوں،

’مجموعی طور پر دینی جماعتوں کا طرز عمل دوغلا ہے۔ انہیں احساس ہے کہ جمہوری عمل کے نتیجے میں شاید ہی وہ کبھی حکومت بناسکیں چانچہ انہیں بھی ایک آس سی ہوگئی ہے کہ اگر طالبان کسی صورت حکومت پر قابض‌ہوجاتے ہیں تو داڑھی کے سہارے وہ بھی کسی طور پاور گیم میں شامل ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے میرا تجزیہ غلط ہو لیکن دینی جماعتوں کی کبھی پراسرا خاموشی اور کبھی طالبان کی حمایت اور کبھی مخالفت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ کچھ نہیں۔‘

کچھ ایسا ہے کہ اندر اندر سے یہ لوگ نیم دلی کہیں یا منافقت، مگر طالبان نامی گروہ کی حمایت میں یہ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو مذہبی سیاسی جماعتیں کسی دوسری مذہبی سیاسی جماعت کے اثر و رسوخ کو بڑھتا ہوا دیکھنا برداشت نہ کر سکیں ، وہ ان لوگوں کے اثر و رسوخ کو خاموشی سے برداشت کر لیں؟

طویل بات نہیں کر سکتا واپڈا والوں کی مہربانی ہے، جن کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے، اس لئے اتنا ہی کہوں گا کہ دعائیں مانگنے سے اگر توپوں میں کیڑے پڑجاتے تو قرآن مجید میں دشمن سے مقابلے کے لئے مناسب اور بھر پور تیاری کی آیت کا نام و نشان نہ ہوتا۔

والسلام۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website