قصہ چہار جرنیل۔ پہلے جرنل کی بپتا

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں‌ ذرا کان دھر کر سنو۔ سیر میں‌ چہار جرنیل کی یوں‌لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ مملکت خداداد کے باشندوں کا تھا یہ کمال۔ بھیجے میں بھرے بھس دھرے عقل ٹخنوں میں یوں جرنیل کو بٹھا کاندھوں‌ پر بنایا مالک کل سیاہ و سفید کا۔ اس کے وقت میں رعیت برباد، جمہوریت بیوہ۔ چور اچکے، صبح خیزیے، بے پیندے کے لوٹے یوں خوش کہ اپنا کوئی مختار کل۔ راہی مسافر کی کیا مجال جو شکر اچھالتے جاتے ہر چوک پر پوچھا جاتا منہ میں دانت کتنے ہیں‌ اور کہاں‌کو جاتے ہو۔

سپاہ سالاری کا زعم دماغ میں‌سمایا تو چلتا کیا اپنے سے اوپر جو پایا۔ بس خدا کا تھا ایک سایہ جس تک پہنچنے نا پایا۔ سپوت اپنا چھوڑ گیا جو برسوں سینوں‌ پر مونگ دلتا جمہور کے غم میں‌ ڈھونگ کرتا۔ مملکت اتنی مردم خیز کہ بندگی کو ہزار بندہ ہمہ وقت دستیاب۔ کیا خدائی قانون کیا انسانی، اپنے کو عقل کل گردانتا جو من میں سماتی بات وہی قانون ٹہر جاتی، اس پر مہر ثبت کرنے کو خلقت ایک دربار میں امڈ آتی۔

جہاں‌پناہ نے دیا جب اقتدار کو طول تو طول و عرض میں مچی ہاہاکار، کتا کتا چلائے کیا طفل کیا جوان۔ اور آخر کو وہی انجام جو خدائی کی چادر کے دعوی داروں‌کا مقدر ۔ سبق بپتا سے مگر کسونے نا پایا، ایک انجام کو پہنچا مگر سحر ابھی دور۔ تین جرنیلوں کا قصہ درویش کا ادھار۔

Filed Under: اردو, طنزومزاح

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (13)

اظہرالحق

December 4th, 2008 at 3:48 am    


بہت خوب ۔ ۔۔۔ ریختہ کو ایک بار پھر زندہ کر دیا آپنے ۔ ۔ ۔ سبحان اللہ ، ،

مکی

December 4th, 2008 at 3:50 am    


اچھا قصہ ہے مگر پہلا تھا کون؟

میرا پاکستان

December 4th, 2008 at 5:49 am    


قصہ نثر کی بجائے اگر آزاد نظم میں لکھ دیں تو اسے مزید چار چاند لگ جائیں‌گے۔ مثال کے طور پر
سیر میں‌ چہار جرنیل کی یوں‌لکھا ہے
اور کہنے والے نے کہا ہے
مملکت خداداد کے باشندوں کا تھا یہ کمال۔
بھیجے میں بھرے بھس دھرے عقل ٹخنوں میں
یوں جرنیل کو بٹھا کاندھوں‌ پر
بنایا مالک کل سیاہ و سفید کا۔
اس کے وقت میں
رعیت برباد،
جمہوریت بیوہ۔
چور اچکے، صبح خیزیے، بے پیندے کے لوٹے
یوں خوش کہ اپنا کوئی مختار کل۔
راہی مسافر کی کیا مجال
جو شکر اچھالتے جاتے
ہر چوک پر پوچھا جاتا
منہ میں دانت کتنے ہیں‌
اور کہاں‌کو جاتے ہو۔

دوست

December 4th, 2008 at 5:56 am    


واہ واہ واہ

ڈفر

December 4th, 2008 at 9:27 am    


بہت ہی عمدہ :)
نا نا کرتے بھی باقی تینوں کی کہانی اسی سے ملتی جُلتی ہو گی
میرا پاکستان کا تبصرہ بھی تعریف کے لائق ہے

راشد کامران

December 4th, 2008 at 12:35 pm    


آپ احباب کے تبصروں‌کے شکریہ۔

مکی صاحب ایک ہی تو تھے جن کے اپنے گھر تک میں‌ کتا کتا کے نعرے لگ گئے۔۔ وہی اپنے تئیں فیلڈ مارشل ایوب خان۔

افضل صاحب۔ اصل میں قصہ چہار درویش ہے ہی اسی انداز میں چناچہ نظمیہ سی نثر معلوم ہوتی ہے۔

ڈفر صاحب۔ جرنیلوں کی کہانیاں‌ ایک جیسی ہی ہوتی ہیں کتنا ہی قابل قصہ گو ہو لوگوں کو یکسانیت سے نہیں بچا سکتا ہماری کیا مجال۔

ساجداقبال

December 6th, 2008 at 1:31 am    


مجھے تو کوئی سمجھ نہیں آئی۔

راشد کامران

December 6th, 2008 at 2:03 am    


ساجد صاحب معذرت چاہتا ہوں شاید مدعا درست طرح‌ بیان نہیں‌ ہوا۔ چلیں‌ یوں سمجھ لیں کے میر امن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انکا سا انداز اپنانے کی کوشش کی تھی جو بلا شبہ ہمارے بس سے باہر کی بات تھی۔

راجا

January 2nd, 2009 at 5:04 am    


بہت نایاب
جاری رکھیں

راشد کامران

January 9th, 2009 at 3:50 pm    


راجا صاحب۔ شکریہ۔ انشاءاللہ دوسرے جرنل کی بپتا جلد حاضر ہوگی۔

دسمبر 2008 کے بلاگ

January 17th, 2009 at 8:05 pm    


[…] کامران نے “قصہ چہار جرنیل” میں پہلے جرنیل کی بپتا نہایت ہی دلچسپ انداز میں […]


[…] وکی پیڈیا کا مضمون بننے کی کوشش کریں ورنہ آپ کی داستان یوں بھی بیان کی جاسکتی […]

عبداللہ

August 21st, 2009 at 3:12 am    


راشد صاحب آپنے تو آتش شوق اور بھڑکا دی ہے جلد بقیہ تینوں جرنیلوں کی داستاں بھی تحریر کیجیئے کہ آنکھوں کو قرار اور دل کو چیں نصیب ہو،

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website