مرجاؤں زہر کھا کے

اتنی لے دے ہوچکی۔ فارن پالیسی میگزین نے تردید چھاپ دی۔ خیر خواہوں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں بتا دیا۔ جو مخالف تھے انہوں نے تنقید کے تیز ترین نشتر چلا دیے ۔۔ لیکن کتے کی دم سیدھی ہو کے نہیں دے رہی۔ آج کا جنگ یعنی اصل وقوعہ کے کم از کم ایک ہفتے بعد کا اخبار اور ابھی تک وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔ دنیا کے تین بہترین میئرز۔۔ ایسی سادگی یا بے غیرتی پر کسی نے کیا خوب کہا ۔۔ مرجاؤں زہر کھا کے۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (17)

قدیر احمد

November 16th, 2008 at 11:02 pm    


اس سے ہمارے ٹی وی چینلوں کی کارکردگی ظاہر ہوتی ہے، جاہلوں کو ابھی تک اس کا پتہ نہیں ہے کہ فارن پالیسی والے ان کی کتنی گندی کر چکے ہیں۔

یار مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ آپ مائکروسافٹ ویفٹ کے ذریعے جو فونٹ اپنے بلاگ پر استعمال کر رہے ہیں وہ میرے فائرفاکس میں کیسے نظر آرہے ہیں؟

ابوشامل

November 16th, 2008 at 11:37 pm    


راشد اور قدیر صاحبان! اسے ہرگز ہمارے ذرائع ابلاغ کی سادگی پر محمول نہ کیجئے گا، جتنے باخبر ہمارے ذرائع ابلاغ کے ادارے ہيں، دنیا کا شاید ہی کوئی ادارہ ہو۔ جان بوجھ کر اس سے صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ پرسوں اے آر وائی ٹیلی وژن نے خصوصی رپورٹ نشر کی کہ مصطفی کمال دو نمبر پر آئے ہیں اور کل سماء ٹی وی نے اُن کا انٹرویو نشر کیا جس میں وہی پرانے راگ ۔۔۔

ڈفر

November 16th, 2008 at 11:54 pm    


جس ٹی وی یا اخبار کا کراچی میں‌مین سیٹ اپ نہیں ہے وہ ایسی خبریں شائد نہ لگائے۔ ورنہ مجبوری ہے

ساجداقبال

November 17th, 2008 at 12:48 am    


چھوڑیں جی خوش ہو لینے دیں۔
قدیر یہ فانٹ‌ویفٹ نہیں بلکہ علوی نستعلیق ہے جو سب براؤذر میں بڑھیا چلتا ہے۔ آپ نے نصب کیا ہوا ہے تو تبھی نظر آ‌رہا ہے۔

افتخار اجمل بھوپال

November 17th, 2008 at 1:13 am    


محترمان
کل جب مصطفے کمال لندن یاترا کے بعد واپس کراچی پہنچا تو اس نے پریس کانفرنس میں وہی کچھ دہرایا جو اس نے ایک ہفتہ پہلے کہا تھا اور جیو سمیت سب نے نشر کیا ۔
میں ملک سے باہر بیٹھا ہوں اور کسی کا کمپوٹر استعمال کر رہا ہوں جس میں اردو سپورٹ نہیں ہے ۔ حوالے نہیں دے سکتا کیونکہ اپنے بلاگ کی تمام تحاریر کھنگالنا پڑیں گی جس کیلئے بہت وقت درکار ہے ۔ میں وطن عزیز کے ذرائع ابلاغ کے بارے میں کئی بار لکھ چکا ہوں ۔ ان میں سے ایک آدھ اخبار کو چھوڑ کر سب ٹی وی اور اخبار پیسے کے غلام ہیں یا پھر طاقتور انسان سے ڈرتے ہیں مگر اللہ سے نہیں ڈرتے ۔ پیسے کھا کر یہ کسی شریف آدمی کے کپڑے اتارنے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں ۔
لال مسجد آپریشن کے سلسلہ میں ان کا گھناؤنا کردار ایک سنگین جرم ہے ۔ اگر ان میں سچ بولنے کا معمولی سا حوصلہ بھی ہوتا تو سینکڑوں معصوم بچیوں کو جلا کر ہلاک نہ کیا جاتا اور نہ ہی جامعہ حفصہ جیسے فعال ادارہ کی عمارت تباہ ہوتی ۔ کیا یہ نقصان قوم اور ملک کا نہیں تھا ؟ بعد میں عوامی ردعمل دیکھ کر تھوڑی سی لیپا پوتی کردی جسے پینجابی میں گونگلواں توں مٹی جھاڑنا کہتے ہیں

ابوشامل

November 17th, 2008 at 2:52 am    


ڈفر! اس وقت سوائے ایکسپریس کے، تقریباً تمام بڑے ٹی وی چینلوں کا سیٹ اپ کراچی میں ہے۔ جیو بھی دبئی چھوڑ کر کراچی آ چکا ہے۔ اور میں یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ کوئی خبری چینل فارن پالیسی میگزین کی اس وضاحت یا تردید کو نشر نہیں کرے گا۔

روسی شہری

November 17th, 2008 at 4:53 am    


اس خبر کے متعلق کیا خیال ہے

http://ummatpublications.com/2008/11/16/story1.html

قدیر احمد

November 17th, 2008 at 5:25 am    


ساجد:‌میں‌علوی نستعلیق کی بات نہیں کر رہا ۔ یہ جو نسخ سٹائل کے فونٹ سائیڈ بارکی ہیڈنگ میں‌استعمال کیا گیا ہے اور اوپر “راشد کامران” جس فونٹ میں نظر آرہا ہے، اس کی بات کر رہا ہوں۔

نعمان

November 17th, 2008 at 7:35 am    


ایم کیو ایم پاکستان کی شاید ایسی واحد سیاسی پارٹی ہے جس کی میڈیا ریلیشنز بہت مضبوط اور منظم ہیں۔ ایم کیو ایم مخالف اسے ان کی دادا گیری کہیں گے، ایم کیو ایم کے حامی اسے ان کی کامیاب پالیسی کہیں گے۔ مگر کراچی کے اخبارات اور ٹی وی چینلز ایم کیو ایم کے معاملے میں حد درجے فراخدل ہیں۔ ابوشامل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اس سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا جارہا ہے۔

راشد کامران

November 17th, 2008 at 12:36 pm    


قدیر صاحب ۔۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ان فینسی فانٹس کا ڈاؤن لوڈ لنک دیا تھا ہوسکتا ہے آپ نے تب انسٹال کرلیا ہو۔۔ اگر آپ کے کمپیوٹر میں اردو کھڑا قلم اور اردو آزاد نامی فانٹس انسٹال ہیں تو آپ ہیڈر کو اس کی اصل حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔

عادل جاوید چودھری

November 17th, 2008 at 2:42 pm    


میں نے تو آج ایکسپریس نیوز پر بھی سن لیا۔۔۔۔ وہی مصطفی کمال کی اپنی تعریفیں اور الطاف حسین کی بڑکیں۔۔۔

راشد کامران

November 17th, 2008 at 2:56 pm    


قدیر صاحب‌۔۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کا میعار تو اب بس سب سے پہلے کی حد تک محدود ہوگیا ہے چاہے خبر جھوٹی اور من گھڑت ہی کیوں نہ ہو۔ فانٹس کے حوالے سے جواب میں پہلے ہی لکھ چکا ہو۔

ساجد صاحب۔۔ ایک آدھ دن کی بات ہو تو ٹھیک ہے لیکن ایک ہفتے سے ایک جھوٹی تکرار سن سن کر آدمی پاگل ہوجاتا ہے۔

اجمل صاحب۔ پاکستانی میڈیا ضرورت سے زیادہ سنسنی اور جانبداری دکھاتا ہے ۔۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میڈیا کی شدید خواہش تھی کہ لال مسجد آپریشن ہو تاکہ انکو جلتی پر تیل ڈالنے کا موقع ملے۔

ابوشامل صاحب۔ اس میں‌کوئی شک ہی نہیں کہ اب تک سب لوگوں کے علم میں اس جھوٹی خبر کی سچائی آچکی ہے لیکن پیر کے ڈان میں ایک کواٹر صفحے کا مبارکبادی پیغام دیکھ کر سمجھ آیا کہ میڈیا کیوں‌آنکھیں بند کیا بیٹھا ہے۔ آخر چمچوں کے کواٹر صفحے کے مبارکبادی اشتہارات کو کیسے ہاتھ سے جانے دیں۔۔ خبر جھوٹی سہی لیکن ان کے لیے تو لاکھوں کا منافع ہے۔

ڈفر ۔۔ آپ کو بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ڈر سے زیادہ لالچ کا دخل ہے۔

روشی شہری صاحب۔ لنک فراہم کرنے کا شکریہ۔۔ ویسے مجھے پورا یقین ہے کہ اگر نعمت اللہ صاحب کے ساتھ اس طرح کی صورت حال ہوتی تو امت خاموش رہتا ۔

نعمان صاحب ۔۔ ایم کیو ایم کی انتظامی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں‌۔۔ لیکن صرف نظر کرنے کی وجہ میں نے پہلے بیان کی کہ مبارکبادی اشتہارات اچھا خاصا منافع لارہے ہیں۔

راشد کامران

November 17th, 2008 at 3:01 pm    


عادل صاحب معذرت۔ جواب لکھتے وقت آپ کا تبصرہ ماڈریشن میں تھا۔۔ ایکسپریس کا میعار انتہائی پست ہوچکا ہے۔۔ ابھی حال ہی میں بی بی سی پر ایک بلاگ نما کالم کو انہوں نے اخبار میں‌ “‌بی بی سی کے مطابق” کہہ کر خبر لگادی یعنی ایک رپورٹر کے ذاتی نکتہ نظر کو نیوز ایجنسی سے منسوب کردیا چناچہ ایسے ڈرامے اب آپ “نارم” سمجھیے۔

عمار ابنِ ضیاء

November 18th, 2008 at 6:58 am    


روزنامہ ایکسپریس، کراچی کی 16 نومبر 2008ء میں تصویر بھی چھپی ہے ایک بورڈ کی جس پر مصطفی کمال کو دنیا کے دوسرے مئیر شمار کرنے پر مبارک باد پیش کی گئی ہے۔۔۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ تمام چینلز اور اخبارات ہی یہ راگ الاپ رہے ہیں۔ جیو نے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ فارن پالیسی میگزین نے اس خبر کی تردید کردی ہے۔ مزید یہ کہ کل کیپیٹل ٹالک میں حامد میر نے مصطفی کمال سے فون پر بات کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت طلب کرلی تھی کہ فارن پالیسی میگزین تو تردید کرچکا ہے اس خبر کی جس کے جواب میں موصوف نے ادھر ادھر کی باتیں کرکے گھمادیا۔

راشد کامران

November 18th, 2008 at 12:20 pm    


عمار صاحب ۔ میڈیا بھی ایک حد تک ہی جاسکتا ہے۔ آخر کار تو انہیں اپنی رہی سہی کریڈیبلٹی کا خیال بھی تو رکھنا ہے۔

خاور

November 19th, 2008 at 3:55 am    


جہان میں نے یه فقرھ سناتھا
واہان اس کو
طنزیه
کہتے هیں مر جاواں گُڑ کھا کے
زیادھ هی بھولے بنتے شخص کو یه کہا جاتا ہے

راشد کامران

November 20th, 2008 at 2:31 am    


خاور صاحب اصل میں گُڑ ہی ہے۔۔ تھوڑا انحراف کیا تھا یونہی :)

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website