چھوٹی سی بات

آج کے ایکسپریس اخبار میں جاوید چوہدری کا کالم کم و بیش سب کی نظر سے گزرا ہوگا۔ کیا آپ کے خیال میں ایک ابھی ابھی رونما ہونے والے واقعے کو اسطرح کا دیومالائی رنگ دینا درست ہے؟ یہ اتنا اہم واقعہ ہے کہ اس کے مثبت پہلوؤ کو اجاگر کرکے دنیا کے سامنے لانا چاہیے لیکن اسطرح کی رپورٹنگ تو ابھی تک انہوں نے بھی نہیں کی جو پچھلے دو سال سے براک اوباما کے ساتھ دن رات کام کر رہے ہیں۔ ٹائم کے خصوصی شمارے میں پوری الیکشن مہم کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن حقیقت کو کہانی نہیں بنایا گیا تاکہ پورے واقعے میں سے عملیت کا پہلو ضائع نا ہو۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (14)

میرا پاکستان

November 9th, 2008 at 6:31 am    


اگر اس کہانی کو مثبت انداز میں لیا جائے تو پھر اس میں‌کوئی خامی نظر نہیں‌آتی بلکہ آپ سیکھتے ہیں‌کہ آدمی کو اپنی منزل کو پانے کیلیے کیا کرنا چاہیے۔ ہاں اس کو دیومالائی رنگ جاوید چوہدری نے دیا ہے جسے آپ مسالہ بھی کہ سکتے ہیں مگر صرف کہانی کو دلچسہپ بنانے کیلیے۔ لیکن ہو سکتا ہے جاوید چوہدری نے یہ کچھ کھوچ لگا کر لکھا ہو۔ لیکن‌یہی تو جادید چوہدری کا انداز تحریر ہے جو اسے دوسروں سے منفرد کرتا ہے۔

ساجداقبال

November 9th, 2008 at 7:13 am    


ایسی دیومالائی تحریریں لکھنا وہ چھوڑ دیں‌تو کوئی پڑھے ہی نہ ان کو۔ پہلے میں سمجھا شاید یہ انکی بائیوگرافی سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ میرے خیال میں‌انسپائریشن کے نقطہ نگاہ سے بُری نہیں یہ تحریر۔

ئمعر

November 9th, 2008 at 12:33 pm    


جی جاواد تھععک ھای

نبیل

November 10th, 2008 at 5:19 am    


میں ساجد کی بات سے متفق ہوں۔ پاکستان کے صحافی اور خاص طور پر اردو صحافت سے وابستہ لوگوں کو حقائق اور گیر جانبدار نظریے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، زیادہ تر لوگ اسی طرح کی افسانہ نگاری کو صحافت کا نام دے رہے ہیں۔

نعمان

November 10th, 2008 at 11:44 am    


جاوید چوہدری کا کالم انتہائی مضحکہ خیز حد تک ڈرامائئ ہوتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ کافی اردو بلاگرز ان کے کالم بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ جیسے ابھی کچھ دن پہلے موصوف نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ پاکستانی فوج نے شمالی علاقہ جات سے ایسے لوگ گرفتار کرے ہیں جن کے ختنے نہیں ہوئے اور جو کتوں اور بلیوں کا گوشت کھاتے اور شراب پیتے ہیں۔

گل خان

November 10th, 2008 at 2:20 pm    


اسلام علیکم۔
نعمان صاحب- یہ جو کچھ دن پہلے انہوں نے اپنے کالم میں شمالی علاقہ جات میں گرفتار اورہلاک کئے جانے والے کچھ لوگوں کے بارے میں لکھا تھا تو یہ بات بلکل سچ ہے۔ چونکہ آپ کا تعلق بھی صحافت سے ہے تو اگر کبھی ان علاقوں میں جانے کا موقع ملے تو اس بارے میں شائد ذرا سی تحقیق سے آپ کو بھی معلوم ہوجائے کہ یہ بات حقیقت تھی۔ کیونکہ صرف سراور داڑھی کے بال بڑے کرلینے سے کوئی طالب نہیں بن جاتا۔ طالبان وہ ہیں جودین کو اسکی روح کے مطابق اپنے اوپر لاگو کریں اور پھر دوسروں کو اسکی تبلیغ کرے۔

راشد کامران

November 10th, 2008 at 5:04 pm    


افضل صاحب آپ کی بات درست ہے لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے اردو اخبارات میں‌ چھپنے والے کالموں میں کہانی اور ڈرامے کا عنصر بہت بڑھ گیا ہے اور کالم اور افسانے میں تمیز کرنا مشکل ہوچلا ہے اور کئی بڑے اخبارات کے کالموں میں انتہائی معروف اعدادو شمار اور جگہوں کے نام تک درست نہیں‌ ہوتے۔ مثال کے طور پر زیر تبصرہ کالم میں‌ براک اوبامہ کی رہائشی اسٹیٹ‌ کی ٹرانسلٹریشن درست نہیں‌کی گئی۔ حامد میر کے بھی کئی کالموں میں آپ کو تجزیے کے بجائے شہادت یا گواہی کا پہلو ملے گا جو کئی معاملات میں وہی بگاڑ پیدا کرتا ہے جو نعمان کے کتے بلی کھانے والی مثال میں واضح ہے۔

ساجد صاحب آپ کی بات درست ہے ہم لوگ کالموں میں بھی داستان امیر حمزہ پڑھنا چاہتے ہیں اور اس وجہ سے کئی کالم نگار جاوید چوہدری جیسا انداز اپنا رہے ہیں‌ حالانکہ جاوید چوہدری کا انداز بہت خوب ہے اگر تجزیاتی یا تقابلی تحریروں میں مبالغے کا عنصر کم کردیں۔

ئمعر صاحب۔ مجھے لگا کہ آپ نے لکھا ہے “جاوید ٹھیک ہے”‌۔ بلاگ میں خوش آمدید۔

نبیل صاحب اور نعمان صاحب۔ اس معاملے پر غالبا ہم ایک ہی رائے رکھتے ہیں کہ فکشن، افسانہ نگاری اور صحافت کی سرحدیں متعین رہنی چاہییں۔

گل خان صاحب۔۔ بلاگ میں‌ خوش آمدید اور تبصرے کا شکریہ۔ اصل میں‌ نعمان صاحب کے تبصرے سے جو میں‌ سمجھا ہوں وہ یہ کہ بلی اور کتے کھانے والی بات اتنی مضحکہ خیز ہے کہ ہضم نہیں ہو پاتی۔۔ پہلی بات بلی اور کتے کھانے والی قومیں زیادہ تر مشرقی ایشائی خاص طور پر کورین ہیں جنکا اس قضیے سے بظاہر کچھ لینا دینا نہیں‌ بہت کٹر ہندو تو ویسے ہی گوشت نہیں‌کھاتے اور عیسائی اور یہودی بھی کتے بلی کا گوشت روز مرہ کی خوراک کے طور پر نہیں‌ لیتے۔ ہلاک شدگان کے ختنے والی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن باقی باتوں کے ساتھ ملا کر مبالغہ آرائی اور بے پر کی بات معلوم ہوتی ہے۔ صرف کڑیاں ملانے سے ہی آدمی کو اس دعوے کی سچائی میں‌شک ہوجاتا ہے۔

راشد کامران

November 10th, 2008 at 5:35 pm    


مثال کے طور پر اس کالم کو دیکھیے ۔ ان صاحب نے قیاس کیا کہ

— یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ امریکیوں میں‌انتہا کی نسل پرستی موجود ہے۔ اب بھی کئی کلبوں ریستورانوں پر ماضی کی طرح‌ نوٹس آویزاں ہیں‌ کہ کتوں اور کالوں‌ کا داخلہ منع ہے —

انتہائی غلط بات جو ملک سے سب سے بڑے اخبار میں چھپی ہے جس کو لاکھوں لوگ پڑھیں گے۔ حقیقت میں امریکیوں میں جتنی برداشت ہے اتنی تو ہم لوگوں میں اپنی نسل کے لوگوں کے لیے بھی نہیں۔

گل خان

November 11th, 2008 at 12:00 am    


کتے اور بلیوں کے گوشت کھانے کے بارے میں تو کچھ کہنا شائد مبالغہ آرائی ہو، لیکن ختنوں سے معتلق بات حقیقت ہے۔

اس کےعلاوہ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ صحافت کی سرحدیں یقینامتعین ہوناچاہیے۔ افسانہ اور فکشن پڑھتےہوئے توآپ کویہ پتہ ہوتاہے کہ یہ فرضی داستانیں ہیں، لیکن صحافت کے نام پرآجکل جو کچھ ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر پیش کیا جارہا ہے، یہ تو بلکل ہی نا مناسب ہے۔

نعمان

November 11th, 2008 at 7:25 am    


گل خان صاحب میرا مقصد آپ کی رائے کی تضحیک نہیں لیکن میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ کیا آپ نے خود ایسے کسی طالبان کے مخصوص اعضاء کا معائنہ کیا تھا یا آپ بھی سنی سنائی کہہ رہے ہیں؟ ہندوستان میں تو ایسے گورے چٹے ہندوں کا ہونا کافی مشکل ہے جو طالبان جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اور سویت یونین کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ وہ پشتو بولنے والے سویت نوجوانوں کی ایسی ٹولیاں تیار کرے جو ظاہری بناوٹ میں طالبان دکھائی دیتی ہو؟ میرا خیال ہے غیر ملکی سازشئیے اپنے ایجنٹ بھیجنے کے بجائے مقامی لوگوں کو ہی اپنے ایجنٹ کے طور پر بھرتی کرلیتے ہونگے اور پھر وہ لوگ سیدھے سادھے لوگوں کو بیوقوف بنا کر اپنے چھوٹے سے لشکر بنا لیتے ہونگے۔

نعمان

November 11th, 2008 at 7:32 am    


ایک اور سوال اگر سازشی عناصر اتنی محنت کر رہے ہیں تو کیا وہ اپنے ایجنٹ تیار کرتے وقت ان کے ختنے نہیں کراسکتے؟ میرا خیال ہے اس میں محض چند منٹ لگتے ہیں اور تین دن میں آدمی کام کاج کے لائق ہوجاتا ہے۔ یہ ختنوں والی بات بھی بہت پرانی ہے شاید آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ پاکستانی فوج بنگلہ دیش میں غریب بنگالیوں کی دھوتیاں اتروا کر ان کے مسلمان ہونے کی تصدیق کیا کرتی تھی۔

گل خان

November 11th, 2008 at 7:44 am    


نعمان صاحب، آپ بلکل بجا فرمارہے ہیں، لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے ان علاقوں میں ایسا کچھ ہورہا ہے کہ جب بھی کوئی کچھ بتاتا ہے تو وہ ایک افسانہ لگتا ہے۔ یہ جو کچھ میں نے بتایا ہےاسکے گواہ صرف ہم نہیں اور بھی بہت سارے ہیں، جنہوں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھا ہو۔

نعمان

November 12th, 2008 at 10:42 am    


اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن ممالک ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک تو مہنگائی اوپر سے یہ لڑائی ہم صرف سوچ ہی سکتے ہیں کہ ان علاقوں میں لوگوں کی زندگی کیسی دشوار ہوگی۔ ایسے حالات میں حقیقت اور افسانہ سب گڈمڈ ہونے لگتا ہے۔ اور اگر جنگ زیادہ دنوں جاری رہے تو لوگ صحیح غلط بھی بھولنے لگتے ہیں۔ بس دعا کریں کہ یہ سلسلہ اب تھم جائے۔

گل خان

November 13th, 2008 at 1:51 am    


نعمان صاحب آپ نے بلکل صیح فرمایا۔ دشمن ہماری کمزوریوں سے بھرپورفائدہ اٹھارہاہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کہیں پرطالبان کی صورت میں، کہیں پرلسانی، کہیں پر علیحدگی کی تحریکوں کےذریعے۔ اور دوسری طرف ہماری حکومت کی خام خیالی یہ ہے، کہ یہ لوگ ہر جگہ پر فوج بھیج کر مسئلے حل کردینگے۔ جو کہ بلکل خام خیالی ہے۔

کیونکہ مسائل کی جڑایک ہی ملک میں تین چارتعلیمی نظاموں کا چلنا، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور امیرکا امیرسے امیرترہوناہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہےکہ اللہ تعالی ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کی توفیق دے کہ ہمارے معاشرے کے ذلیل ترین لوگ ہمارے حکمران ہیں جوکہ ایک حدیث کی رو سے ہمارے اعمال کی بدولت ہے۔ آمین۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website