کیا صرف یہودی ذمہ دار ہیں؟

دنیا میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق 1۔1 بلین مسلمان بستے ہیں جبکہ اسکے مقابلے میں یہودیوں کی کل تعداد 14 ملین کے قریب ہے۔ تعداد کا یہ فرق اتنا وسیع ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے کسی  جمع تفریق کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں۔ فرض کر لیں کہ ایک بلین مسلمان روزانہ ایک غلط کام کرتے ہیں جسکی ذمہ داری لازمی طور پر  14 ملین یہودیوں اور ایک شیطان پر عائد کی جاتی ہے تو آپ شیطان اور یہودیوں پر ذمہ داری کے اس بڑے بوجھ کو سمجھ سکتے ہیں۔

پاکستان کے حالات سے تو اب سبھی لوگ واقف ہیں اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کی عمومی صورت حال سے بھی۔ ایک لفظ میں اگر اسے  بیان کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ صورت حال “ابتر” سے کہیں دو درجے نیچے ہی ہے۔ اور اس ابتر صورت حال کی  ذمہ داری عمومی طور پر مغرب اور خصوصی طور پر “یہودی و صیہونی لابی” پر ڈالی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت نے چند تنخواہ دار لابیوں کی مدد سے صورت حال کوہمارے لیے ابتر بنا رکھا ہے؟  اس کے جواب میں دو رائے ہوسکتی ہیں

پہلی یہ کہ ایک ارب انتہائی بیوقوف قسم کے لوگوں نے مذہب اسلام قبول کر رکھا ہے جن کو ان کے ہم مذہب اور دوسرے لوگ گذشتہ ایک صدی سے غلام بنائے چلے آرہے ہیں۔

دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں موجود وہ تمام لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں انہوں نے اپنے لیے اس طرز زندگی کو قبول کر رکھا ہے اور  حالات کو بدلنے کا انکا کوئی ارادہ نہیں چناچہ ملامت سے بچنے کے لیے شیطان کا سہارا تو تھا ہی لیکن کثیر تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہودیوں کو قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے۔

دونوں صورتوں میں اگر اصل قصور وار کا تعین کیا جائے تو میں بڑی ذمہ داری سے یہ رائے دوں گا کہ اس میں یہودیوں کا کوئی قصور نہیں بلکہ مسلمانوں نے اپنی ذمہ داریوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ چند تصورات گھڑے ہوئے ہیں یا حقائق کو بڑھا چڑھا کر حکایت کے درجے پر پہنچا دیا ہے۔ آج اگر یہودی دنیا کی تمام بڑی کارپوریشنز، رسل و رسائل کے تمام ذرائع پر قابض ہیں اور امریکی صدارتی امیدوار بھی سب سے پہلے انکی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنے جاتے ہیں تو اس میں خرابی ڈھونڈنے والے یا تو حسد کا شکار ہیں یا انتہائی بخیل کے یہودیوں کی تعریف کے قابل جدوجہد اور ترقی کو اپنی حالت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

بفرض محال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہودی آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں تو اتنی بڑی تعداد میں موجود لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی عقل پر کیا  پتھر پڑے ہیں جو ہمیشہ سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کسی قوم کی اپنی بقا کے لیے کی جانے والی ہر پلاننگ جسے سازش کا نام بھی دیا جاتا ہے اسکا حق ہے۔ اکیسویں صدی میں بالا دستی قائم کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔ اگر واقعی بطور مسلمان دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو یہودی اور شیطان پر گناہوں کا بوجھ لادنے کے بجائے اپنی خرابیوں پر توجہ کریں کیونکہ شاید اللہ تعالی کو حساب دیتے ہوئے یہودی پر الزام ڈالنے سے دوہری سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ اس بات کا اقرار کرلیں کہ خرابی ہمارے اندر سے پیدا ہورہی ہے اور اندر ہی سے درست ہوگی۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (11)

رومی

October 27th, 2008 at 10:35 pm    


ہم آپ کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنے آپ کو درست کرنا چاہیے، پھر اگر کوئی ہمارے خلاف سازش کرے تو اس کا بندوبست کریں۔

ساجداقبال

October 28th, 2008 at 12:30 am    


چلیں صیہونیوں کو دشمن مان بھی لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ہماری کیا تیاری ہے؟ کوئی نہیں۔ ہم صرف واقعات پر روتے ہیں، اسباب میں کبھی نہیں جاتے۔ اللہ ہی ہمیں ہدایت دے کہ خود ہمیں کبوتر بننے کا از حد شوق ہے۔

افتخار اجمل بھوپال

October 28th, 2008 at 3:45 am    


جو کوئی ہر بات کا ذمہ دار دوسروے کوٹھہراتا ہے وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوتا ہے یا بیوقوفی کا مرتکب ۔

صیہونیوں کی طاقت اور منصوبی بندی کا سرچشمہ وھ اربوں ڈالر ہیں جو امریکہ انہیں ہر سال دیتا ہے اور مغربی دنیا کی غیرمشروط حمائت ہے نہ کہ صیہونیوں کی تعداد ۔

میرا پاکستان

October 28th, 2008 at 6:50 am    


آپ کی پہلی بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ ایک بلین سے زیادہ بیوقوف لوگ اسلام کے پلے پڑے ہوئے ہیں۔

نعمان

October 28th, 2008 at 12:23 pm    


مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ غربت اور جہالت ہیں۔ اگر مسلمان ملکوں میں تعلیم عام کرنے کی کوششیں کی جائیں تو یہ ابتری اور بدحالی دور ہوجائیگی اور شاید تب مسلمان بھی یہودیوں کو ہر بری بات کا ذمے دار ٹہرانا بند کردیں۔

صیہونی سازشیوں کا رونا مسلمان ہی نہیں روتے میں نے یہ پڑھا ہے کہ امریکہ میں بھی کئی لوگ ہر برائی کا ذمے دار یہودیوں کو ٹہراتے ہیں۔

عدنان مسعود

October 29th, 2008 at 10:39 pm    


محترم۔ اپکا یہ بلاگ مجھے یہودیوں کی سازش لگتا ہے!‌ (:

فیصل

October 30th, 2008 at 1:09 am    


ایک کہاوت ہے کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں اگ لگی ہوئی ہو۔
کچھ نہ کچھ مسئلہ تو ہے ہی بہرحال، گرچہ ہمارا اپنا قصور بھی کم نہیں۔
باقی تعداد سے زیادہ نظام اہم ہوتے ہیں اور یہ تو آپکو معلوم ہی ہو گا کہ دنیا کے تمام بڑے بنکنگ، کاروباری یعنی معاشیاتی ادارے کس کے ہیں۔ ہالی وڈ سے انکا تعلق بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں اور نہ ہی میڈیا کی ملکیت کوئی راز ہے۔
جہاں تک بات غربت اور تعیلم کی کمی کی ہے تو میرا ذاتی خیال ہی ہے کہ موجودہ معاشیاتی نظام میں غربت کا خاتمہ ممکن ہی نہیں۔ البتہ تعلیم کی کمی کو کسی حد تک دور کیا جا سکتا ہے۔

راشد کامران

October 30th, 2008 at 12:16 pm    


رومی صاحب بلاگ میں خوش آمدید۔۔ بالکل یہی میرا خیال ہے، دوسروں کو انکا کام کرنے دیں اور ہم اپنے آپ کو مضبوط کریں۔۔

ساجد اقبال صاحب۔۔ آپ نے بالکل مسئلے کی جڑ کو سمجھ لیا ہے۔۔

افتخار اجمل صاحب۔۔ اس سے کسی کو مکر نہیں کہ امداد کے منہ انکے لیے کھلے ہیں لیکن اس کے لیے مربوط منصوبہ بندی اور جس تنظیم کا مظاہرہ انہوں نے کیا ہے شاید اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے۔ وسائل کی کمی کا سامنا ہمیں بھی کبھی نہیں تھا۔۔ لیکن منزل ہی متعین نہیں

افضل صاحب۔۔ جس ردعمل کی نفسیات کا ہم مجموعی طور پر شکار ہیں اسے نرم لفظوں میں بھی بے وقوفی ہی کہا جائے گا۔

نعمان صاحب۔۔تعلیم کی اہمیت سے تو انکار ہی نہیں۔۔ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اصل مسئلہ چھوڑ‌کر ایک غیر مرئی ہاتھ کا خاکہ کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں یہودیوں کو ہر مسئلے کی جڑ نہیں‌ سمجھا جاتا ۔۔ ہولوکاسٹ کی نفسیات کا عمل دخل زیادہ ہے اور مسائل کی ذمہ داری کسی پر ڈال کر ہاتھ پر ہاتھ بھی نہیں‌دھر دیا جاتا۔

عدنان صاحب۔۔ یہودی سازش ہی تو ہے۔۔ جبھی انکی ترقی پر معترف ہوں‌۔۔

فیصل صاحب ۔۔ میرا تو مقدمہ ہی یہی ہے کہ اس تنظیم کو دیکھیں کے دنیا میں بینک اور سارا میڈیا ان کے کنٹرول میں ہے۔۔ اور اس میں برائی کیا ہے؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہمارے بھی ادارے اور کارپوریشنز اسی طرح مضبوط ہوں‌ اور ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرسکیں؟ یہ تو ہر کمیونٹی کا حق ہے۔

فیصل

October 31st, 2008 at 12:43 am    


اداروں کی موجودگی تو بہت اہم ہے لیکن ایسے ادارے نہیں جیسے اسوقت دنیا میں موجود ہیں۔
مثال کے طور پر صرف بنکنگ کے نظام کو ہی دیکھ لیں تو آدھے فساد کی جڑ تو یہی ہے۔

راشد کامران

October 31st, 2008 at 1:12 am    


موجودہ معاشی صورت حال میں تو پورے فساد کی جڑ ہی یہ بینکنگ نظام ہیں لیکن ہم نے کبھی متبادل کھڑا کرنے پر سنجیدہ کوششیں ہی نہیں‌ کیں‌غالبا بی سی سی آئی تھا وہ بھی ہاتھ سے گیا اور بنگلہ دیش کے محمد یونس کا گرامین بینک ہے جو ہمارے جیسے ملکوں‌ کے لیے آئیڈیل ہے لیکن دولت مند مسلمان ملکوں‌ کے لوگ فی الحال اس میں‌کوئی خاص سنجیدہ نہیں اور انکی دولت مسلمانوں‌ کے لیے اتنی کارآمد نہیں جتنی ہونی چاہیے۔

سعدیہ سحر

December 29th, 2009 at 3:48 pm    


سلام راشد کامران

ھمارے دشمن ھر جگہ ھیں – آٹا چینی بھی انھوں نے ھی غائب کیا ھے کھانے والی اشیاء میں ملاوٹ — پینے کا گندہ پانی بھی امریکہ یا یہودیوں کی سازش لگتی ھے
اپنی حالت سدھارنے کا سوچتے نہیں اپنی کمزوریوں پہ نظر نہیں رکھتے ھمارے لیے یہ کافی ھے ھم مسلمان ھیں

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website