رد عمل

راہ چلتے اچانک کوئی آوارہ آپ کے اوپر ایک ننگی گالی اچھال دے تو اس پر رد عمل مختلف قسم کا ہوسکتا ہے۔ مثلا ایک صورت میں آپ برابر کی برہنگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں جس سے جواب آں‌غزل کا ایک سلسلہ شروع ہوسکتا ہے جس کا اختتام شاید ہی خفت کے سوا کچھ ہو۔ دوسری صورت میں آپ اس معاملے کو نظر انداز کرکے کیچڑ سے دامن بچا نکلتے ہیں اور تیسری صورت میں اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ مدمقابل کو حکمت سے قائل کیا جاسکتا ہے تو آپ اس سے بدکلامی کا جواز دریافت کرکے اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں یا کم از کم اپنے عمل سے اس معاملے میں موجود دوسرے فریقوں پر یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ اس گالی کی حقیقت ایک آوارہ کے منہ سے نکلی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔ آپ کا رد عمل بنیادی طور پر اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ آپ اس صورتحال سے کسطرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔

پچھلے کئی دنوں‌سے فیس بک پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کی اشاعت اور ان سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نپٹنے کے لیے کچھ ایسے ہی پیغامات کا سلسلہ چلاہوا ہے جنہیں آپ بنیادی طور ایسے رد عمل کے زمرے میں ڈال سکتے ہیں جس کا براہ راست فائدہ ان ہی لوگوں‌ کو پہنچے کا جن کے خلاف آپ کا احتجاج یا رد عمل ہے۔ مثلا ملاحظہ کیجیے ایک پیغام کا مفہوم

“خاکوں کی اشاعت کے خلاف ہولوکاسٹ کی زیادہ سے زیادہ تصاویر اپ لوڈ کرکے ہٹلر سے اظہار یکجہتی کریں”

بطور مسلمان رسول اللہ کے خاکوں کی اشاعت پر احتجاج کے لیے ہٹلر جیسے بدنام زمانہ اور نسل پرست انسان سے اظہار یکجہتی تو مجھے خود توہین رسالت معلوم ہوتی ہے اور نادان دوست کی وہ نادانی جو مخالفین کے بیان کیے گئے تمام جھوٹے دعووں‌کی توثیق کا باعث بن سکتے ہیں اور خدانخواستہ یہی چیز اگر بطور مثال پیش کردی جائے کہ مسلمانوں کے پاس رد عمل کے لیے ہٹلر کے عمل کی توثیق ایک مثال ہے تو اس سے بہتر ہے کہ ایسے نادان دوست کچھ نا کریں۔

خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں تشدد کی ایک لہر تو اس وقت اٹھی جب ڈینش اخبار نے اس مذموم عمل کا ارتکاب کیا۔ جب ہمارے اپنے ملک میں لوگوں نے اپنی ہی املاک نظر آتش کرکے ڈینش اخبارات کو سزا دی۔ وہاں ہر دوسرے درجے کے لکھاری کو اس بات کی تحریک بھی فراہم کی کہ پندرہ منٹ کی عالمی شہرت حاصل کرنے کا سب سے آسان نسخہ کیا ہوسکتا ہے۔ تازہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب امریکہ میں کیبل پر چلنے والے ایک چینل کامیڈی سینٹرل کے ٹی وی شو ساؤتھ پارک میں رسول اللہ کی شان  میں گستاخی کی گئی۔ ساؤتھ پارک میں کسی بھی مقدس ہستی کی شان میں گستاخی کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے بلکہ عیسٰی علیہ السلام اس پروگرام کے باقاعدہ رکن ہیں جن کو انتہائی بھونڈے انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور مذہبی عیسائی حلقے بھی اس بات پر نالاں رہتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ ان کا وار کارگر ثابت ہوا اور ایک ایسے مسلم گروپ جس کے کارکنوں کی کل تعداد مرحوم نوابزادہ نصراللہ کی پارٹی سے بھی چھوٹی ہوگی ساری مسلم امہ کی آواز بننے کا ٹھیکا لیا اور ایک پروگرام جو بصورت دیگر دنیا کی بڑی آبادی کی نظروں میں‌ نہیں آسکتا تھا اسے عالمی خبر کا درجہ دلا دیا اور اپنے لیے پندرہ منٹ کی شہرت بھی خرید لی۔ اور ہمارا مجموعی رویہ ایک ای میل فارورڈ کرنےسے زیادہ کچھ نہیں جس سے ہم اس بات کا پورا اہتمام کرتے ہیں کہ کرہ ارض پر موجود ہر ذی روح تک یہ لنک پہنچ جائے اور وہ اس لنک پر کلک کرے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ یہ فیصلہ تو آپ کو کرنا ہے اور کئی سطح پر منظم طریقے سے اس کے تدارک کے حل کی کوششیں کی جارہی ہیں زیادہ بہتر ہے کہ اس کے تدارک کے لیے ان کے ساتھ شامل ہوا جائے۔ جان سے مارنے کی دھمکی دینا یا دھماکے سے اڑا دینا ہوسکتا ہے جنت کا شارٹ کٹ معلوم ہوتا ہو لیکن اس کا حتمی نتیجہ مخالف کے حق میں اور اسکی بات کی توثیق کی صورت میں نکلتا ہے اور وہ عوام کی ہمدردی کا مستحق بھی ٹہرتا ہے۔ اس بات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ لادین (خدا کے منکر) لوگ زیادہ تر اس کام میں ملوث ہوتے ہیں اس لیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو تختہ مشق بنانے کے بجائے ان کے تعاون کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اظہار کی آزادی اور فتنہ انگریزی کے درمیان فرق روا رکھا جائے کیونکہ یہ مسئلہ صرف مسلم امہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر مذہب کی مقدس ہستیاں ان منکرین خدا کی لسٹ میں ہیں اور اس سلسلے میں دوسرے مذاہب کا تعاون حاصل کرنا نسبتا آسان ہے۔ اس مثال کو بھی نہیں‌ بھولنا چاہیے کہ اپنے اوپر گند بلا اچھالنے والی بڑھیا کے ساتھ رسول اللہ کا کیا رویہ تھا۔ اپنے چچا سے رسول اللہ نے ابو لہب سے بدلہ لینے پر کیا فرمایا تھا اور سفر طائف میں لہولہان ہوجانے پر بھی جبریل امین سے کس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ معاملات حکمت سے حل کرنے کی مثالیں ہیں۔ کیونکہ در اندازی کا یہ موقع فراہم کرنے میں ہماری کوتاہیاں ان کے ارتکاب سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک شخص اپنی بد اخلاقی سے اپنے والدین کی بدنامی کا باعث بھی بنتا ہے چاہے والدین کتنے ہی قابل اور اچھے کیوں نا ہوں۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر آپ کچھ نہیں‌ کرسکتے تو کم از کم خاموشی اختیار کریں اور ایسی چیزوں کو نادان دوستوں کی باتوں میں آکر مزید پھیلنے سے بچائیں اور جہاں تک ہوسکے اپنے عمل سے گالی دینے والے کی بات کو غلط ثابت کریں ناکہ اس کی بات کی توثیق کا باعث بن جائیں اور بدزبانی کا ایک عالمی مقابلہ شروع کربیٹھیں جس کے اختتام پر ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس تمغہ حسن کارکردگی ہو لیکن اس کے نتیجے کے طور پر آپ سیکڑوں خاکوں اور رسول اللہ کی شان میں گستاخیوں میں برابر کے شریک بھی ہوں گے۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (33)

Munir_Uddin

May 16th, 2010 at 9:38 pm    


يہ ٹھيک ہے ليکن اسلام کو ايک پرامن مذہب کے طور پہ بھی پيش کرنا ہے ورنہ مغرب ميں مسلمانوں کا مستقبل خطرے ميں ہے-

“This is, I think life or death issue for Muslims. A lot of us don’t understand how rapidly they are coming closer to their political economic and civil undoing. Their rights will be gone.”

http://www.theoaklandpress.com/articles/2010/05/15/news/local_news/doc4bef4abbbe700126314924.txt

جعفر

May 16th, 2010 at 11:31 pm    


قلیل المیعاد حل کے طور پر تو آپ کی رائے سے پوری طرح متفق ہوں
لیکن ان چیزوں‌کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے محنت اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے
علم کے میدان میں‌
بہت عمدہ اور متوازن تحریر

افتخار اجمل بھوپال

May 17th, 2010 at 1:04 am    


جہاں تک ميرا خيال ہے کہ ہالو کاسٹ کا ذکر اسلئے کيا جاتا ہے کہ اس جھوٹ کی مخالفت صيہونيوں کو بندوق کی گولی سے زيادہ تکليف ديتی ہے ۔ پوری فرنگی دنيا ميں ہالو کاسٹ کو غلط کہنے والے کو بڑے مجرم کی سزا ملتی ہے جبکہ مسلمانوں کو اذيت پہنچانا ايک تفريح ہے ۔ آپ شايد امريکہ ميں رہتے ہيں مگر اس حقيقت سے واقف نہيں کہ جو تجويز آپ نے دی ہے اسے کوئی صيہونی نہيں مانتا چاہے وہ عيسائی ہو يا يہودی ۔ ميں نے بڑی محنت اور متانت کے ساتھ 1986ء سے 2006ء تک بيس سال يہ سلسہ جاری رکھا اور کسی ايک صيہونی کو قائل نہ کر سکا ۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہمارے دين کو ہی بُرا قرار ديا ۔ آپ اپنے بتائے ہوئے اس طريقہ کو کسی اسلام دُشمن پر آزمائيں اور جب کامياب ہو جائيں تو ہميں بھی نصيحت کريں

عدنان مسعود

May 17th, 2010 at 1:25 am    


تازہ میر ے ضمیر پر معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب

محترم، جہاں تک شرعی حکم کی بات ہے تو یہ بتاتے چلیں کہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل ، ومن سب اصحابہ جلد )) ( رواہ الطبرانی الصغیر صفحہ 236 جلد 1 )
اس کے علاوہ بھی اس پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتمام حجت ہے، آپ اس کی تفصیل کسی بھی جگہ شاتم رسول کے احکامات میں پڑھ سکتے ہیں۔

آپ نے بہت اچھے طریقے سے اس زمن میں کئے گئے غلط اقدامات پر روشنی ڈالی ہے لیکن یہ تحریر ‘صحیح اقدامات’ اور اس زمن میں کس طرح سے اپنے موقف کو پیش کیا جائے جیسے اہم موضوع پر خاموش ہے۔ امت مسلمہ کی خامیوں اور کوتاہیوں پر خود تنقیدی اور بہتری کے جذبے کے ساتھ روشنی ڈالنا ایک مستحسن قدم ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ دیگر ‘مذاہب کے تعاون’ پر مزید روشنی ڈالتے اور کچھ عملی اقدامات کی طرف راہ بتاتے کہ ہم ان پرعمل کر سکتے۔

باقی رہا ردعمل کا تعلق تو حالانکہ میں اس زمن میں کئے گئے پر تشدد اقدامات سے قطعی متفق نہیں لیکن مجموعی طور پر غم و غصہ، رسول کی عصمت و عفت پر غیرت اس امت کا خاصہ ہے، آپ اسے کچھ بھی کہیں،

عقل قربان کن به پيش مصطفي

بے گناہ لوگوں کی جانیں لینا اور املاک کو نقصان پہنچانا ایک حد اور اس شماتت کا کرب دل میں محسوس نا کرنا ایک دوسری حد ہے ۔ غالبا ایمان اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں حدوں کے درمیاں ہے ۔

عقل گو آستا ںسے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

محمداسد

May 17th, 2010 at 3:53 am    


آپ کی بات بہت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ گالی کا جواب گالی نہیں۔ لیکن اس مسئلہ کا حل بھی آپ کی تحریر میں موجود نہیں۔

ہولوکاسٹ انسانی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے اس لیے اس کو مذہبی عنصر میں دیکھنے والے صرف اپنے دل کو تسلی بخشنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ کئی ایک واقعات میں تو مسلمانوں کی بھی اجتماعی قبور دریافت ہوچکی ہیں۔

لیکن کیا اس سے بہتر کوئی حل موجود ہے جو ان لادین شدت پسند عناصر کو بڑھاوا دینے سے روک سکے؟ کیا اس کا متبادل طریقہ احتجاج آپ کی نظر میں ہے جو آزادی اظہار پر بدنمہ داغ کو دھوسکے؟ میں ہر گز ہولوکاسٹ کا دن منانے کے حق میں نہیں لیکن نبی کریم پر کیچڑ اچھالنے والوں کے ساتھ بیٹھنے اور پھر خاموش رہ کر چٹپٹی کرنے پر بھی کسی مسلمان کا دل آمادہ نہیں۔ تو پھر کیا متذکرہ مسئلہ کا حل ‘بائیکاٹ’ کی صورت میں آسکتا ہے؟

شازل

May 17th, 2010 at 4:27 am    


ایک بات تو طے ہے کہ بہت سے لوگ خاموش نہیں‌رہ سکتے
وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں‌، انٹرنیٹ پر وہ ایک مہم چلا رہے ہیں تاکہ لوگوں میں شعور یا آگہی پیدا کرسکیں
میر اخیال ہے کہ یہ ایک اچھا طریقہ ہے اور کسی قدر مثبت بھی۔
لوگوں میں‌غصہ بے پناہ ہے، دشمن دور بھی ہے اور اوچھا پن بھی بہت ہے اسمیں۔
مگر وہ لوگ منظم ہیں‌، جبکہ ہم بکھرے ہوئے ہیں
اور کبھی کبھار اس بحث میں‌بھی پڑے رہتے ہیں کہ کونسا طریقہ غلط ہے اور کونسا درست
اور کبھی کبھار تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ خاموشی کو ہی ایک حکمت عملی کہہ لیتے ہیں
جبکہ زمینی حقائق اس سے کسی قدر مختلف ہیں

ابوشامل

May 17th, 2010 at 6:29 am    


ذاتی طور پر میرا دل آمادہ نہیں ہو رہا کہ میں کسی کے گھٹیا ترین ایونٹ کی تشہیر کے لیے اپنے ای میل ایڈریس کو استعمال کروں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے نادانی میں ایک چھوٹے سے ایونٹ کو اس وقت کا “ہاٹ ایشو” بنا دیا ہے۔ ڈنمارک کارٹون تنازع کے معاملے پر دنیا بھر کے مظاہروں میں اخلاق کے اعلی ترین مظاہرے مسلمانوں نے کیے تھے، وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے کم نہ تھے۔ وہ اس طرح سے کہ ایک طرف ڈنمارک کے کارٹون بنانے والوں نے مذاق اڑایا تو دوسری طرف نبی کے ماننے والوں نے بھی عمل کے ذریعے ثابت کیا کہ ان کا اخلاق و کردار ہر گز اس طرح کا نہیں، جس کی وجہ سے دنیا ان کی محترم شخصیات کی عزت کی جائے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ان پر میرے ماں باپ قربان، نے اپنی زندگی میں اپنے اخلاق و کردار سے ثابت کیا کہ وہ اپنے دشمنوں سے کہیں زیادہ اعلی و ارفع شخصیت ہیں۔ اس لیے ہم نے بھی اپنے اعلی اخلاق سے ثابت کرنا ہے کہ ہم اس نبی کے پیرو ہیں جو خود اشرف الانسان تھے اور ان کے پیرو بھی ان کی سیرت پر عمل کرتے ہیں۔
لیکن یہ بات ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نبی کریم ہمارے لیے ایک معیار بھی مقرر کر گئے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ سب سے زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ کرے (مفہوم) تو میرے خیال میں ہمیں بجائے جذباتی ہونے کے صرف اور صرف ایک کام کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی شخصیت کو اپنی ذات کو ان کی سیرت کے مطابق ڈھالیں۔
اس موقع پر میری التجا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے بے وقوفانہ حرکتیں کرنے کے اس دن اگر سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی سیر حاصل کتاب کا مطالعہ کر لیا جائے تو یہ کہیں زیادہ مناسب ہوگا بجائے اس کہ کہ “ہولوکاسٹ ڈے” منایا جائے۔ سیرت پر دو کتابیں ایسی ہیں جو کسی بھی شخص کی زندگی بدل سکتی ہیں ایک نعیم صدیقی کی “محسن انسانیت” اور دوسری صفی الرحمن مبارکپوری کی “رحیق المختوم”۔

پھپھے کٹنی

May 17th, 2010 at 10:07 am    


انکی پروڈکٹس کے بائيکاٹ والی بات صحيح لگتی ہے مجھے

عبداللہ

May 17th, 2010 at 11:11 am    


ابو شامل کی بات پر صاد کرتے ہوئے میں مزید اتنا عرض کروں گا کہ نہ صرف پڑھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق میں سے کم سے کم کسی ایک پر عمل کا عہد بھی کریں!!!

منیر عباسی

May 17th, 2010 at 11:24 am    


میں تو بذات خود مجموعی طور پر پھپھے کٹنی کی بات سے متفق ہوں، مگر میری دلی دعا ہپے کہ میرے نامہ اعمال کی سیاہ کاریوں‌کے باوجود اللہ مجھے کسی شاتم رسول کو جہنم رسید کر کے اپنے گناہوں‌کا کفارہ ادا کرنے کا موقع دے۔

جو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں راہ راست پر نہ آئے، وہ اب کیسے ہماری “تبلیغ” مان لیں‌گے؟

نا ممکن۔

مولا بخش استاد اس ضمن میں‌بہت کار آمد ثابت ہوگا ، خواہ کسی بھی شکل میں‌ہو۔۔

بیگ صاب

May 17th, 2010 at 2:01 pm    


اگر مسلمان رسول اللہ (ص) سے محبت کے محض دعووں کی بجاے سنت رسول (ص) پر عمل کرنا شروع کر دیں‌تو ایسے دن دیکھنا ہی نصیب نہ ہوں‌کہ کوی بے غیرت اس طرح ہمارے نبی (ص) کی شان میں گستاخی کرے اور ہم سواے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم جیسے پڑھے لکھوں‌سے تو غازی علم دین جیسے ان پڑھ بدر جہا بہتر ہیں‌جو ایسی صورت میں‌کیریر نہیں‌دیکھتے، بس کام کر گذرتے ہیں۔

لیکن کیا کریں۔ مسلمان تو اس پہ بحث کر رہے ہیں‌کہ سنت اس دور میں واجب العمل ہے کہ نہیں، حدیث کو ماننا چاہیے کہ نہیں ۔ حدیث کی حجت ہے کہ نہیں۔۔۔ جب بیٹے اپنے باپ کی بات ماننے میں‌حیل حجت کریں‌تو باہر والوں‌کا رونا کون رو سکتا ہے؟

زبان کانپتی ہے وہ کہتے ہوے جودل میں‌آرہا ہے مسلمانوں کی اس حرکت پر ۔۔۔
اللہ محفوظ رکھے۔

عبداللہ

May 17th, 2010 at 3:23 pm    


بیگ صاحب اس بات کی تصدیق کیسے ہو کہ جو باپ کا نام لے کر کہا جارہا ہے وہ واقعی باپ نے کہا بھی تھا یا نہیں؟؟؟؟؟
میرے نزدیک اس کی تصدیق صرف اور صرف قرآن پاک کرسکتا ہے اور اس کے لیئے قرآن پاک کو زہن اور آنکھیں کھول کر پڑھنا پڑےگا!

عباسی صاحب علم نے واقعی آپ کا کچھ نہیں بگاڑا،:(
کسی شاتم رسول کو مارنے کے بجائے اس کو دین کی طرف بلانے سے اللہ اور رسول زیادہ خوش ہوں گے اور ہمارا سیرت النبی پر عمل کرنا اللہ اور اس کے رسول کے لیئے زیادہ خوشی اور فخر کا باعث ہوگا،کم سے کم میرا تو یہی ایمان ہے!
اور یوں بھی چاند پر تھوکا اپنے ہی منہ پر آکر گرتا ہے،قتل کرنا ہی ہے تو ان کا معاشی قتل کریں انکی چیزیں خریدنا چھوڑ دیں،مگر یہ ہم مومنین سے ہوگا نہیں!

عبداللہ

May 17th, 2010 at 3:26 pm    


چاند پر تھوکا اپنے ہی منہ پر آکر گرتا ہے،
یہ جملہ مینے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے لیئے لکھا ہے!
وضاحت اس لیئے ضروری سمجھی کہ لوگ کچھ کا کچھ مطلب نکال لیتے ہیں

محب علوی

May 17th, 2010 at 7:58 pm    


میں بھی اس رائے سے متفق ہوں کہ سیرت نبی پر عمل پیرا ہو کر ہی صحیح معنوں میں جواب دیا جا سکتا ہے اور ایسے واقعات پر تحریری طور پر اعتراض کرنا چاہیے اور پر امن طور پر ناپسندیدگی اور بے زاری کا اظہار کرنا چاہیے مگر ہولوکاسٹ کا دن منانا یقینا ایک انتہائی گمراہ کن خیال ہے۔

منیر عباسی

May 17th, 2010 at 10:04 pm    


عبداللہ ، اگر علم نے میرا کچھ نہیں‌بگاڑا، تو میں‌اب تک کے مشاہدے کی بنا پر پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں‌کہ علم نے آپ کا کچھ نہیں‌سنوارا۔

محمد سعید پالن پوری

May 18th, 2010 at 2:15 am    


جو حضرات رد عمل میں سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی بات کر رہے ہیں وہ دراصل تعلیق بالمحال کر رہے ہیں اور بس! انکی یہ تجویز پڑھ کر وہ لطیفہ یاد آگیا کہ کسی گنوار نے ایک پڑھے لکھے سے پوچھا: بابوجی! زمین کا پیچ کہاں ہے؟ جواب نفی میں ملا۔ گنوار کہنے لگا کہ تم نے خواہ مخواہ اتنا پڑھ لکھ کر سب ڈبودیا، اتنی بات تو مجھ گنوار کو بھی معلوم ہے۔ بابوجی نے پوچھا وہ کیسے؟ اس نے ہاتھ کی لاٹھی سے ایک گول دائرہ بنایا اور اس کے درمیان لاٹھی گاڑ کر کہنے لگا: “یہ ہے زمین کا بیچ”، “اگر یقین نہ آئے تو ناپ کر دیکھ لو”۔ اسکو یقین تھا کہ نہ کوئی پیمائش کر سکےگا اور نہ کوئی اس کے دعوے کو توڑ سکےگا۔ ایسے ہی ان مشورہ دینے والوں کو یقین ہے کہ مسلمان باتیں تو خوب چھانٹیں گے مگر فکری بے راہ روی کی وجہ سے من حیث المجموع سنتوں پر عمل نہیں کر سکیں گے اور یوں یہود کا مقابلہ نہیں کیا جاسکےگا۔
اگر اس طرح کے توہین آمیز خاکے ہندوستان کا کوئی اخبار یا کوئی سائٹ محمد علی جناح کے بنا رہی ہوتی اور حکومت کا ہاتھ بھی انکی پشت پر ہوتا تو مجھے نہیں لگتا کہ اہل پاکستان پہلے معاشی اور دفاعی میدان میں ہندوستان کے برابر ہونے کی سوچتے پھر مقابلے پر اترتے

میرے نزدیک اگر اس مسئلہ کا کوئی شائستہ حل نکل ہے تو وہ نام نہاد اسلامی ممالک کے سربراہان اور ارباب حل و عقد کے اتفاق و اتحاداور پھر انکی طرف سے چو طرفہ دباؤ کی صورت ہے مگر ان کو اپنی کرسی کے علاوہ اور کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ ان کے کسی سفیر کو اگر کرسی پر نہ بٹھا کر نیچے بٹھایا جاتا ہے تو وہ اسے اپنے ملک کی سبکی قرار دیکر سفیر واپس بلانے کی دھمکی دیتے ہیں، اور دباؤ بنا کر جھکنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ لیکن جب اللہ و رسول کی بات آتی ہے تو انکے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، حالانکہ یہ مسئلہ تمام اسلامی ممالک کی یونین بنانے کا باعث بن سکتا تھا۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں لامحالہ پبلک اور عوام یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیگی، اور وہ اپنے ہی “حساب” سے سلجھائے گی اور آپ عوام سے کسی مسئلہ کے حل میں شائستگی کی توقع نہیں رکھ سکتے

افتخار اجمل بھوپال

May 18th, 2010 at 2:16 am    


جو حضرات سنّت نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم پر عمل کرنے کی تلقين کر رہے ہيں وہ درست کہتے ہيں مگر اس مشورہ کا اثر اُس وقت ہو گا جب وہ خود سنّت نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم پر عمل کرتے ہوں ۔ يہ اصول بھی ميں نے سنّت نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم سے ہی ليا ہے
ايک صاحب نے قرآن شريف سے تصديق کی بات کی ہے ۔ قرآن شريف ميں کئی جگہ اللہ کی تابعداری کے ساتھ نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی تابعداری کا حُکم ہے اور يہ بھی درج ہے کہ نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم اپنی مرضی سے کچھ نہيں کہتے بلکہ وہی کہتے ہيں جس کا اللہ کی طرف سے ان کو حکم ديا جاتا ہے
درست کہ مسلمان بے عمل ہيں اسلئے کوئی اُن سے نہيں ڈرتا ۔ جب باعمل ہو جائيں گے تو کسی کو گستاخی کی جرءت نہيں ہو گی
بات پھر وہيں پر آ جاتی ہے کہ کيا مسمانوں کے باعمل بن جانے تک سب کچھ برداشت کيا جائے جبکہ نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کا ہی فرمان ہے کہ برائی کو ديکھو تو اسے طاقت سے روکو ۔ اگر طاقت سے نہيں روک سکتے تو زبان سے روکو اگر اتنا بھی نہيں کر سکتے تو دل سے بُرا سمجھو اور آخری عمل کے متعلق فرمايا کہ يہ ايمان کی کمزور ترين شکل ہے

قدیر احمد

May 18th, 2010 at 2:36 am    


راشد بھائی: میرے خیالات کاپی کرنے والی عادت گئی نہیں آپ میں سے
p:

عبداللہ

May 18th, 2010 at 7:59 am    


عباسی صاحب برا نہ منائیے،
میں آپ جیسے پڑھے لکھے شخص سے اس بات کی امید نہیں کرتا کہ اپنے گناہ بخشوانے کے لیئے آپ کسی شاتم رسول کا خون کرنے کی بات کریں،
سوال یہ ہے کہ شاتم رسول کا خون کرنا زیادہ مشکل ہے یااسوہ رسول پر عمل کرنا؟؟؟
کم سے کم میرے نزدیک تو اسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)پر عمل زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ اس میں کچھ سخت مقام آتے ہیں!
رہی میرے علم کی بات تو میں تو ابھی طالب علم ہوں!
:)

عبداللہ

May 18th, 2010 at 8:05 am    


ایک صاحب فرماتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ کيا مسمانوں کے باعمل بن جانے تک سب کچھ برداشت کيا جائے؟

میرا سوال یہ ہے کہ کیا باعمل مسلمان بننااتناہی مشکل ہے،جیسے دعوے ہمیں نبی سے محبت کے ہیں اس کے مطابق تو عمل بالکل مشکل نہیں ہونا چاہیئے!بس تھوڑا نفس مارنا پڑتا ہے!

مومنین سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ فیس بک کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں ہمیشہ کے لیئے نہ سہی کم سے کم اس وقت تک کے لیئے جب تک وہ معافی نہ مانگ لیں؟؟؟

عبداللہ

May 18th, 2010 at 8:15 am    


رہی یہ بات،
نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کا ہی فرمان ہے کہ برائی کو ديکھو تو اسے طاقت سے روکو ۔ اگر طاقت سے نہيں روک سکتے تو زبان سے روکو اگر اتنا بھی نہيں کر سکتے تو دل سے بُرا سمجھو اور آخری عمل کے متعلق فرمايا کہ يہ ايمان کی کمزور ترين شکل ہے

صاحب تحریر یہ بھول گئے کہ یہ بات کہنے والے نے خود کیسے اس پر عمل کیاکہ ایک بچے کو زیادہ میٹھا کھانے سے روکنا تھا تو پہلے خود میٹھا کھانا کم کیا پھر اس کو ہدایت فرمائی!

ابوشامل

May 19th, 2010 at 2:46 am    


میرے خیال میں جو لوگ مقابلے میں “ہولوکاسٹ ڈے” منانے کا کہہ رہے ہیں ان کا مقصد صرف فیس بک کی آزادی اظہار کی پالیسی کو چیک کرنا ہے، جو ظاہر ہے یہودی نواز ہے اور اس کا عملی اظہار آپ نے چند روز قبل دیکھ لیا ہوگا (مندرجہ ذیل لنک دیکھیے) کہ ہولوکاسٹ کے خلاف صفحے کو فورا حذف کر دیا گیا جبکہ لاکھوں بلکہ کروڑوں رپورٹس ہونے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے صفحے کو حذف نہیں کیا جا رہا۔ اور اس طرح کی کئی رپورٹیں ہیں کہ فیس بک نے اس صفحے کے حذف کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اب ذرا مندرجہ ذیل صفحے پر رپورٹ دیکھیے کہ کس طرح یہودیوں کے خلاف صفحے کے حذف کیا گیا:
http://www.thejidf.org/2010/05/action-alert-muslims-launch-hate-group.html

Munir_Uddin

May 19th, 2010 at 8:37 am    


“میرے خیال میں جو لوگ مقابلے میں “ہولوکاسٹ ڈے” منانے کا کہہ رہے ہیں ان کا مقصد صرف فیس بک کی آزادی اظہار کی پالیسی کو چیک کرنا ہے، ”

بڑی مزاحيہ بات کی آپ نے- پاکستان ميں آذادی اظہار ہے؟ دوسروں کو نصيحت۔۔۔

—–

جو دوست طاقت کے استعمال کی دھمکياں دے رہے ہيں، وہ خود کب ان بڑھکوں پہ عمل کررہے ہيں؟ غالباں کبھی نہيں- کاغذی شير کئی ہيں ہمارے ہيں-

منیر عباسی

May 19th, 2010 at 9:06 am    


عبداللہ آپ کے مابلے میں میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کے مطابق شاتم رسول کا قتل بھی شامل ہے۔

آپ اپنی مسلمانی اپنی جیب میں رکھیئے۔

معاشرہ

May 19th, 2010 at 11:17 am    


فیس بک پر پابندی ۔ حماقت کا جواب حماقت سے دیا گیا ہے

عبداللہ

May 19th, 2010 at 4:44 pm    


تو عباسی صاحب جائیے جاکر قتل کرآئیے یہاں بیٹھے خالی خولی بڑکیں کیوں ماررہے ہیں؟؟؟؟

عبداللہ

May 20th, 2010 at 2:20 pm    


ویسے جناب عباسی صاحب، مسلمانی کو جیب میں کیسے رکھتے ہیں یہ تو آپنے بتایا ہی نہیں؟؟؟؟؟؟

بیگ صاب

May 20th, 2010 at 2:47 pm    


کسی کو کسی اچھی بات کی طرف بلانے کے لیے ضروری نہیں‌کہ وہ شخص خود بھی اس پر عمل کرے۔ نہیں‌کرے تو وہ اس کی قسمت اور عمل، لیکن عمل کی کمی کی وجہ سے امر بالمعروف کو چھوڑ دینا بذات خود ایک غلطی ہے، کیونکہ بعض‌ اوقات انسان عمل ہی اس وقت شروع کرتا ہے جب وہ اپنے مشورے کا اثر دیکھتا ہے۔

عدنان مسعود صاب نے آپ کے سامنے حدیث بیان کر دی جس کا مفہوم اگر میں‌صحیح‌سمجھا ہوں‌تو یہی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے۔۔۔ اس کی مثال ہمیں‌کعب بن اشرف کے قتل سے ملتی ہے جس کو صحابہ نے باقاعدہ پلاننگ کر کے شہید کیا۔ الرحیق المختوم میں‌پورا واقعہ ہے۔۔۔

جن صاب نے یہ پوچھا ہے کہ صحیح بات کی تصدیق کیسے ہو تو آپ کی آسانی کے لیے محدثین کرام نے اپنی زندگیاں لگا کر احادیث کی تدوین کا کام کیا ہے۔ قرآن کو حدیث کی روشنی میں‌ہی سمجھا جا سکتا ہے ورنہ بندہ خود بھی گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔۔۔ لیکن اگر کوی حدیث کا منکر بھی ہو تو بھی کیا سود سے بچنے کا حکم قرآن میں‌نہیں‌ہے؟‌ جس چیز کو اللہ نے اپنے کلام میں اللہ اور رسول (ص) سے جنگ قرار دیا ہے اس کو تو مسلمان دن رات اپنا رہے ہیں باقی کسی چیز کا ذکر تو بعد کی بات ہے۔۔۔

عبداللہ

May 21st, 2010 at 9:47 am    


بیگ صاحب باتین کرنا بہت اسان ہوتا ہے اور عمل اس سے کہیں زیادہ مشکل اور اللہ کو ہم سے باتین نہیں عمل چاہیئے ہے!
جس سوچ کا مظاہرہ آپنے اپنے تبصرے میں کیا ہے اسی نے مسلمانوں کو تن آساں بنادیا ہے کہ آج کہہ لو عمل کل کرلیں گے اور پھر وہ کل کبھی نہیں آتی،اگر کہنے سے پہلے عمل کی عادت مسلمان ڈال لیں تو سارے مسئلے خود بخود ہی حل ہوجائیں گے!
آپکی باقی باتوں کا جواب تو میں ایک اور پوسٹ پر دے چکا ہوں اس لیئے یہاں دہراؤں گا نہیں ہاں جہاں تک سود کی بات ہے تو میں مکمل آپکا ہم خیال ہوں اسی لیئے بنک میں بلا سودی کھاتہ کھولتا ہوں!
اور بنک میں نوکری کو پسند نہیں کرتا کم سے کم میں اس سے زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں!

عبداللہ

May 21st, 2010 at 9:51 am    


نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لیئے کسی کے قتل کا حکم نہیں دیاجب تک کے وہ مسلمانوں اور اسلام کے لیئے ضرر رساں ثابت نہیں ہوا!
یہ الگ بات کہ اسلام اور نبی پاک الگ الگ نہیں اس لیئے بہت سے لوگوں کو یہ مغالطہ ہوتا ہے!!!

تہامی

June 8th, 2010 at 6:04 am    


عبداللہ صاحب آپ نے کیا کیا اس مسئلے پر آپ کمنٹس سء ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آپکو اس واقعہ سے بے انتہاء خوشی ہوئ ہے اور اس واقعہ پر دل پرداشتہ ہر شخص کو اپنی طوطا چشمی کا نشانہ بنا رہے ہیں ویسے آپ نے کتنے یہودیوں کو اسوہ رسول اکرم پیش کرکے مسلمان ر لیا ہمیں بھی بتائین تاکہ ہم آپکو اپنا امام اور مقتدا بناسکیں

ثناءاللہ

June 28th, 2010 at 12:09 am    


یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ ہم پر زرداری جیسا حکمران مسلط ہوگیا ہے لیکن لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد (انشاء اللہ)

رد عمل | Tea Break

May 5th, 2011 at 1:54 am    


[…] رد عمل […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website