تعلیم کے خلاف مہم کیوں؟

بنیادی طور پر تعلیم یا آپ اسے جدید تعلیم بھی کہہ لیں تو قابل اعتراض نا ہوگا  کے میدان میں ہم کس سطح پر کھڑے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایسی صورت حال میں جب کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر جدید تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں کرنی چاہییں ایک منظم مہم کی صورت تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگوں‌ کے خلاف آج کل ایک طبقہ بہت زیادہ سرگرم ہے۔ بنیادی طور پر باقاعدہ تعلیم ان کا ایک نشانہ ہے اور اچھنبے کی بات ہے یہ کہ اکثر ہرزہ سرا خواتین و حضرات نا صرف اسی نظام کے پروردہ ہیں بلکہ اس کے فیوض  و برکات سے بھی پوری طرح مستفید ہورہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں باقاعدہ تعلیم، عمومی حکمت اور کامن سینس میں یوں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا لیکن صورت حال اُس وقت انتہائی خطرناک ہوجاتی ہے جب چند غیر معمولی ناخواندہ لوگوں کو مثال بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے سے انسانی صلاحیتوں میں‌کسی غیر معمولی فرق کا پیدا ہونا محال ہے اور خواتین کے معاملے میں تو طرز فکر ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ پروفیشنل تعلیم کے پیچیدہ مراحل سے گزر کر تیار ہونے والے ٹیلنٹ کے انخلاء کی اولین وجہ بھی یہی طرز فکر ہے۔ بنیادی طور پر میرے مخاطب وہ طالب علم ہیں جو اس وقت اعلٰی تعلیم کے حصول میں مشغول ہیں تو انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس زور و شور سے آپ کی حاصل شدہ تعلیم اور توثیقی اسناد کی تکذیب کی جارہی ہے یا کی جاتی ہے وہ سراسر غلط عمل ہے اور زندگی کے اگلے مراحل میں یہ تعلیم اور اسناد آپ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے چناچہ معاشرے کے ان ہارے ہوئے مایوس لوگوں کی باتوں‌پر ذرہ برابر توجہ نا کریں اور پوری تندہی سے جو وسائل میسر ہیں انہیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کریں۔ چند لوگوں کے لیے آپ کی ڈگری محض کاغذ کا ٹکرا ہے لیکن اس کی اہمیت آپ جانتے ہیں یا جن لوگوں نے آپ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا ہے وہ جانتے ہیں۔

جدید تعلیم پر انتہائی دائیں بازو کے ان منظم مذہبی حلقوں کا اعتراض تو سمجھ میں آتا ہے کہ جن کی بقاء کی انتہائی بنیادیں اسٹیٹس کُو پر قائم ہیں لیکن عام عوام اور پڑھے لکھے لوگوں‌ میں‌ اس سوچ کا عام ہوجانا اور ہر رحمتہ اللہ علیہ یا دامت برکاتہم عالیہ  کی فرمائی ہوئی ہر بات پر من و عن ایمان لانے کے عمل سے معاشرے جمود کا شکار ہوجاتے ہیں اور انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ یہ انتہا پسندی محض‌ انتہائی دائیں جانب کی نہیں ہوتی بلکہ رد عمل کے طور پر انتہائی بائیں بازو کی طرف بھی ان لوگوں کے سرکنے کا عمل جاری رہتا ہے جو توازن کی صورت میں معتدل سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔

دوسری تہذیبیں اپنے خنجر سے خوکشی کریں یا نا کریں لیکن اگر تعلیم خاص کر سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم میں ہمارا قبلہ درست نا ہوا تو ان کی موجودگی اور غیر موجودگی سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا ہاں دوسری صورت میں شاید اپنی جہالت چھپانے کے لیے ہمیں الزام دینے کے لیے بھی کوئی میسر نا ہوگا۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (35)

ابن سعید

January 12th, 2010 at 11:23 pm    


بھئی کہنے کو کچھ نہیں ہے بس بطور رسید یہ تبصرہ چھوڑ رہا ہوں۔

جعفر

January 12th, 2010 at 11:39 pm    


موضوع اتنا سنجیدہ ہے کہ دو فقروں میں‌تبصرہ ہو نہیں‌سکتا۔۔۔
لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ آپ کی واپس ہوئی تو سہی۔۔۔
آج مجھے ایک پنگ بیک ملا ہے مندرجہ ذیل سائٹ سے
http://roshnipk.com/blog/?p=102
میں کنفیوز ہورہا ہوں کہ کیا یہ بھی آپ کا ہی بلاگ ہے یا کوئی کاپی پیسٹ کرکے کام چلا رہا ہے۔۔۔

راشد کامران

January 13th, 2010 at 12:08 am    


جعفر صاحب۔۔ جناب یہاں تو ایک بلاگ پر ہی لکھنا محال ہے دوسرا تو ناممکن ہے۔۔ لگتا ہے کوئی گمنام عقیدت ہے چناچہ کسی قسم کا تکلف روا نہیں رکھا ہے اور پوری کی پوری سائٹ ہی کاپی پیسٹ کر رکھی ہے اور میں خاکسار کیا کئی دوسرے لوگوں کو بھی شرف سرقہ بخشا گیا ہے۔

عنیقہ ناز

January 13th, 2010 at 12:36 am    


یہ تحریر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مجحے خوشی ہے کہ آپ نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔

محمد احمد

January 13th, 2010 at 1:58 am    


راشد کامران صاحب،

بہت دنوں بعد آپ کی تحریر دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ایک اہم اور ضرورت طلب موضوع کا انتخاب کیا ہے آپ نے۔ یہ مزاحمت کا عمل ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو تعلیم کی ناقدری اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث نئے زمانے سے قدم سے قدم ملا کر چلنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں یا جنہیں اس بات کا قلق ہوتا ہے کہ اگر لوگ باشعور ہوگئے تو پھر عوام کا استحصال کس طرح ممکن ہوگا۔

یوں تو آپ کی تحریریں لاجواب ہوتی ہی ہیں لیکن روشنی پی کے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لوگ کس قدر دیوانے ہو رہے ہیں آپ کی تحریروں کے پیچھے۔ :)

افتخار اجمل بھوپال

January 13th, 2010 at 2:06 am    


آپ کی یہ تحریر ایک بے معنی اندرونی فکر کے علاوہ کچھ نہیں ۔ دورِ حاضر کے سائنس کے طالب علموں کی ایک خاصی تعداد اپنی تعلیم کی تکمیل پر برسرِ روزگار ہونے کے بعد دینی تعلیم کے باقاعدہ مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کی یا پھر بالواسطہ دینی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہی عمل اسلام دشمن لوگوں کو اندر ہی اندر سے کھائے جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کی جنگ کا دائرہ کار بڑھایا جا رہا ہے جس کا شکار وہ بھی ہوتے ہیں جو اسلام کا صرف نام لیتے ہیں ۔ آپ نے سید عدنان کاکا خیل کا نام تو سُنا ہو گا جس نے مئی 2006ء میں اسلام آباد میں منعقدہ طلباء کنونشن میں اپنی تقریر سے سب کو اچنبے میں ڈال دیا تھا ۔ وہ کراچی کے ایک دینی مدرسہ کا طالب علم تھا اور اس مدرسہ میں داخلہ لینے سے قبل اُس نے ایم ایس سی میتھیمیٹکس پاس کیا تھا ۔ دورِ حاضر میں ہزاروں گریجوئیٹ لڑکیاں اور خواتین الھدٰی انٹرنیشنل سے 12 ماہ کا دینی کورس کر رہی ہیں ۔ ان میں ایم ایس سی ۔ پی ایچ ڈی ۔ ڈاکٹر اور دوسرے مضامین میں تعلیم حاصل کرنے والیاں بھی ہوتی ہیں ۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ پردہ کرنے والی لڑکیوں اور خواتین کی تعداد ملک میں بتدریج بڑھتی جا رہی ہے ۔

پھر آپ کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ دنیاوی تعلیم [آپ اسے دنیاوی کہتے ہوں گے میں نہیں کہتا] حاصل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے جب کہ اسلام علمِ نافع حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے ؟ ہاں اسلام جس تعلیم سے روکتا ہے وہ ہے ۔ بُت تراشی ۔ ناچ گانا ۔ ماڈلنگ ۔ اور دوسرے بے حیائی کے عمل

عنیقہ ناز

January 13th, 2010 at 4:34 am    


دلچسپ بات یہ ہے کہ مدرسوں اور اسکولوں کی تعداد اور بت تراشی، ناچ گانا، ماڈلنگ اور دوسرے بے حیائ کے ادروں کی تعداد کے درمیان کوئ تقابلہ نہیں کیا گیا انکی تعداد کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا اونٹ اور اسکے منہ میں موجود زیرے کے درمیان ہوگا۔۔ اور نہ ہی اس چیز کا جائزہ لیا گیا کہ ان تعلیم یافتہ لوگوں کے دینی علم کے ھصول کے بعد ان میں کتنی دینی سمجھ پیدا ہوتی ہے جو انکو دنیاوی معاملات کو رواداری سے حل کرنے کی قوت دے۔ میں نے اپنی ایک پوسٹ میں بچوں کی ایڈاپشن کے بارے میں لکھا تھا۔ تفصیل میں جانے سے گریز کیا تھا۔ ورنہ اس جگہ پہ ایک پی ایچ ڈی خاتون بھی تھی۔ جو اس اصرار میں ان حضرت کے ساتھ شامل تحیں کہ بچے کی ولدیت میں اسکے اصل باپ کا ہی نام ہونا چاہئیے۔ وہ الھدی ادارے سے کوئ دو سالہ کورس کر چکی تھیں مگر ان صاحب کی طرح انسانی رو ح
ناواقف تھی۔ کسی کو دینی علوم پہ کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن شدت پسندی پہ ہر ایک شخص معترض ہوگا۔ مقام حیرت نہیں کہ ہزاروں گریجوایٹ لڑکے اور لڑکیاں مدرسوں سے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن معاشرہ انکے روحانی اثر سے محروم ہے۔ البتہ شدت پسندی اسی تناسب سے دن بدن بڑھ رہی ہے۔
خیر اصل موضؤع یہ ہے کہ کیا دنیاوی تعلیم اتنی ہی بیکار اور فضول چیز ہے کہ اسکے حصول پہ لوگوں کو لعن طعن کیا جائے اور کیا بے روح دینی تعلیم حاصل کرنا اتنے فخر کی بات ہے کہ اس کے حاصل کرنے والے کو فرشتہ بنا کر اسکی عبادت کی جائے۔ کیا محض دینی تعلیم آپکو ایک بہترین انسان بنا رہی ہے، وہ انسان جو معاشرے کی فلاح کے لئیے کام کرے تو ہزاروں کی تعداد میں موجود مدرسوں سے نکلنے والے ہزاروں کی تعداد میں بہترین انسان کہاں غائب ہو رہے ہیں۔۔کیا معاشرے کو صرف ایسے انسان چاہئیں جو ہر وقت صرف یہ بیان کرتے رہیں کہ کیا جائز ہے اور کیا جائز نہیں ہے۔
کیا ہماری معیشت اور ہمارا نظام ان مدرسوں کے پروردہ لوگوں سے چل جائیگا۔ اسکا جواب ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ مدرسے ہماری غربت کی وجہ سے ہمارے تعلیمی نظام میں کسی ھد تک مدد کر سکتے ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ وہاں تربیت یافتہ عملہ موجود ہو اور اسکولوں کی طرح وہاں ایک منظور شدہ نصاب موجود ہو۔ لیکن وہ ہماری دنیاوی ضروریات کا حل نہیں ہیں۔
اگر ہمارے پاس پیسے ہوں تو ان مدرسوں کا کوئ جواز نہیں رہتا۔ اسلامی تعلیم کے لئے ہمیں جدید ادارے بنانے چاہئیں۔ جہاں تحقیق ہو، اعلی کتب میسر ہوں۔ تمام ادیان کے تقابلاتی مطالعے کا موقع موجود ہو۔ دنیا میں ہونے والی نئ پیش رفت کو ہی نہ دیکھا جائے بلکہ تاریخ اسلام سے کما حقہ آگاہی دی جائے۔ جن میں تاریخ کے ہر عالم کے بارے میں اور اسکے مئوقف کے بارے میں بتایا جائے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ سب صورتیں اختیار کرنے سے دین کتنا وسیع نکل آئیگا۔ ایسے اداروں سے پڑھے ہوئے لوگوں میں یہ سمجھ ہوگی کہ انسانی ضرورت اور دین کے درمیان تعلق نکال سکے۔
ورنہ نتیجہ یہی ہوگا کہ یہ جائز نہیں ہے اور یہ جائز ہے۔ اس سے خدا ناراض ہوگا اور اس سے خوش۔ یہ خدا چاہتا ہے اور یہ خدا نہیں چاہتا۔ اس پہ جنت ملے گی اور اس پہ دوزخ۔
نہیں اسکا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے ہر بات کا آغآز اور انجام اس طرح ہو کے جناب پڑھے لکھے لوگ تو یہ کہتے ہیں یا یہ کہیں گے۔

میرا پاکستان

January 13th, 2010 at 8:03 am    


ہم اجمل صاحب کی تائید کریں گے اور حالات واقعی ایسے بنا دیے گئے ہیں‌کہ اسلام کو دہشت گرد ثابت کرنے کیلیے مغرب کوشاں ہے تا کہ مسلمان صرف نام کے رہ جائیں مگر اس کیساتھ ساتھ مغرب کی کوشش ہے کہ مسلمان دنیاوی تعلیم بھی حاصل نہ کریں۔
یہ سچ ہے کہ اسلام نے کبھی کسی کو دنیاوی تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا۔ جیسا کہ آپ نے کہا ہمارا مسئلہ واقعی یہ ہے کہ چند انپڑھ لوگ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور نہیں‌چاہتے کہ مسلمان پڑھ لکھ اسلام کی سربلندی کیلیے کام کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی دال روٹی چلتی رہے چاہے اس کیلیے انہیں تمام مسلمانوں کو جاہل اور گنوار ہی رکھنا پڑے۔

افتخار اجمل بھوپال

January 13th, 2010 at 11:07 am    


” وہ الھدی ادارے سے کوئ دو سالہ کورس کر چکی تھیں مگر ان صاحب کی طرح انسانی رو ح ناواقف تھی”

تو گویا جو پی ایچ ڈی سائنس کی کر لے تو وہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے زیادہ انسانی روح کو سمجھنے لگتا ہے ۔ نعوذ باللہ من ذالک
ایسی پی ایچ ڈی کا کیا فائدہ جو بغیر موضوع کا علم حاصل کئے اسے رد کر دے ۔ ایسا عمل تو جہلاء کا ہوتا ہے

سُورت ۔ 33 ۔ الْأَحْزَاب ۔ آیت 5
ادْعُوھُمْ لِآبَائِھِمْ ھُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءھُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِيمًا
ترجمہ
مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ کہ اللہ کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے

محمداسد

January 13th, 2010 at 11:19 am    


اتنے بڑوں کے درمیان اب کیا مخل ہوا جائے!
بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ تعلیم کو دینی اور دنیاوی میں تقسیم کرنا ہی دراصل مسائل کی ابتداء ہے۔ جب تک یہ تقسیم باقی رہے گی تب تک ایک حلقہ دوسرے کو ‘جاہل’ گردانتا رہے گا۔ تعلیم کو تعلیم ہی سمجھنا چاہیے چاہے وہ مدرسہ میں ملے یا کسی کالج میں۔
آخر میں درخواست کہ لکھتے رہا کیجیے۔

افتخار اجمل بھوپال

January 13th, 2010 at 11:28 am    


آپ لوگوں کو پڑھانا میرا فرض تو نہیں ہے لیکن انسان ہونے کے ناطے بے راہ رووں کی رہنمائی کرنا پڑ جاتی ہے ۔ مدرسوں کے سند یافتہ میں سے ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے جو مسجد کا امام بنتے ہیں کیونکہ مسجد کے امام کی تنخواہ سکیل نمبر 12 ہوتی ہے جس سے باعزت زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے چنانچہ چند کے آمدن کے دوسرے ذرائع ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے امامت کرنا چاہتے ہیں تو یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں ۔ باقی لوگ مختلف اداروں میں ملازمت کرتے ہیں یا تجارت کا پیشہ اختیار کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر میں سے زیادہ تر دوسرے مضامین میں بھی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں ۔ پرویز مشرف کے زمانے میں مردم شماری جو نئے شناختی کارڈ کیلئے کی گئی تھی اس سے معلوم ہوا کے پاکستان کی کُل خواندہ آبادی کا 35 فیصد مدرسوں کی اسناد رکھنے والے لوگ ہیں ۔ ان مدرسوں میں صرف دین ہی نہیں پڑھایا جاتا بلکہ اس کے ساتھ دوسرے مضامین ریاضی ۔ تاریخ جغرافیہ معاشیات انگریزی وغیرہ بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ کئی مدرسوں میں کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔ آپ لوگوں نے ہر چیز کا مذاق اُڑانا سیکھ لیا ہے جو کہ ایک گرجوئیٹ کو بھی زیب نہیں دیتا کُجا پی ایچ ڈی

محب علوی

January 13th, 2010 at 12:14 pm    


راشد یہ پوسٹ اہم تو ہے مگر اس میں بہت زیادہ تشنگی اس صورت میں موجود ہے کہ بے نام اور گمنام لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے آپ نے۔ کھل کر اور نام لر کر بتانا چاہیے کہ کن لوگوں کی طرف اور کس چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں آپ ورنہ ہو سکتاہے میں یہ سمجھوں کہ مجھے ہی بالواسطہ تختہ مشق بنا دیا ہے آپ نے۔

میری نظر میں تعلیم وہی اچھی ہے جو انسان کو انسان بنائے۔

جو تعلیم انسان کو مغرور ، متعصب ، متکبر اور دنیا سے الگ تھلگ بنا دے وہ علم مذموم ہے جو چاہے دین کی کتابیں پڑھ کر ہو یا ارسطو اور ابن رشد کا فلسفہ پڑھ کر۔

خرم

January 13th, 2010 at 12:18 pm    


راشد بھائی بات تشنہ ہے۔ تعلیم کا مقصد اگر ڈگری کا حصول ہے تو پھر ملک و معاشرہ میں اس سے کوئی بھی مثبت تبدیلی کا آنا ناممکن ہے۔ پاکستان میں لاکھوں انجنیئر، ڈاکٹر اور دیگر “اعلٰی تعلیم یافتگان” موجود ہیں۔ پھر یہ انحطاط کیوں کہ اس دور میں بھی ہمارا ترقی معکوس کا سفر ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز رفتار ہوتا جارہا ہے؟ ڈگریوں کی بھرمار تو ہے لیکن ایک مہذب معاشرہ ہونے کی منزل سے ہم ہر لمحہ دور تر ہوتے جارہے ہیں۔ بازو دایاں اور بایاں کچھ نہیں۔ علم مقصدیت کے بغیر ہو تو طوطے کی طرح صرف رٹا ہے یا اس گدھے کی مانند جس پر کتابیں لاد کر ڈگری رسید کی طرح اس کے گلے میں لٹکا دی گئی ہو۔ مذمت ڈگری کی نہیں اس عمل کی ہے جس میں ڈگری کا حصول تعلیم کی معراج سمجھ لیا گیا ہے ۔

یاسرعمران مرزا

January 13th, 2010 at 12:44 pm    


تعلیم کے خلاف مہم کون چلا رہا ہے جناب ؟ ہمیں بھی تو پتہ چلے۔

راشد کامران

January 13th, 2010 at 12:47 pm    


ابن سعید صاحب آپ کی آمد کا شکریہ۔

عنیقہ صاحبہ آپ کے تبصرے کا شکریہ۔۔ امید ہے اب اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گی۔

محمد احمد صاحب‌اصل معاملہ دراصل یہی ہے کہ قوم کو باشعور ہونے سے روکا جائے۔

افتخار اجمل صاحب۔۔ عین ممکن ہے کہ جس زاویے سے آپ دیکھتے ہوں‌ وہاں‌یہ ایک بے معنی اندرونی فکر ہو لیکن جس زاویے سے میں‌دیکھتا ہوں‌وہاں سے یہ ایک خطرناک صورتحال معلوم ہوتی ہے۔۔ مدرسوں اور منظم جامعات کی تعلیم کا تقابل اس پوسٹ‌کا موضوع ہے اور نا ہی موقع اور نا ہی فارغ التحصیل طلباء کے میعار پر یہاں‌ گفتگو کی گئی ہے یہاں صرف یہ بات کہی جارہی ہے کہ باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے والوں کی جسطرح تکذیب کی جارہی ہے وہ قابل ملامت فعل ہے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم کی تفریق کی بھی آپ نے خوب کہی جب کہ “دینی مدارس” کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ دوسری طرف ملک کی ہر بڑی جامعہ میں بلا تفریق دین و دنیا ہر قسم کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ دینی مدارس اسپیشلائزڈ ایجوکیشن کے ادارے ہیں جہاں صرف وہی لوگ جائیں جو مذہب کی تعلیم میں اسپیشلائیزیشن کرنا چاہتے ہیں۔ آپ جامعہ بنوریہ سے طبعیات میں‌ایم ایس سی کی ڈگری نہیں‌ حاصل کرسکتے اور نا ہی ایم بی بی ایس کے لیے ادارہ نور الھدی کا انتخاب کریں‌گے۔ امید کرتا ہوں‌کہ قارئین کو کنفیوز کرنے ک جذباتی باتیں کرنے کے بجائے ٹھوس تجاویز دیں‌کیونکہ آپ جو کہہ رہے ہیں‌ اس حساب سے مجھے یقین ہے کہ آپ نے اپنی اور اپنے زیر اثر تمام لوگوں‌کی تعلیم کے لیے باقاعدہ تعلیمی اداروں کے بجائے ان ہی مدارس کا انتخاب کیا ہوگا۔

افضل صاحب۔۔ اسلام کو دہشت گرد ثابت کرنے میں‌ جہاں‌اور لوگ مشغول ہیں‌وہاں ہم بھی جس قدر حصہ ڈال رہے ہیں وہ بھی کچھ کم نہیں ۔ امید یہی ہے کہ تعلیم کے فروغ‌ سے اس عفریت پر قابو پایا جاسکتا ہے تاکہ لوگ اس بات کو درست طور سمجھ سکیں کہ خرابی دین میں نہیں بلکہ اس کی غیر معقول تشریح میں ہے جس کا علاج بہتر تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

محمد اسد صاحب۔۔ بالکل اہم بات ہی یہی ہے کہ تعلیم میں‌ تقسیم وہ بھی ایک اسپیشلائزڈ برانچ اور عمومی تعلیم میں تفریق نے عجیب صورتحال پیدا کررکھی ہے۔۔ اگر یکساں میعار تعلیم نافذ کردیا جائے تو اس بحث سے ہی جان چھوٹ جائے ۔

راشد کامران

January 13th, 2010 at 12:55 pm    


خرم بھائی ۔ بات میرا نہیں‌ خیال کے اتنی تشنہ ہے۔۔ جب آپ اسپیشلائزڈ ایجوکیشن یا ہائر ایجوکیشن کی بات کرتے ہیں‌تو اپ کی توجہ کا تمام مقصد اس میدان میں مشاق ہونا اور اس کی سند حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ اسی میدان میں پھر آپ اپنی تعلیم اور تربیت کی بدولت اعلی مقام حاصل کرسکیں اور یہی ہمارے لیے فی الوقت درکار ہے۔ بات‌اگر شخصیت کی تعمیر اور اخلاقی تربیت کی آتی ہے تو وہ پھر ابتدائی تعلیم یا پرائمری سطح‌کی تعلیم ہوتی ہے جہاں آپ سوکس کی تعلیم اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں جس میں گھر اور اسکول دونوں‌ کا عمل دخل ہوتا ہے اور کسی ایک کی لاپرواہی تربیت میں خلا کا باعث بنتی ہے۔ پوسٹ کا اصل موضوع یہ ہے کہ کیونکر ایک منظم عمل کے ذریعے اعلی تعلیم اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی تکذیب کی جارہی ہے اور اس کا کیا مقصد ہے؟

راشد کامران

January 13th, 2010 at 12:58 pm    


محب۔۔ اس کا اشارہ آپ کی طرف نہیں ہے آپ اطمینان رکھیں‌ (:‌ بلکہ کسی ایک شخص یا گروہ کی طرف نہیں ایک سماجی اور معاشرتی سوچ کی طرف ہے۔۔ وہ آپ کی سوچ بھی ہوسکتی ہے اور میری سوچ بھی جس میں تبدیلی کا امکان بھی موجود رہتا ہے۔

خرم بھائی کے تبصرے کے جواب میں مزید کچھ الفاظ جوڑے ہیں شاید اس سے اصل موضوع اور واضح ہوجائے

arifkarim

January 13th, 2010 at 3:12 pm    


اصل مسئلہ تعلیم کا نہیں، معاشرے کی حقیقی فہم کا ہے، جس سے تعلیم یافتہ اور بغیر تعلیم یافتہ دونوں محروم ہیں۔
آپ لاکھ انجینیرز ڈاکٹرز پیدا کر لیں۔ جب انکے پاس روزگار ہی نہیں ہوگا تو وہ کیسے اپنے معاشرہ کے کام آسکیں گے۔ یہی حال دینی علما کا ہے۔ پس تعلیم تعلیم تعلیم کی رٹ لگانا اور اسے حقیقی معاشرہ کا استون سمجھنا بےوقوفی ہے۔ ہم سے بہت سی تہذیبیں ایسی گزری ہیں‌ جو بغیر علوم کے بھی موجودہ دور کی تہذیب سے زیادہ مطمئن تھیں! آج ہمارے پاس تعلیم ہے، دنیا جہاں‌ کی دولت ہے، پر نہ زندگی میں‌ اسکون ہے نہ آرام!

راشد کامران

January 13th, 2010 at 4:11 pm    


عارف کریم صاحب دلچسپ۔۔ میں یہ جاننے کے بارے میں بیتاب ہوں کہ حقیقی فہم کس طرح بڑھایا جائے اور تعلیم کو معاشرے کا اہم ستون بنائے بغیر “حقیقی فہم” کیسے پیدا ہوگا۔

اور ایسی تہذیبوں کے بارے میں بھی جاننے میں بڑی دلچسپی رکھتا ہوں‌ جو اپنے دور کے رائج علوم و فنون میں کمال حاصل کے بغیر غالب تھے اور اگر غالب نہیں‌ تھے تو ہم کس طرح‌ بغیر تعلیم ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی زندگیوں میں اطمینان بحال کرسکتے ہیں۔۔

نعمان

January 14th, 2010 at 2:53 am    


پاکستان کا کلچرل کنفیوژن

دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے اعلی تعلیم یافتہ تب لائق تضحیک نہیں رہتا جب وہ کسی مجمع میں کھڑے ہوکر دہشت گردوں کی حمایت میں تقریر کرڈالے۔ تو راشد بھائی میرے خیال میں یہاں آپ یہ فرق ملحوظ رکھنا بھول گئے۔ تمام اعلی تعلیم کے حصول میں کوشاں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاتی بلکہ صرف ان کی ضروری ہے جنہیں دبا کر نہ رکھنے کی صورت میں مملکت کے نام نہاد اسلامی تشخص کو شدید خطرہ ہے۔ مثلا خواتین، مثلا آرٹ و فن کے دلدادہ، مثلا جمہوریت پسند سائنس پسند عقلیت پسند مغرب پسند وغیر وغیرہ۔ مثال کے طور نیوکلئیر فزکس اچھی تعلیم ہے لیکن جینیٹکس نہیں۔ مکینیکل انجینئرنگ نافع علم ہے مگر مجسمہ سازی نہیں۔

اسطرح یہ طبقہ درحقیقت فکر تحقیق آزادی کا راستہ روکتا ہے۔

افتخار اجمل بھوپال

January 14th, 2010 at 5:02 am    


“دلچسپ بات یہ ہے کہ مدرسوں اور اسکولوں کی تعداد اور بت تراشی، ناچ گانا،ماڈلنگ اور دوسرے بے حیائ کے ادروں کی تعداد کے درمیان کوئ تقابلہ نہیں کیا گیا انکی تعداد کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا اونٹ اور اسکے منہ میں موجود زیرے کے درمیان ہوگا”
محترمہ ۔ ناچ گانا،ماڈلنگ اور دوسرے بے حیائی کے کاموں کے ادارے بڑے شہروں کے اسی فیصد گھرانوں میں موجود ہیں اور ان سے کافی استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے ۔ انہی گھروں مین کم از کم 20 فیصد ایسے ہیں جن کی شریف زادیاں مختلف تقریبات میں ہوٹلوں یا شادی گھروں میں سب کے سامنے ناچتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسوں کے پڑھے ناچنے والے اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں”

“اور نہ ہی اس چیز کا جائزہ لیا گیا کہ ان تعلیم یافتہ لوگوں کے دینی علم کے ھصول کے بعد ان میں کتنی دینی سمجھ پیدا ہوتی ہے جو انکو دنیاوی معاملات کو رواداری سے حل کرنے کی قوت دے”

ایک تو ان لوگوں کی تعداد پوری آبادی کا 5 فیصد بھی نہیں ۔ پھر انہیں معاشرہ پر قابض لوگ سب سے نچلا درجہ دیتے ہیں لیکن اصل تو یہ ہے پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی شہر مین جہاں 80 فیصد لوگ خاصے پڑھے لکھے ہیں وہاں روزانہ ٹاگٹ کلنگ کیوں ہوتی ہے ؟ اسی شہر میں انجنیئرز کی تعداد پورے ملک میں انجنیئرز کی تعداد کا 50 فیصد سے زائد ہیں پھر کراچی میں اتنی لوڈ شیڈنگ کیوں ہوتی ہے ؟ کیا ملک سدھارنے کی ذمہ داری ان 5 فیصد مدرسہ کے پڑھے لوگوں کی ہے جن کو دو وقت کی روٹی کا بھی حق نہیں دیا گیا ؟

افتخار اجمل بھوپال

January 14th, 2010 at 6:01 am    


راشد کامران صاحب
درست طریقے سے حوالے دے کر حقائق لکھیئے تاکہ بات سمجھ میں آئے

کون ہیں انتہائی اَن پڑھ لوگ جن کو پڑھے لکھوں پر ترجیح دی جا رہی ہے ؟
کون ہے جس نے پڑھے لکھوں کی مزید پڑھائی میں رخنہ ڈالا ہے ؟

آپ سے کس نے کہا ہے کہ دینی تعلیم کے مدرسے سے طب کی سند لی جائے ؟
مسئلہ تو یہ ہے کہ جو طب کی جامعات سے اسناد لے رہے ہیں اُن میں سے کتنے قومی فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں ۔ چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہات میں کوئی ڈاکٹر نہیں جاتا ۔ کیا وہاں انسان نہیں رہتے ؟ پنجاب حکومت ایک قانون بنا رہی ہے کہ ہر ڈاکٹر کو کچھ سالوں کیلئے چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہات میں کام کرنا ہو گا تو پچھلے کئی دنوں سے سڑکوں پر احتجاج ہو رہا

جب سوا چار سال قبل زلزلہ نے تباہی کی تو وہاں کام کرنے والوں میں 80 فیصد انہی مدرسوں کے لوگ تھے جن کو انتہاء پسند اور دہشتگرد کہا جاتا ہے ۔ باتیں کرنا اور بحث کرنا بہت آسان کام راشد کامران صاحب ۔ ہر شخص کو چاہیئے کہ وہ دوسرے کو بُرا کہنے کی بجائے اپنے آپ پر توجہ دے اور اپنے اندر کی خامیاں دور کرے ۔ معاشرہ خود بخود درست ہو جائے گا ۔

آپ کی اس تحریر پر کئے گئے ایک تبصرہ سے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک پی ایچ ڈی دوسرے پی ایچ ڈی کی بات ماننے کو صرف اسلئے تیار نہیں کہ وہ بات یا وہ شخص اُسے پسند نہیں ۔ اور نہ وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار ہے ۔ جب پڑھائی کی اعلٰی ترین سند رکھنے والوں کا یہ حال ہے تو آپ کو شکائت کیلئے صرف اَن پڑھ ہی کیوں نظر آتے ہیں ؟

ہمارے ملک میں انحطاط کا سبب نہ تو مدرسے ہیں اور نہ مدرسوں میں پڑھنے والے ۔ اصل سبب وہ لوگ ہیں جو وسائل پر قابض ہیں چاہے وہ ملازم ہیں یا حکمران ۔ پچھلے لگ بھگ چالیس سال سے قومی دولت کی اندھا دھند تقسیم نے امیر کو امیر ترین بنا دیا ہے ۔ غریب کو غریب ترین اور درمیانے درجہ کو غریب بنا دیا ہے ۔ پچھلے دس سال میں تو بالکل ہی بیڑا غرق کر کے رکھ دیا گیا اور مزید ہونے جا رہا ہے ۔ قومی دولت لُوٹنے والے حکمران بنے بیٹھے ہیں اور شریف آدمی کو دو وقت کی روٹی ملنا دشوار ہے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ عوام کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے کہیں طالبان کہہ کر کہیں روشن خیالی کے نام سے کہیں حق پرست کہیں سندھی بلوچی پختون پنجابی ۔ کہیں پڑھا لکھا کہیں اَن پڑھ ۔ کیا کوئی پاکستانی رہا ہی نہیں ؟
تاریج اور حقائق کا مطالعہ کیجئے ۔ ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے والے سب کے سب پڑھے لکھے ہی تھے ۔

دین اسلام جو کہ بہترین معاشی اور معاشرتی اصول سکھاتا ہے اُسے دقیانوسی ۔ انتہاء پسندی اور دہشتگردی کا پلندہ ثابت کرنے کی صیہونی کوششوں کو دوام بخشا جا رہا ہے ۔ آخر کیوں ؟

خرم

January 14th, 2010 at 10:45 am    


راشد بھائی آپ کی بات سے مؤدبانہ سا ننھا منا سا اختلاف کرنا چاہوں گا کہ اگر کوئی اعلٰی تکنیکی ڈگری کا حامل شخص بھی انسان نہیں‌تو نہ اس کے علم کا فائدہ ہے نہ اس کے وجود کا۔ علم نافع وہی جس کے سیکھنے سے فرد انسان بنے۔ ڈاکٹر بہت اچھا ہو اور اپنے کام کا ماہر ہو لیکن مریضوں کو کوڑا کرکٹ سمجھے یا اخلاقیات سے عاری ہو تو وہ مسیحائی کر ہی نہیں سکتا۔ یہی حال دوسرے شعبہ ہائے زندگی کا ہے۔ قوموں کے انحطاط میں ہمیشہ ایسے ہی لوگوں‌کا کردار رہا ہے جو اپنے شعبہ میں تو ماہر تھے لیکن انسانیت سے پیدل تھے۔ میر جعفر ہو یا صادق یا دیگر۔ وہ نالائق اور نکمے لوگ نہ تھے بلکہ بہت عالم اور سمجھدار بیدار مغز لوگ تھے۔ انسان البتہ انتہائی کم درجہ کے تھے سو ان کی مہارت بالآخر زوال کا سبب بنی قوم و ملت کی۔

راشد کامران

January 14th, 2010 at 12:05 pm    


لیکن خرم بھائی کیا میر جعفر کی وجہ سے آپ تعلیم اور پڑھنے لکھنے والے تمام لوگوں کو ننگ ملت قرار دیں گے؟ تعلیمی نظام بہتر کرنے کے سلسلے میں شاید دو رائے نہیں لیکن یکسر مسترد کردینا بھی کوئی دیانت داری نہیں‌بلکہ خطرناک روش ہے اور جیسا میں‌نے پہلے کہا اور اب بھی اعادہ کروں‌گا کہ انسان بنانے یا اخلاقی تعمیر کا کام بڑی ابتدائی سطح کی تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے۔ میڈیکل کالج کا کام صرف ڈاکٹر بنانا ہے اور اسے وہی کام کرنے دیں۔ یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ ایک علحیدہ موضوع بحث‌ ہے کہ کس سطح‌پر کس طرح‌کی تعلیم ہونی چاہیے۔ یہاں صرف موضوع بحث‌ یہ ہے کہ [Don’t kill the messenger]

راشد کامران

January 14th, 2010 at 12:07 pm    


نعمان صاحب‌۔ محمد حنیف کا مضمون دلچسپ ہے ۔۔

عبداللہ

January 14th, 2010 at 4:46 pm    


بنیادی طور پر تعلیم یا آپ اسے جدید تعلیم بھی کہہ لیں تو قابل اعتراض نا ہوگا کے میدان میں ہم کس سطح پر کھڑے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایسی صورت حال میں جب کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر جدید تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں کرنی چاہییں ایک منظم مہم کی صورت تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگوں‌ کے خلاف آج کل ایک طبقہ بہت زیادہ سرگرم ہے۔ بنیادی طور پر باقاعدہ تعلیم ان کا ایک نشانہ ہے اور اچھنبے کی بات ہے یہ کہ اکثر ہرزہ سرا خواتین و حضرات نا صرف اسی نظام کے پروردہ ہیں بلکہ اس کے فیوض و برکات سے بھی پوری طرح مستفید ہورہے ہیں۔
میں آپ سے سو فیصدی متفق ہوںاور اس کی وجہ کچھ تو منافقت ہے اور کچھ خود کو اونچا دیکھنے کی خواہش! اگر یہ لوگ اتنا ہی مذہبی تعلیم کے گرویدہ ہیں تو انہوں نے خود کیوں نہیں حاصل کی اور اپنی اولادوں کو کیوں حاصل نہیں کروائی،ان کی اولادیں اور اولادوں کی اولادیں وہی فرنگیوں کی تعلیم حاصل کر کے فرنگی بنے ہوئے ہیں!
منافقت کی انتہاء یہ ہے دوسروں کو تو غیرملکیوں کے بنائے ہوئے کارٹوں بچوں کو دکھانے پر بھی رگدا جاتا ہے اور خود کی اولاد فرنگیوں کی بنائی گندی غلیظ فلمیں بھی دیکھتی ہے اس پر تبصرے بھی کرتی ہے اور ریٹنگ بھی دیتی ہے اور ان کی اولادوں کی اولادیں کیا صرف مذہبی چینلز دیکھتی‌ہیں؟
بس یہی وہ منافقت ہے جس نے ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے مگر ہم اب بھی آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں ہیں!:(

عبداللہ

January 14th, 2010 at 4:56 pm    


ایک صاحب تعلیم کے موضوع میں بھی کراچی میں ہونے الی قتل و غارت گری کو گھسیٹ لائے ہیں تو ان کی اطلاع کے لیئے عرض کردوں کہ اس میں بھی لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں باقی کی تفصیل کل کے اخبار میں پھ لیجیئے گا!
جبکہ کراچی میں پڑنے والے ڈاکوں میں بھی یہی مذہبی لوگ ملوث ہیں اور یہ لوٹ مار کے بعد گھر کے لوگوں کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ آپ کا یہ پیسہ کشمیر اور افغانستان کے جہاد میں استعمال ہوگااور اس کی تصدیق کے لیئے میں اللہ کی قسم کھانے کو بھی تیار ہوں!

ابوشامل

January 21st, 2010 at 12:43 am    


تعلیم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، اور ساتھ ہی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے لیکن وہ لوگ جو تعلیم کے یکسر مخالف ہیں، ان کے بارے میں مجھے پورا اندازہ ہے کہ وہ اگلے 100 سال بعد بھی ترقی کی شاہراہ پر وہیں پڑے ہوں گے جہاں آج سے 200 سال پہلے پڑے تھے۔ علم و تحقیق ایک ایسا پل ہے جس کے پار دنیا کی امامت اور ترقی ہے، خدا کی سنت یہی ہے کہ اس نے اس پل کو پار کرنے کے لیے کھلا چھوڑا ہے، چاہے یورپی پار کرے، امریکی یا افریقی، چاہے کوئی بھی نہ کرے۔ خدا کی سنت یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی “چہیتی قوم” ہی کو ترقی کی منزل تک لے جائے۔ اور یہی بات اس نے اپنی کتاب میں بھی لکھ دی ہے کہ “لیس الانسان الا ما سعی” ۔ چہیتی قوم تو بنی اسرائیل بھی بہت تھی، جب تک علم و تحقیق پر واپس نہیں آئی تب تک ہزاروں سال تک دنیا بھر میں بھٹکتی رہی۔
اس موضوع میں گزشتہ دنوں اپنے بلاگ پر ایک اقتباس بھی پیش کر چکا ہوں، جس پر دقیانوسی سوچ رکھنے والوں کے تبصرے بھی آپ نے ملاحظہ کر لیے ہوں گے کہ انہوں نے کس طرح شخصیت کو زد پر رکھ کر علم و تحقیق کی ترویج کی فکر کو نشانہ بنایا۔ کوشش کروں گا کہ اس موضوع پر ایک مکمل مضمون یا کتاب شیئر کر سکوں۔

راشد کامران

January 21st, 2010 at 7:19 pm    


ابوشامل صاحب۔۔ بالکل یہی بات اہم ہے کہ بند گلی میں رہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔۔ بند گلی سے باہر آنے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔۔ دنیا کی امامت کے لیے آپ نے جو قانون قدرت بیان کیا ہے کاش کہ لوگ اسے سمجھ سکیں۔

جاویداقبال

January 28th, 2010 at 1:19 am    


السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

بھائی، بات یہ ہے کہ بات توشروع کہاں سےہوتی ہے اورہم اس کولےکہاں جاتےہیں واقعی تحریرمیں دم ہے لیکن تحقیق یاجان بوجھ کرآپ نےاس کاحق ادانہیں کیاہے۔ اورعلم توانتہائی ضروری چیزہےہرمسلمان مردوعورت پریہ فرض ہے۔کہ علم حاصل کرو۔ اورقرآن پاک کی ابتداء بھی اقراء سےہوتی ہے اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاارشادنبوی ہے کہ علم حاصل کروچاہیےتمہیں چین جاناپڑے۔جبکہ اس دورمیں چین کوئی مسلمان ملک نہیں تھااس سےمرادیہ دنیوی تعلیم ہےناں کہ دینی۔ دین و دنیاساتھ ساتھ ہوتوبہتراورجب ہم ان میں کسی بھی حد سےکراس کرجائیں گےتومیری نظرمیں وہ دہشت گردی ہے۔کیونکہ اسلام ہربات میں اعتدال پسندی پرزوردیتاہے۔ اورہمارےملک کوتعلیم کی انتہائی ضرورت ہے۔لیکن ہم لوگ خصوصامیں اپنی اورجوپڑھےلکھےہیںانکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کوشش کریں کہ ہرآدمی ایک انپڑھ کوپڑھیں اس سےتعلیم بھی عام ہوگی اورملک کی حالت بھی سنواریں گی۔اورہمیں اللہ تعالی تعصب پسندی سےدورفرمائے(آمین ثم آمین)

والسلام
جاویداقبال

الیاس

January 28th, 2010 at 8:01 pm    


اسلامو الیکم

راشد کامران

January 29th, 2010 at 12:46 pm    


واعلیکم السلام الیاس صاحب اور بلاگ میں خوش آمدید۔

محمد ابراہیم میسوری

February 11th, 2010 at 6:07 am    


السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
الحمد للہ مزاج بخیر ہیں۔
اگر کسی کے پاس اردو تعلیمی نصاب اسکول، کالج، یونیورسٹی کے متعلق موجود ہو تو برائے کرم میرے ای میل پر روانہ کریں کرم ہوگا۔
فقط والسلام
ًمحمد ابراہیم میسوری
NTS-India
CIIL-Mysore-India

قمراقبال

February 21st, 2010 at 4:04 pm    


آپ کی تحریرپڑھی بہت سبق آموز ہے میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ بلاگ کس طرح بنایا

راشد کامران

February 22nd, 2010 at 1:15 pm    


قمر اقبال صاحب۔۔ شکریہ اور خوش آمدید۔۔
اردو بلاگ بنانا بہت آسان ہے اگر آپ کمپیوٹر اور ویب کی اچھی سمجھ رکھتے ہیں‌تو ورڈ پریس استعمال کر کے اپنا بلاگ بنا سکتے ہیں
http://www.wordpress.org

بصورت دیگر اردو بلاگنگ شروع کرنے کے لیے اردو ٹیک کی سہولت استعمال کریں اور منٹوں میں اپنا اردو بلاگ بنا لیں

http://www.urdutech.net

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website