دی کتا

اساتذہ بھی کیا سلیقے سے لکھتے ہیں، ایک ایک لفظ پرویا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ خوبی کا تذكرہ کریں تو ایسی عمومیت کہ پڑھنے والے کو لگے گویا میرا ہی بیان ہے اور ہجو کا تو ذکر ہی کیا کہ عنوان پڑھ کر ہی اکثر  چہرے سرخ ہوجایا کرتے تھے۔ اب تو یہ خوبی ولایت کے دعویداروں میں بھی خال خال ہی دستیاب ہوگی؛ صیغہ واحد کے بے جا استعمال سے اسم و صفت کے ایسے جوڑے تیار کرتے ہیں کہ قانونی دستاویزات کی جانچ کے بعد بھی زنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ تمہیدی گفتگو کا مقصد اس پہلو پر بھی توجہ دلانی تھی کہ اساتذہ کے زمانے میں خوراک کی زنجیر کے آخری سروں پر موجود جاندار بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ایسی بدچلنی کا مظاہرہ نہ کریں کہ فقاریہ و غیر فقاریہ کی تمیز میں پڑ‌کر سلیقے سے لکھنے والے عمومیت کے بیان میں‌کسی مشکل کا شکار ہوں۔

کتے کو ہی لیجیے۔ ابھی اگلے روز چند ادب فروشوں کی محفل میں پطرس کا مضمون اپنے نام سے پڑھ رہے تھے کہ چند عقیدت مند ہی پیدا کرلیں تو وہاں عمومیت الٹا گلے پڑ گئی۔ اگلی صف سے ایک صاحب اپنےکتے کی ایک تصویر ہاتھ میں اٹھائے سامنے چلے آئے اور تصویر بلند کر کہ یوں‌گویا ہوئے کہ حضرت یہ مضمون کا عنوان کتے کس خوشی میں رکھا ہے؟ ہمارے کتے کی  تو کسی خصوصیت پر آپ کا مضمون پورا نہیں‌ اترتا تو بھلا کس کتے کو ذہن میں‌ ر کھ کر آپ نے تمام کتوں کے کان کھینچے ہیں؟ اب ہم کیا عرض کرتے کہ جناب اُس زمانے کے کتے لکھاریوں کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں‌کرتے تھے۔ اب اگر اپ کا کتا چالیس کے بجائے ساڑھے پینتالیس درجے پر دم ہلاتا ہے؛ رونے کے مقامات پر دانت نکال کر مسکراتا ہے  اور حلقہ یاراں میں ریشم کے بجائے فولاد بنا رہتا ہے تو اس کا کیا حل ہے؟ ابھی یہ مسئلہ کمیٹی کے سپرد بھی نا ہوا تھا کہ ایک خاتون بھی اپنے بھولے بھالے کتے کے ہمراہ چلی آئیں اور کہا کہ یہ آپ جو قلندر کتوں کا ذکر کرہے ہیں ہمیں ذرا نہیں بھایا اور ہمارا کتا آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمیں یہی مناسب لگا کہ اپنا یعنی کہ پطرس کا پورا مضمون واپس لیں‌ اور کتوں سے معذرت کرکے چلتے بنیں۔

جانوروں کی عمومیت سے اس بغاوت نے ہمارے جیسے “کاپی پیسٹ” ادیبوں کے لیے بڑی مشکل پیدا کردی ہے جس کا ہم نے آسان سا حل نکال لیا ہے یعنی اب ہم عمومیت پر زور نہیں دیتے بلکہ فرداَ فرداَ سب کی خصوصیات طویل مضامین میں بیان کرتے ہیں اور انہیں‌ اخباری کالموں کی شکل میں چھاپ بھی دیتے ہیں۔ اس بات سے آپ بھی متفق ہوں گے اگر پطرس آج کے دور میں ہوتے تو ’کتے‘ لکھنے کے بجائے کتا لکھتے بلکہ ’دی کتا‘‌ لکھتے۔ اس سے محض‌ ایک کتے پر بات کرنی مقصود ہوتی اور کتا برادری کے دیگر کتا جات کی بھرپور حما یت بھی حاصل ہوجاتی۔ اردو کی خدمت بھی ہوتی اور “دی کتا” لکھنے سے انگریزی قابلیت کا رعب بھی پڑتا؛ شاید اسے ہی کہتے ہیں چپڑی وہ بھی دو دو۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (21)

نعمان

October 21st, 2009 at 7:16 pm    


ہمم ۔ ۔ ۔
بہت ہی مشکل انداز بیان کے ساتھ دلچسپ تجربہ ہے۔

دی کتا نما خاکہ جات آج کل کالم نویسی کی مقبول ترین مشق ہیں۔ اور زیادہ تر کالم فروش لے دے کر ایک ہی کتے کی دم کھینچتے ہیں۔ آپ بھی قبولیت عام پانے کے لئے اسی کتے کی مخالفت اور اس کی تخت فراشی پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے معاشرے کے عظیم زوال سے تشبیہہ دیتے ہوئے کتے کو کیری لوگر اور این آر او پر ذلیل کریں اور بنگو آپ کا مضمون داد بھی پاتا اور آسانی سے فروخت بھی ہوجاتا۔  

مجھے آپ کا بلاگ پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے خصوصا نثر میں آپ کے تجربات بہت ہی دلچسپ ہیں۔ مزیداری، اختصار اور فکر کے ساتھ اردو کی روایتی چاشنی۔

جعفر

October 21st, 2009 at 11:52 pm    


اب تعریف کرنے کے لئے آپ جیسے لفظ کہاں‌سے لائیں؟؟؟؟

ابوشامل

October 22nd, 2009 at 12:26 am    


واہ جی واہ!! ۔۔۔۔ “کتے کا ارتقائی سفر ۔ ڈفرستان سے راشد کامران تک”

افتخار اجمل بھوپال

October 22nd, 2009 at 1:57 am    


کیا یاد کرا دیا آپ نے ۔ کتنا لطف آیا کرتا تھا ایسی سادہ مگر پرمعنی اردو پڑھ کر ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے اردو کو جلا بخشی ۔ اب تو اردو کے ٹھیکیدار خود اردو نہیں جانتے

فرحان دانش

October 22nd, 2009 at 6:21 am    


تحریرکا اسلوب بہت خوب ہے

راشد کامران

October 22nd, 2009 at 11:38 am    


نعمان صاحب آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ اور کالم والی بات سے متفق ہوں۔

جعفر صاحب۔۔ آپ کا اتنا کہنا ہی بہت ہے۔

ابوشامل صاحب۔۔ شکریہ؛ بس جی دیکھیں جب تک کتے کا سفر چلتا رہے گا ہم مشق سخن کرتے رہیں گے۔

اجمل صاحب۔۔ بالکل درست فرمایا آپ نے۔۔ آج جب پرانے لوگوں کا لکھا مزاح پڑھیں اور نئے مزاح سے تقابل کریں تو تنزلی نمایاں‌ہوتی ہے۔ ابھی حال میں‌ایک مشاعرہ میں جانا ہوا تو ایک شاعر صاحب کے تلفظ تک درست نہیں تھے اور میں‌یہی سوچ رہا تھا کہ جب کوئی شخص کسی لفظ کو ادا ہی درست نہیں‌کرسکتا تو قافیہ کیسے باندھ لیا۔

فرحان صاحب۔۔ شکریہ۔

قدیر احمد

October 23rd, 2009 at 10:18 am    


حضرت یہ اندازِ تحریر آپ کا ذاتی ہے یا کہیں سے ادھار پر لیا ہے؟ ہم تو سمجھے کہ ابنِ انشاء وغیرہ کا کاپی پیسٹ کیا ہے۔ اگر واقعی آپ کا ہے تو بتائیے تا کہ ہم دانتوں میں انگلی دبائیں۔

راشد کامران

October 23rd, 2009 at 11:32 am    


قدیر صاحب۔۔ اب تک تو کہیں‌سے دعوی ملکیت نہیں آیا ہے تو اب ہمارا ہی سمجھیے۔۔ لیکن ہمارے ایسے ناپختہ لکھنے والوں‌میں اساتذہ کے کام کی جھلک نظر آجائے تو کچھ اچھنبے کی بات نہیں ۔۔ آپ تو سمجھتے ہیں۔

قدیر احمد

October 23rd, 2009 at 11:29 pm    


اب ذرا “جلن” کا علاج بھی بتا دیجیے 😛

راشد کامران

October 24th, 2009 at 1:41 am    


جلن کا بس ایک علاج ہے۔۔ جس چیز سے جلن ہو اس سے اچھی چیز تخلیق کردی جائے :)

عدنان مسعود

October 24th, 2009 at 9:50 am    


بہت خوب انداز بیاں۔ ماشااللہ۔ استعارات کا استعمال نہایت برمحل اور اصطلاحات کو ایک زباں سے دوسری زباں میں لا کر موتی کی طرح پرو دینا آپکا ایک ایسا فن ہے جس کی ہمیں تو جدید اردوادب میں مثال نظر نہیں آتی۔ مثلا یہی “اساتذہ کے زمانے میں خوراک کی زنجیر کے آخری سروں پر موجود جاندار” یا ‘فوڈ چین’ کی آصطلاح اس طرح استعمال کی ہے کہ قاری سر دھنتا رہ جاے۔ واہ – آحقر اسے اردو ‘ریناسانس’ کہتا ہے، بہت خوب۔
بس اب ہسپانوی اصطلاحات کی ریختہ ہجرت کی راہ دیکھتے ہیں ہم، دیکھیں یہ کب ہوتا ہے چونکہ ہمارے معزز ٹورنسی دوست اب زبان یار ہسپانوی، وما از حرف بیگانہ کے طلسم کو توڑ کر اب رومانیت کے ادب کو اہل زبان کی طرح پڑہیں گے، ہم تو بس یہ کہتے ہیں کہ اس رومانوی دشت نوردی میں عزت سادات کا خیال رکھا جاے باقی توصریر خامہ نواے سروش ٹھرا۔

راشد کامران

October 24th, 2009 at 4:17 pm    


عدنان بھائی نوازش آپ کی۔۔ آپ نے تو جی سارے راز افشا کردیے۔۔ ہم نے سوچا تھا ایک ایک کرکے پٹاری سے باہر لائیں گے (:

عمر احمد بنگش

October 25th, 2009 at 2:09 pm    


حضور اب اگر میں‌یہ کہوں‌کہ میں‌آپکی تحاریر کا گرویدہ ہوں تو شاید یہ زیادتی ہو گی۔ واہ، اگر میں‌تشبیہ دوں‌تو صاحب‌ آپکی تحاریر کی چاشنی بالکل ناپید افغانی پھلوں‌جیسی ہیں۔ واہ جناب کیا کہنے،
“کتا برادری کے دیگر کتا جات” بہت خوب!

راشد کامران

October 26th, 2009 at 11:31 am    


عمر صاحب۔۔ بہت شکریہ۔۔ آپ کی ذرہ نوازی ہے جناب۔

عبداللہ

October 29th, 2009 at 6:09 am    


تحریر کی تعریف اتنی ہو چکی ہے کہ اب کچھ کہنا غیر ضروری لگ رہا ہے:)بس صرف اتنا کہوں گا کہ کم کتوں کی بات ہوئی
تو ہی ناداں چند کتوں پر قناعت کرگیا!

راشد کامران

October 30th, 2009 at 11:53 am    


عبد اللہ صاحب شکریہ۔۔ آپ نے وہ سنا ہوگا کہ کہوں‌ نُونوں سمجھاؤ دھی نوں۔۔ تو جہاں پیغام پہنچنا تھا وہ تو پہنچ گیا۔

معراج خٹک

November 2nd, 2009 at 6:40 am    


بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔

راشد کامران

November 3rd, 2009 at 12:55 am    


شکریہ معراج خٹک صاحب۔ اور بلاگ میں خوش آمدید

ڈفر - DuFFeR

November 18th, 2009 at 4:36 pm    


معذرت جی بڑی دیر کی میں نے تو یہاں آنے ، پڑھنے اور تبصرنے میں
امید ہے مائنڈ نہیں کریں گے
ہمیشہ پوچھتا ہوں لیکن بتاتے نہیں
مجھے اپنی شگردی میں کب لے رہے ہیں؟ِ

راشد کامران

November 19th, 2009 at 12:32 pm    


جناب آپ نے تحریر کو پڑھا اور تبصرہ کیا محنت وصول ہوگئی۔۔

وہی جواب ہمیشہ والا کہ ہم تو خود راہ بلاگنگ کے شہید ہیں‌ آپ کو غازی بننے کا درس کس طرح دیں۔۔

ڈفر - DuFFeR

November 20th, 2009 at 1:44 pm    


بس جی میرا مقصود بھی انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شمار کروانا ہی ہے 😉 ۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website