مبینہ یوم آزادی

لعن طعن سننا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں خاص طور پر جب میں “مبینہ یوم آزادی“ کا فقرہ استعمال کرتا ہوں تو کئی لوگوں کو پتنگے لگ جاتے ہیں لیکن جو بات ہے سو ہے اس میں کیا ہوسکتا ہے۔ پہلے تو میری یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ تقسیم دراصل ہوئی کب تھی۔ 3 جون 1947، 14 اگست 1947 یا 15 اگست 1947 ؟‌ دو ملک ایک ساتھ آزاد ہوئے اور یوم آزادی میں فرق کیوں؟‌  درمیانی شب تھی تو 15 اگست ہوا نا ۔۔ دن کا وقت تھا تو بھارتی جھوٹے۔

خیر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں پاکستان کی عوام کو آزادی کب نصیب ہوئی؟ انگریز چلا گیا اور نہ جانے کیا کیا چھوڑ گیا۔ پہلی حکومت غیر منتخب، الیکشن کبھی آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوئے۔ وسائل کبھی عوام پر استعمال ہی نہیں ہوئے۔ دو قومی نظریہ 1971 میں سمندر برد ہوگیا۔ متفقہ آئین بناتے بناتے 1973 آگیا اور اسکا بھی چند ہی سالوں میں وہ حشر کردیا گیا ہے کہ الامان الحفیظ۔ آدھی سے زیادہ زندگی اس ملک نے آمروں کے زیر سایہ گزاری۔ آج کی ہی تاریخ کو لیجیے کسی کو کل کا کچھ پتہ نہیں نہ جہموری حکومت پر بھروسہ نہ فوجی آمر سے امید ۔ بڑے بڑے شہر ایجنسیوں یا انکی قائم کی گئی تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال ہیں یا پھر فوجی بوٹوں کی نیچے روندا جارہے ہیں۔  غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق تو رہنے دیجیے کہ آپ کا پورا کیریر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔  نہ رہنے کی آزادی۔ نہ مذہبی عقائد پر اپنی مرضی سے عمل کرنے کی آزادی۔ نہ الیکشن لڑنے کی آزادی ، نہ نمائندے منتخب کرنے کی آزادی، نہ صدر بنانے کی آزادی، نہ وزیر اعظم بنانے کی آزادی پھر یوم آزادی تو نہ ہوا یہ۔ پہلے آزادی مل تو جائے پھر منائیں یوم آزادی۔۔ جب تک “مبینہ یوم آزادی“۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (14)

بدتمیز

August 13th, 2008 at 4:16 pm    


ہم پھر بھی ایک آزاد خودمختار مستحکم مملکت ہیں۔
ہم غازی ہیں؟ 65 کے؟ اور 71 تب بھی، گفتار کے۔
ہمارے عمل سے زیادہ منہ چلانے سے ہماری محبت کا اظہار ہی محب وطن ہونے کی نشانی ہے۔
آپ کو یوم آزادی مبارک ہو 😛

ماوراء

August 13th, 2008 at 6:24 pm    


ایسا نہ کہیں راشد صاحب۔ بے شک آپ کی بتائی ہوئی چیزوں میں ہم آزاد نہیں لیکن ہم ایک آزاد ملک میں تو رہتے ہیں۔ غلامی کیا چیز ہے اس کا اندازہ اس کو بہتر ہو سکتا ہے، جس نے غلامی کے دن گزارے ہیں۔ اسی آزادی کو ایک غنیمت جانیں۔ ورنہ کل کو کسی نے ہم پر چڑھائی کر دی تو پھر کہیں کے بھی نہیں رہیں گے۔
اللہ کا شکر کہ ہم ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے اور دعا ہے کہ اللہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی ایک مکمل آزاد ملک ہی دیکھنا نصیب کرے۔ آمین۔
آپ کو وہ یومِ آزادی بہت مبارک ہو، جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے بہت قربانیاں دیں۔:)

میرا پاکستان

August 13th, 2008 at 6:36 pm    


ملک چاہے آدھا ہی آزاد ہو اس کی قدر تب محسوس ہوتی ہے جب غیرملک میں آپ کیساتہ تیسرے درجے کے شہری کا سلوک ہوتا ہے۔ دوسرے آزادی کا تب پتہ چلتا ہے جب کوئی انڈین مسلمان اپنی بربادی کا رونا روتا ہے۔ اس لیے ماورا کی بات میں‌وزن ہے یعنی جیسی بھی ہے آزادی تو ہے۔ خدا کرے گا ایک دن ہم پورے بھی آزاد ہو جائیں‌گے۔

راشد کامران

August 14th, 2008 at 1:41 am    


صاحبان آپ کی بات بجا لیکن فیض کے چند مصرعے لکھنا چاہتا ہوں۔

گر مجھے اس کا یقیں ہو میرے ہمدم میرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو کہ ترے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی ترے سینے کی جلن
میرے دلجوئی میرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہوجائے

گر مجھے اسکا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست
روزو شب شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے شیریں
آبشاروں کے ، بہاروں کے چمن زاروں کے گیت
آمد صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت۔
تجھ سے میں حسن محبت کی حکایات کہوں۔
۔۔
۔۔
یونہی گاتا رہوں ، گاتا رہوں تیری خاطر
گیت بنتا رہوں ، بیٹھا رہوں تیرے خاطر
پر مرے گیت تیرے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمئہ جراح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں، مرہم آزار سہی
تیرے آزار کا چارا نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا

فیصل

August 14th, 2008 at 8:41 am    


چلیں اچھی بات ہے کہ آپ نے یہ باتیں لکھ دیں ورنہ مجھے گالیاں پڑتیں، نہ لکھنے پر اپنے ضمیر کی اور لکھنے پر پڑھنے والوں کی، ہی ہی ہی۔
یہ تیسرے درجے کا شہری والی بات بھی خوب ہے، اب یہ انسان کا اپنا فیصلہ ہے کہ تیسری دنیا میں تیسرے درجے کا شہری بن کر رہتا ہے یا پہلی دنیا یعنی ترقی یافتہ ممالک میں۔ آپکا کیا خیال ہے؟
آزادی کا مطلب تو شائد ہمیں اسلئے بھی نہیں آتا کہ ہم آزاد ہوئے ہی نہیں۔
میرے نزدیک ترقی یافتہ ہونے کا ایک ہی ثبوت ہے اور وہ ہے اپنی مرضی کا چناؤ، یعنی فریڈم ٹو چُوز۔ غالبآ یہی ایک مطلب آزادی کا بھی ہے کہ اپنی مرضی کے حکمران، نظامِ حکومت، ٹیکس، وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ ترقی کی واحد شکل آزادی ہی ہے، گویا جن ممالک میں پیسہ، دولت ہے لیکن آزادی نہیں وہ ترقی یافتہ نہیں۔ مثلآ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک۔ اسکے برعکس جو ملک غریب ہیں لیکن اپنی مرضی کے مالک ہیں وہ ترقی یافتہ ہوئے، مثلآ لاطینی امریکہ کے ممالک۔ اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں، ظاہری دولت یا اصل ترقی بلکہ آزادی۔ شائد ہم سے سے اکثر پہلی کو ترجیح دیں‌گے۔
تو بہرحال بھیا آپکو بھی مبینہ یوم آزادی مبارک ہو۔
ویسے میں اگر کہوں کہ پاکستان پاکستان کی عوام نے نہیں بلکہ انگریز اور ہندو نے بنایا تھا تو آپ کیا کہیں گے؟ چلیں چھوڑیں، پھر کبھی۔۔۔۔

شعیب صفدر

August 14th, 2008 at 9:07 am    


یار مجھے شعر بھول رہا ہے مگر کھ یں تھا شاید!

اُس طاہر سے پوچھ آشیانہ کی وقعت
جسے ہو اندیشہ ہجرت ہر پل

ہمارے پاس اپنا آشیانہ تو ہے ہاں کوئی اُسے چھوڑ جائے تو الگ بات ہے!!!
آپ کو یوم آزادی مبارک! خواہ آپ اُسے مبینہ کہے مگر ہم نہیں کہتے!

رضوان

August 17th, 2008 at 5:58 pm    


یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جسکا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ بیرونی قابضوں سے آزاد ہوچکا لیکن اپنے غاصبوں کے شکنجے میں ہے۔
بیرونی آقاؤں کے قبضے سے آزادی مبارک

ڈفر

August 20th, 2008 at 2:50 am    


دل پر ہاتھ رکھے ہی بتایا جا سکتا ہے کہ ہماری قوم کا کوئی یومِ آزادی نہیں
ہاں ملک کا یومِ آزادی 14 اگست ہے

ڈفر

August 20th, 2008 at 2:51 am    


دل پر ہاتھ رکھےبغیر ہی بتایا جا سکتا ہے کہ ہماری قوم کا کوئی یومِ آزادی نہیں
ہاں ملک کا یومِ آزادی 14 اگست ہے

راشد کامران

August 20th, 2008 at 3:31 pm    


فیصل صاحب۔ آزادی کا مطلب آپ کے نزدیک واضح ہے اور میرا بھی تقریبا یہی خیال ہے ۔۔ مشرق وسطی کا تو آپ جانتے ہی ہیں ۔۔ تیل ختم پیسہ ہضم والا حساب ہے وہاں پر۔۔

شعیب صاحب۔۔ بس اپنا اپنا نکتہ نظر ہے ۔۔ غالبا آزادی کے مختلف مفہوم ہیں جسکی وجہ سے کوئی آزادی محسوس کرتا ہے اور کوئی نہیں۔

رضوان صاحب ۔۔ بیرونی قابضوں سے ہی تو آزاد نہیں ہو پارہا ۔۔ پہلے براہ راست قبضہ تھا اب پراکسی قبضہ ہے۔

ڈفر صاحب:- آپ کی بات درست ہے۔۔ ہاتھ کہیں بھی رکھ لیں کم و بیش یہی نتیجہ نکلتا ہے


[…] بھی اس حوالے سے راشد کامران کی ہے، جس کا عنوان ہے۔ ” مبینہ یوم آزادی ” آپ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ ”لعن طعن سننا میرے لیے کوئی نئی […]

اگست 2008 کے بلاگ

January 8th, 2009 at 4:20 pm    


[…] بھی اس حوالے سے راشد کامران کی ہے، جس کا عنوان ہے۔ ” مبینہ یوم آزادی ” آپ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ ”لعن طعن سننا میرے لیے کوئی […]

اگست 2008 کے بلاگ

January 9th, 2009 at 7:42 pm    


[…] بھی اس حوالے سے راشد کامران کی ہے، جس کا عنوان ہے۔ ” مبینہ یوم آزادی ” آپ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ ”لعن طعن سننا میرے لیے کوئی نئی […]

اگست 2008 کے بلاگ

January 26th, 2009 at 11:16 am    


[…] میں کچھ بلاگرز نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ شعیب صفدر نے […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website