بنیاد پرست کلیسا

ڈاونشی کوڈ مووی کو کلیسا میں‌ عکس بندی سے روک دیا گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے کے کلیسا کے بجائے کوئی مسجد ہوتی اور روکنے والے پادریوں کے بجائے ملا ۔۔ دنیا میں بھونچال آجاتا۔۔ اتحادی طیاروں کے زنگ اتارے جانے لگ جاتے۔۔ مسلمان ملکوں میں قیامت آجاتی۔۔ لیکن یہ معاملہ کیونکہ مذہبی ہے اور مسلمانوں کا معاملہ مذہبی نہیں بلکہ کچھ اور ہوتا ہے چناچہ اس سے صرف نظر کر لیا جائے گا۔۔ عیسائیوں کو قدامت پرستی کا طعنہ بھی نہیں ملے ۔۔ہمارے جیسے “روشن خیال“ ٹامک ٹوئیاں مار کر رہ جائیں گے۔۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (15)

Meer

June 16th, 2008 at 10:05 pm    


baat samajh nahain aai…koi bhee abadat gah chahay masjid hu ya church..movie kee shooting kay leeay nahain hai..han kiseee ku ibadat say ruka hu tu phir kahain…aap lagta hay udhaar khai betay thay maghrib pay tu aur kuch nahain mila tu yahee sahee.

chay kee pialee main tufaan

قدیر احمد

June 16th, 2008 at 10:22 pm    


ان مغربیوں کی منافقت عجائب گھر میں‌ رکھنے لائق ہے ۔

راشد کامران

June 16th, 2008 at 10:23 pm    


میر صاحب یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کے جب ہر مذہب کے پیشواؤں کا رویہ ایک جیسا ہے تو پھر مسلمان مذہبی لوگوں کے رویوں پر “کافی کے مگ“ میں طوفان کیوں آتا ہے ؟ اس میں نقد اور ادھار کی تو بات ہی نہیں ہے کوئی ۔۔

زیک

June 16th, 2008 at 11:27 pm    


مجھے تو لگتا ہے کہ یہ آپ کے کپ میں طوفان آیا ہے۔ کوئ مثال دینا پسند کریں گے جہاں مسجد میں مووی فلمانے سے انکار ہوا ہو اور اس پر کسی نے تنقید (یا جنگ) کی ہو؟

بدتمیز

June 16th, 2008 at 11:41 pm    


میں‌ نے یہ ناول پورے تو نہیں پڑے لیکن لا کر رکھے ہوئے ہیں۔ ایک سے تو کاکروچ مارا تھا اور تب سے ہاتھ نہیں لگایا اس کو۔ میرے کزن نے پڑھا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ چرچ کے بے حد خلاف ہے۔ باوجود اس کے کہ چرچ کی عزت مٹی میں ملانے کی ہر کوشش کے چرچ کا ابھی بہت مقام ہے اور اس کو قدرو منزلت حاصل ہے۔ لہذا ایسے کسی اقدام سے چرچ کو سوبر لوگ مورد الزام نہیں‌دیتے اور ایسے کسی بھی فیصلہ کو میرا خیال ہے کہ صرف لیٹ نائٹ کامیڈی شوز میں ہی مذاق اڑایا جا سکتا ہے۔
جہاں‌تک مسلمانوں کی بات ہے تو اول تو مسلمان خود مذہب، مسجد کو وہ احترام نہیں دیتے جیسے یہ لوگ دیتے ہیں پھر ہمارا میڈیا بھی ملا اور مسجد کی جان نہیں چھوڑتا اور ہم نے مولوی بھی اسی کو بھرتی کرنا ہوتا ہے جو سکول کا نکما ترین بچہ ہے اور رٹا لگا کر قران یاد کر کے مولوی بن جاتا ہے۔ ایسے میں مسجد یا مدرسہ معاشرے کا سب سے پست ترین ادارہ بن جاتا ہے اور یہی ایک کڑوی حقیقت ہے۔ ایسے میں جب جب ہمیں مغربی میڈیا کچھ مرچ مسالہ لگا کر دیکھاتا ہے تو یہ تو ان کا فرض عین ہے ہماری ذمہ داری اس ادارہ یعنی مسجد کا تقدس بحال کرنا ہے نہ کہ مغربی میڈیا سے لڑائی کہ بہرحال گھر کا اپنا میڈیا بھی کسی سے کم نہیں۔

راشد کامران

June 17th, 2008 at 12:51 am    


زیک شاید آپ نے بلاگ پورا نہیں پڑھا میں نے کہاں‌ لکھا ہے کے مسجد میں واقعہ ہوا ہے ؟ میں نے صرف دوغلی پالیسی کا تقابل لکھا ہے۔۔ کیا چند لوگوں‌ کی وجہ سے تمام مسلمانوں کی شدت پسند نہیں کہا جاتا؟‌ کیا براک اوبامہ کے “حسین“‌ کو لے کر امریکی میڈیا نے رائی کا پہاڑ نہیں بنایا؟ یہ تمثیل ہے اسکو مطلق طور پر نہ سمجھیں۔۔ کلیسا کے اس فیصلے کا اطلاق مغربی میڈیا تمام عیسائیوں پر نہیں کرے گا لیکن حماس کے جرائم کی سزا پورے لبنان کو ضرور دے گا۔۔ کیا ایران کے ایٹمی تنصیبات کی “مووی“ نہ بنانے کی اجازت دینے پر اس پر جنگ مسلط نہیں کی جارہی ؟‌ جبکہ اسرائیل اور بھارت کے کلی طور پر جارح ایٹمی پروگرام سے مکمل صرف نظر؟‌

بدتمیز میں بالکل چرچ کے اس فیصلے کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں کے عبادت گاہ کا تقدس بہر حال اہم ہے ‌میں ایک تمثیل کے ذریعے دو رخی پالیسی واضح کرنا چارہا تھا اور بس بلکہ میرا مخاطب تو کلیسا، پادری اور ملا ہیں ہی نہیں۔ صرف پالیسی میکرز اور میڈیا۔۔۔۔

اجمل

June 17th, 2008 at 2:08 am    


مسجد ۔ کلیسا ۔ گوردوارہ ۔ مندر سب کا احترام ان کے پیروکاروں کے مطابق ہونا چاہیئے ۔ میں جو کچھ سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ دورِ حاضر کی طاقتیں جو حق غیرمسلم کو دیتی ہیں وہ مسلم کو نہیں دیتیں ۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت صرف نام کی مسلمان ہے عملی لحاظ سے وہ غیر مسلموں کے قریب ہیں ۔ ایک حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ نہ اسلام کو مٹایا جا سکتا ہے نہ مسلمان کو حتٰی کہ قیامت بہت قریب آ جائے ۔ مثالیں سب کے سمنے ہیں ۔ سابق چیکوسلواکیا ۔ جموں کشمیر ۔ فلسطین ۔ عراق ۔ افغانستان ۔
جہاں تک جاہل امام مسجد کا تعلق ہے اس کے قصوروار وہ لوگ ہیں جو اپنے ایک بیٹے یا بیٹی کو انگریزی پڑھانے والے کو تو پانچ ہزار روپیہ ماہانہ دیتے ہیں اور قرآن شریف یا دینیات پڑھانے والے کو پچاس روپے ماہانہ ۔

عوام

June 17th, 2008 at 2:57 am    


جناب من-
اصل میں بات وہ ہی ہے جو آپ نے رقم کی ہے-
کھچہ عقل کے اندھے ڈھڑہ ھوشیار بن رہے ھیں، جب کے مسمانوں کا نوشیہ دیوار تیار ہے
جب جاے پناہ نہ ہو گی –
اس قسم کی پابندی کارتوون پر کیو ن نییں لگتی-

Meer

June 17th, 2008 at 4:38 am    


میں جو کچھ سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ دورِ حاضر کی طاقتیں جو حق غیرمسلم کو دیتی ہیں وہ مسلم کو نہیں دیتیں ۔

yeah baat teakh nahain..musalmanoon nain ju haq murtad kee saza qatal kee soorat main liyya hai wu aur kis kay pass hai? :)

maghrib ku bhee yeah shakayat rehtee hai keh musalmaan kisee kay haqooq ka khial nahain rakhtay balkay apnee shariat sub pay thonsnay pay lgay rehtay hain

Meer

June 17th, 2008 at 5:33 am    


میں نے صرف دوغلی پالیسی کا تقابل لکھا ہے۔۔

yeah achee misal muntakhib nahain kee aap nain

Meer

June 17th, 2008 at 6:10 am    


maghrib bhee app say koi kuch nahain hai :)

Islam is stuck in its own version of the “Middle Ages” which is contributing to a global crisis, one of the religion’s leading experts has argued.

Professor Hans Kung, a leading Roman Catholic and theologian from Germany, warned in a lecture of a “deadly threat” to all humankind unless new efforts are made to build bridges with Islam.

He said in London that Islam has “special problems” with modernity because, unike Christianity and Judaism, in which he also specialises, it has never undergone a “serious religious reformation”.

He questioned whether Islam is even capable of adapting to a post-modern world in the way that Christianity and Judaism have done. But he also outlined why he is hopeful that the present problems around radicalisation within Islam can be resolved, and how the other two Abrahamic faiths are subject to some of the same problems on their extremist edges.

http://www.timesonline.co.uk/tol/comment/faith/article4150391.ece

PS: yeah mazmoon main nain nahain likha brah e miherbaani messenger ku shoot na karain

زیک

June 17th, 2008 at 8:57 am    


You are comparing apples to oranges

Meer

June 17th, 2008 at 9:48 am    


Yeah but point is west has more serious complaints with Islam and a church not allowing movie crew is not important in the context of complaints that west and Islam have with each other.

اردوداں

June 17th, 2008 at 10:24 am    


ہم کلیسا والوں کی ہٹ دھرمی کی بات کررہے تھے۔ یہ صاحبِ ذکا کی سمجھ سے باہر ہے۔ اسے ہمارے جیسے عام اور نیچ ادھ پڑھے ہی سمجھ سکتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ غیر معیاری طلباء کو علماء بنانے سے بہت بھاری نقصان ہورہا ہے۔

ابوشامل

June 20th, 2008 at 12:08 am    


راشد صاحب آپ کو مندرجہ ذیل ربط سے ٹیگ کے میدان میں مدعو کیا گیا ہے، امید ہے آپ اس دعوت کو نہیں ٹھکرائیں گے
http://abushamil.urdutech.com/tag-tag/

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website