اچانک بوڑھا ۔ ہفتہ بلاگستان کی خصوصی تحریر

زمانہ مستقبل سے سفر ماضی کے لیے آنے والوں کو بارہا سمجھایا کہ قبلہ یہ جو عجائبات عالم آپ اٹھائے چلے آتے ہیں یہ اس زمانے میں ہمارے کسی کام کے نہیں بلکہ آپ ایسے مستقبل کے رہائشی بھی اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ابھی کل ہی بات ہے کہ ایک پیر مرد اچانک نمودار ہوا عجیب وضع کا لباس؛ ہاتھ میں وہی مستقبل کے آلاتِ مواصلات؛ ظاہر ہوتے ہی ہمارا تفصیلی معائنہ کرنے لگا، ایسے اچانک بوڑھے ہمیں بالکل نہیں بھاتے اس پر اتنی بے تکلفی تو گویا مزاج پر قیامت ہوگئی۔ پوچھا قبلہ آپ کی تعریف؟ کہنے لگے بوجھو تو جانیں؟ اندازہ تو تھا کہ شخصیت مرد کی ہے لیکن کوئی دوسرا سوال نہیں سوجھا تو یہی داغ دیا کہ شخصیت مرد کی ہے یا عورت؟۔ چراغ پا ہوگئے کہنے لگے ناہنجار اپنا آپ نہیں پہنچانتا، دیدوں کا پانی مرگیا ہے۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ وہی کہوں اتنا خبطی بڈھا اور کوئی کیسے ہوسکتا ہے۔

پوچھا کہیے کیسے آنا ہوا؟ کہنے لگے ماضی کو یاد کرتا ہوں تو بے رونقی ستاتی ہے سوچا اپنا ماضی رنگین کردوں۔
لیکن ہم فی الحال موجودہ رنگینیوں سے مکمل مطمئن ہیں اور اپنی زندگی میں مزید رنگ بھر کر اسے بھدا نہیں بنانا چاہتے۔
آخر کو بوڑھا کس کا تھا، آگ بگولہ ہوگئے؛ کہنے لگے ہمارے ماضی پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارے حال پر تم کو ہے۔حقِ ذات پر زمان و مکان کی اس ابتلا کا پہلا مقدمہ ہماری موٹی عقل میں کسی طور نہیں سمانا تھا، بس اتنا یاد رہا کہ آج اگر تھوڑی سی ڈھیل دی تو بڈھا اپنا بڑھاپا سنوارنے کی خاطر ہمارے حال کو اُس حال تک پہنچادے گا کہ یاد ماضی کے ساتھ ساتھ تشددِمستقبل بھی ایک مستقل استعارہ بن کے رہ جائے گا۔

ہم نے ادھر ادھر کی باتوں میں الجھانا چاہا پوچھا فرمائیے  مارکیٹ کی کیا صورتحال ہے؟ کیا پیٹرولیم کی قیمتیں مستحکم ہیں؟ فورا بھانپ گئے کہنے لگے لالچی انسان؛ مستقبل اور حال کے تعلقات اس طرح نہیں چلتے، تم ماضی کے لوگوں نے افسانے پڑھ پڑھ کر نا جانے ہم لوگوں کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ اتنی بے عزتی کسی اور نے کی ہوتی تو نہ جانے کیا کر  گزرتے پر اپنا بڑھاپا کون زخمی کرتا ہے، لیکن بڈھے کا خناس دیکھ کر اپنی شریک حیات پر بڑا ترس آیا۔

ماحول کا تناؤ دور کرنے کے لیے ہم نے بزرگوار سے پوچھا کہ سنائیے انسانیت کا کیا حال ہے؟ اب تو انسان بڑا آسودہ حال ہوگا؟ عجیب افسردگی در آئی، بتانے لگے نت نئے آلات ہیں مقتل میں اب تو، لیکن وہی ماضی کی خرافات ہیں جھگڑنے والی۔ کہیں خدا کے ہونے پر قتل تو کہیں خدا کے نا ہونے پر خون۔ کسی کو آزادی نے گھائل کیا تو کوئی غلامی کا شکار۔ اب بھی طاقتور رولتا ہے کمزور رلتا ہے؛  ظالم بولتا ہے اور مظلوم سنتا ہے۔ بس اُس ایک لمحے میں حال نے ہتھیار ڈال دیے۔ اگر مستقبل کچھ بہتر ہوسکتا ہے تو بزرگوار شروعات کیجیے؛ اپنے ماضی سے ہی کیجیے حقِ ذات کا فیصلہ تو ہوتا رہے گا۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (11)

نعمان

August 25th, 2009 at 3:55 pm    


کیا یہ آپ کی ہی تحریر ہے؟

نہایت عمدہ ۔۔۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے ایک عرصے سے اردو میں کوئی اتنی اچھی چیز پڑھی ہو۔ سبق گرچہ نیا نہیں لیکن مضمون اور طریقہ بیان بہت ہی عمدہ ہے۔ پہلا جملہ ایک طرف تو بہت دلچسپ ہے اور فوری قاری کی توجہ کھینچ لیتا ہے دوسری طرف اس میں ایک ٹیکنیکل خامی ہے جس سے جملہ بھاری ہوگیا ہے۔ اچانک بوڑھے اور آلات مواصلات کی تراکیب سے مجھے اشفاق احمد مرحوم کا مجموعہ طلسم ہوش افزا یاد آگیا۔

بہت ہی لاجواب تحریر ہے۔ اردو بلاگرز کو اپنی تحآریر میں ایسی تخلیقی چاشنی پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کرنا چاہئے تاکہ کچھ نئے خیالات اور کچھ نیا اسلوب پیدا ہو فی الوقت اردو بلاگنگ کی زبان کافی سپاٹ ہے۔

راشد کامران

August 26th, 2009 at 12:48 am    


نعمان صاحب۔۔ شکریہ۔ فی الحال تو کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا تو مالکانہ حقوق ہمارے نام ہی محفوظ سمجھیے۔
آپ نے اسلوب کی بات کی یقین کریں سیروں خون بڑھ گیا کہ پچھلے کئ ہفتوں سے اسی چیز پر غور کررہا ہوں اور ساتھ ساتھ تجربات بھی جسے چند لوگوں نے محسوس بھی کیا اور ساتھ ساتھ اصلاح کے لیے کئی تجاویز دیں جیسا کے آپ نے پہلے جملے کا جائزہ لیا اور جملے کے بھاری پن کو محسوس کیا جو باوجود کوشش کے میں ابھی تک دور نہیں کرسکا (:

اس بابت ضرور تحریر کیجیے گا کہ اردو نثری بلاگ کے اسلوب کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں اور شاید آپ اتفاق کریں کے میدان سازگار ہے اور بلاگر تجربات کے لیے بھی تیار ہیں اور شاید سنہری موقع ہے کہ اردو نثر میں ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی جائے۔

عدنان مسعود

August 26th, 2009 at 1:49 am    


بہت خوب۔ آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ۔ اگر سید احمد شگفتہ لکھتے تو کچھ ایسا ہی ہوتا۔ آپ کی تحریر پڑھ کر اردو کی نشاة ثانیہ ‘چدید میڈیا’ پر کچھ یقین سا آنے لگتا ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

نعمان

August 26th, 2009 at 8:36 am    


راشد اردو لکھنے والوں کو اسلوب کے میدان میں تجربات سے ڈرنا نہیں چاۃئے احتیاط کا دامن کبھی کبھی ہاتھ سے چھوڑدینا چاہئے۔ ہمارے یہاں لکھتے وقت پہلا دھیان اسلوب پر ہوتا ہے خیال پر نہیں جس کی وجہ سے تحاریر بے جان معلوم ہوتی ہیں۔ میں خود کئی تحاریر محض اسلئے شائع نہیں کرتا کہ اسلوب غیر روایتی ہوتا ہے اور مجھے تنقید کا ڈر ہوتا ہے۔ جیسے ایک بار میں نے یہ >a href=”http://noumaan.sabza.org/archives/185″>تجربہ کیا جس کی کچھ خاص پذیرائی نہ ہوئی۔

الفاظ کے استعمال میں بھی تخلیق کا پہلو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور آزمودہ تراکیب ہی کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دوسرا روایتی اردو نثر کو ہی ویب پر گھسیٹ لانا کافی کوفت کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو بلاگرز کے مزاح کو ہی دیکھئے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم ابھی تک کلاسیکی اردو مزاح نگاروں کے اثر سے نہیں نکلیں ہیں وہی انداز بیان وہی اسلوب وہی استعارے وہی تمثیلیں۔

مجھے صحیح سے اندازہ نہیں پہلے جملے میں کیا خامی ہے۔ شاید یہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔

مسقبل سے ماضی کے سفر پر۔۔۔۔ یا مستقل سے ماضی کی سیر کے لئے آنے والے۔

جو بھی ہو بہت ہی دلچسپ تحریر ہے۔ مختصر چست اور نئی۔

راشد کامران

August 26th, 2009 at 11:21 am    


عدنان بھائی شکریہ۔ سرسید کے انتہائی سنجیدہ مضامین بھی ہم نے ہنسی ٹھٹھہ میں اڑا دیے سوچیے اگر وہ شگفتہ شگفتہ لکھتے تو ان کی تحریریں‌ لوگ شگوفوں سے زیادہ کچھ نا مانتے۔

نعمان میں کافی حد تک آپ سے متفق ہوں ۔۔ خاصل کر طویل مضامین لکھنے کے معاملے میں خاصی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ٹوئٹر کے اس دور میں‌ کسی کا آپ کو دو منٹ‌ دے دینا انتہائی اہم ہوتا ہے اس میں اگر اہم باتیں مختصر اور دلچسپ پیرائے میں بیان کردی جائے تو بلاگ کا مقصد پورا ہوجائے۔ شاید یہی اردو بلاگ کا اسلوب بنے گا جہاں تین سے چار پیرائے میں تخلیق کے گر دکھانے ہوں گے۔

تنقید کے ڈر سے مضامین شائع کرنا نہ چھوڑیں اگر پانچ لوگ تنقید کریں گے، دس لوگ اسے ذاتی حوالوں سے دیکھیں گے تو دو لوگ اصل بات تک بھی پہنچیں گے اور اردو کے ہر غیر روائتی لکھاری کے ساتھ یہ سلوک مشترکہ ہے اور بلاگ تو انتہائی غیر روائتی سمت میں جانا چاہیے۔ تجربات جاری رکھیں۔

ابوشامل

August 27th, 2009 at 2:46 am    


بہت زبردست تحریر۔ مندرجہ ذیل جملے نے تو مجبور کیا کہ اسے کئی مرتبہ پڑھا جائے:

یاد ماضی کے ساتھ ساتھ تشددِمستقبل بھی ایک مستقل استعارہ بن کے رہ جائے گا۔

عبداللہ

August 27th, 2009 at 7:28 am    


سب سے پہلے تو آپکی بلوغت پر مبارکباد؛)
آپکی اس تحریر کو پڑھ کر نوجوانوں کے علاوہ بہت سے بوڑھوں کو بھی عقل آجائے تو کیا بات ہے،آخر کو ان کا پھیلایا ہوا گند ہم نوجوانوں کو ہی سمیٹنا پرتا ہے،

عبداللہ

August 27th, 2009 at 7:38 am    


اگرمستقبل کچھ بہتر ہوسکتا ہے تو بزرگوار شروعات کیجیے؛ اپنے ماضی سے ہی کیجیے حقِ ذات کا فیصلہ تو ہوتا رہے گا۔
درست کہا آپنے جناب :)

راشد کامران

August 27th, 2009 at 1:23 pm    


عبداللہ صاحب آپ کی حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔۔

ابوشامل صاحب بہت شکریہ۔۔ آپ کی نظر سے اس پوسٹ‌پر نعمان صاحب اور میری ایک مختصر مگر دلچسپ گفتگو شاید گزری ہو۔ آپ کا کیا رائے رکھتے ہیں بلاگنگ میں‌اسلوب اور تجربات کے حوالے سے۔ موقع ملے تو یہاں یا اپنے بلاگ پر تحریر کیجیے گا۔

ابوشامل

August 28th, 2009 at 1:06 am    


مجھ ناچیز کی اس بارے میں کیا رائے ہو سکتی برادر راشد؟ البتہ آپ لوگوں کی گفتگو سے ایک نئی بات حاصل ہوئی اور اس گفتگو کا جو مغز ہے وہ یہ خیال ہے کہ ہمارے یہاں لکھتے وقت پہلا دھیان اسلوب پر ہوتا ہے خیال پر نہیں جس کی وجہ سے تحاریر بے جان معلوم ہوتی ہیں۔
مجھے تو نئے الفاظ و تراکیب کے استعمال میں اور پڑھنے میں بہت مزا آتا ہے، لیکن اس کے باوجود میری ذاتی رائے میں روایتی انداز کو ٹھکرا دینا یکدم درست نہیں ہے۔ ہاں، اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے کہ بہتری کی گنجائش بہرصورت موجود رہتی ہے۔ اگر کوئی جدید اسلوب اختیار کرتا ہے تو پہلے اس بات کو پیش نظر رکھے کہ فہم کا مسئلہ تو درپیش نہ ہوگا۔ ویسے ہمارے ہاں جدید کے نام پر مغربی اسلوب کی پیروی ہی کی جانی ہے کون سا ہمارے ہاں کسی نے نیا اسلوب ایجاد کر لینا ہے :)
جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ بلاکنگ کا انداز جتنا عوامی رکھا جائے گا اتنا ہی اس کے لیے بھلا ہوگا بصورت دیگر اسے اردو وکیپیڈیا کی طرح ٹھکرایا بھی جا سکتا ہے۔ اس لیے اسلوب میں جدت طرازی ضرور ہونی چاہیے لیکن وہ اسے مزید عام فہم بنانے کے لیے ہونی چاہیے۔
باقی یہ تجربات اور تحاریر کے اسلوب آپ کا میدان ہے، ہم تو ادھر کی اینٹ، ادھر کا روڑا جوڑ کر کچھ بنا لیتے ہیں :)


[…] تحریر : اچانک بوڑھا از راشد کامران ( ۴ […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website