ایماں کا درجہ حرارت

ابتدائی جماعتوں کی تعلیم کے دوران اقبال، مذہب اور سائنس ایک ساتھ ہی پڑھا دیے جاتے ہیں؛ کم سن ذہن مادے کی حالتوں اور ایماں کی حرارت کے تعلق کو ہی ڈھونڈتا رہ جاتا ہے۔ اُن دنوں کی بحث کا ایک حتمی نتیجہ یہی تھا کہ اگر ایماں کا درجہ حرارت ہے تو پھر اس کی مختلف حالتوں کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ اُس وقت نا تو سائنس کی سمجھ تھی نا ہی اقبال کی؛ وقت گزرا تو پھر سائنس غیر دانستہ اور اقبال کو دانستہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اقبال کے ساتھ تو مسئلہ ہی دوسرا تھا کہ ساحلی علاقے کے رہائشی کہاں پہاڑوں اور اونچی چٹانوں کے گورکھ دھندے میں پڑیں، جو بلندیاں آسانی سے دستیاب تھیں وہاں بھی جالب کے عقابوں کا بسیرا تھا اور شاہینوں کی اڑان پر سخت پہرے. سادہ دلوں کے لیے تو یہی بہت تھا کہ  فیض کے کبوتر بنے ویرانوں میں باد نسیم جھیلیں اور باجرہ چگنے میں زندگی بِتا دیں۔ جہاں تک سائنس کا سوال ہے، تو فرنگیوں کو غلامی کے ہرجانے کے طور پر یہ ذمہ داری سونپ ہم ایماں کی طبعیات پر طبع آزمائی میں مصروف عمل ہوگئے۔ محض قیاس کی بنیاد پر کیے گئے ان تجربات کی ضمنی پیداوار ہی آج کل درد سر بنی ہوئی ہے۔

بات ایمان کی حالتوں کی ہورہی تھی اور کہاں پہنچ گئی؛ بہرحال کچی جماعت تک پہنچتے پہنچتے یہ گمان یقین میں بدل گیا کہ ایمان ہو نا ہو کسی جنس کی صورت ہی دستیاب ہے جسے ٹھوس، مائع اور گیس حالت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ ممکن ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ جب ایمان کی خریدو فروخت اور اس پیشے سے وابستہ لوگوں کے لیے ایمان فروش جیسی سحر انگیز اصطلاحات سنیں تو یقین گویا پتھر پر لکیر ہوگیا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب مباحثے ہم عمروں تک محدود تھے کہ مشرقی معاشروں میں ایسا کوئی بھی سوال جس کا جواب بڑوں کے پاس نہ ہو یا وہ جواب نہ دینا  چاہیں کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن سنا ہے آج کل پیر عمر بھی ایس ایم ایس پر مسکرا کر لاحول پڑھتے ہیں۔ گوکہ لڑکپن تک پہنچتے پہنچتے بچپن کی طبعیات ایک مسکراتی لکیر بن کے رہ گئی لیکن کم سن ذہن کی کشیدہ تصویرِ ایماں کے نقوش کبھی فراموش نہ کرسکے۔

اب تو ہم اکثر ایمان کو ٹھوس حالت میں رکھتے ہیں، آپ اس کے لیے منجمد کا لفظ بھی استعمال کرسکتے ہیں کہ بر محل ہوگا؛ کبھی کبھار نسیم حجازی کے ناول پڑھ پڑھ کر اس منجمد کو سیال میں تبدیل کرتے ہیں اور جمعے کے جمعے پر جوش تقریروں کے سہارے ابال تک لے جاتے ہیں۔ نا معلوم کم سنی کا تجربہ کیوں فراموش کردیا کہ ایک درجہ کا اضافہ اس ابلتے ایمان کو بخارات میں تبدیل کردے گا اور وقت پر آنچ ہلکی نہ کی تو ایک خالی برتن منہ چڑا رہا ہوگا اور ایک درجہ کی کمی ایمان کی قلفی بنا کر رکھ دے گی۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (15)

عمر احمد بنگش

July 21st, 2009 at 5:42 pm    


ایک اور لاجواب تحریر پر مبارکباد قبول کیجیے جناب،
بہت خوب بیان کیا آپ نے، سچ جانیے کہ بس اک چاشنی ہوتی ہے آپکی تحریر۔
اکثر ہمارے یار دوست اور ہم عصر انگلیاں‌چباتے ہیں‌کہ اب بچے سوال بھی پوچھتے ہیں، اور واقعی کم عمری کا حال کیا خوب بیان کیا۔

جناب‌ آپ کے بلاگ کا آر ایس ایس فیڈ‌کیسے میسرہوں‌گی؟

میرا پاکستان

July 21st, 2009 at 6:14 pm    


تحریر کی گہرائی کو سمجھنے کیلیے اسے ایک سے زیادہ دفعہ پڑھنا پڑا۔ یقین مانیں پھر بھی پچیس فیصد کمی رہ گئی ہے۔ برا نہ منایے گا اگر ہم جیسے سیدھے سادھے لوگوں کیلیے تحریر ذرا سادہ ہو تو سمجھنے میں‌آسانی رہے گی۔

ابوشامل

July 21st, 2009 at 10:19 pm    


اقبال کے شاہینوں کے مقابلے میں فیض کے کبوتر ۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا
کیا کہنے حضور۔
آخری دو جملے بہت ہی شاندار ہیں۔ ویسے میرا پاکستان کا شکوہ بجا ہے، تحریر کو دو تین مرتبہ پڑھنا پڑے گا سمجھنے کے لیے۔

جعفر

July 21st, 2009 at 11:39 pm    


موجیں لگی ہوئی ہیں جی میرے جیسے مہاتڑوں کی آج کل
آپ کا قلم (کی بورڈ) بھی رواں ہے
خاور کھوکھر بھی کی بورڈ کو مشین گن کی طرح استعمال کرکے، پکے پکے نشانے لگارہے ہیں
اور میرے جیسے بیٹھے حیران ہورہے ہیں کہ کیا ہم بھی کبھی ایسا لکھ سکیں گے؟؟؟؟

محمد وارث

July 22nd, 2009 at 4:29 am    


اپنے ایمان کا درجہ حرارت تو جی مستقل نقطۂ انجماد سے نیچے ہے، شاید آپ کی اس لاجواب تحریر سے کچھ ‘برف پگھلے’ :)

بیگ صاب

July 22nd, 2009 at 5:40 pm    


ہم تو سمجھے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا پتہ تھا کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

عدنان مسعود

July 22nd, 2009 at 8:20 pm    


ناطقہ سربگریبان ہے اسے کیا کہئے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہئے

بت خوب راشد بھای

راشد کامران

July 23rd, 2009 at 3:49 pm    


آپ تمام لوگوں‌ کا بہت شکریہ جنہوں نے تحریر کو مطالعہ کے قابل سمجھا۔ آپ کی حوصلہ افزائی مزید لکھنے کی امنگ پیدا کرتی ہے اور بہتری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

افضل صاحب آپ سے خصوصی معذرت۔ دانستہ طور پر ابہام پیدا کرنا کبھی مقصد نہیں رہا، بس ذہن میں‌ پیدا ہونے والے مختلف خیالات کو مضمون کی شکل دینے پر ابھی وہ قدرت حاصل نہیں ہوئی ہوسکی جس سے براہ راست اور سادہ طریقے سے بات پہنچائی جاسکے۔ آپ لوگ اصلاح کرتے رہتے ہیں تو امید ہے کہ بہتری پیدا ہوگی۔

راشد کامران

July 23rd, 2009 at 3:52 pm    


عمر احمد بنگش صاحب آر ایس ایس فیڈ‌کی طرف توجہ دلانے کا بہت شکریہ۔ نا معلوم کیسے فٹر میں شامل ہونے سے رہ گئی۔ فی الحال یہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے
http://www.myurdublog.com/?feed=rss2
شکریہ

DuFFeR - ڈفر

July 24th, 2009 at 1:44 pm    


ہی ہی ہی
سر جی اگر کبھی تحریر کی تکنیکیں سمجھانے یا پڑھانے کا قصد کریں تو فدوی کو شاگردی کی لسٹ میں پہلے نمبر پر رکھیے گا۔
اللہ معاف کرے مجھے یاد ہے
سکول میں تو ہم اقبال کو با جمعات کوسنے دیا کرتے تھے
اور اب جب بھی اقبال کو پڑھتا ہوں تو اپنے ان گناہوں کی توبہ کرتا ہوں
میں تو نا اقبال کا شاہین بن سکا نا فیض کا کبوتر
ہاں امام دین کی چمگادڑ ضرور بن گیا 😀

عبداللہ

July 26th, 2009 at 4:12 am    


راشد صاحب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی تحریر میں بڑھتی پختگی
پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچ کر سوچنے پر مجبور کرتی ہے انیقہ ساحبہ کے بعد اب میں آپ کی تحریروں کا بھی فین ہوتا جارہا ہوں،خصوصا” یہ والی اور اس سے پہلی دو تحریریں،لکتے رہیئے کبھی تو ہم بھی باشعور قوم کی فہرست میں آہی جائیں گے انشاءاللہ،

راشد کامران

July 27th, 2009 at 11:34 am    


قبلہ ڈفر صاحب۔۔ میں کیا میری اوقات کیا۔ جناب ابھی تو ہم خود سیکھنے کی کوششوں میں‌ لگیں‌ ہیں کسی کو تیکنیک سکھانے بیٹھ گئے تو استاد اور شاگرد دونوں کے مستقبل کی لوڈ‌ شیڈنگ شروع ہوجائے گی ۔

عبداللہ صاحب‌۔ شکریہ۔ قارئین حوصلہ افزائی ہر تحریر کی بہتری کا وسیلہ بنتی ہے۔

عاصم باس

July 27th, 2009 at 11:44 pm    


اسلام علیکم راشدصاحب
ہت خوب جناب – کیپ ات اپ

راشد کامران

July 28th, 2009 at 1:31 am    


شکریہ عاصم باس۔۔ یار بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے بلاگ کو رونق بخشی ۔۔

اسلم

March 15th, 2010 at 3:03 pm    


دین کرکے دکھانے کی بات ہے ، دکھا کر کرنے کی نہیں۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website