ہمارا تجزیہ بھی سن لو یار

لاہور میں‌ سری لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد پاکستانی حکومت کی سیکیورٹی کی یقین دہانی کی اہمیت بس اتنی ہی رہ گئی ہے جتنی کسی ڈوبتے بینک کے شئیر کی قیمیت۔ اس حملے کے مختلف پہلوؤں پر تجزیوں‌ اور تبصروں کا سلسلہ بڑی شدومد سے جاری ہے اور جب تک بات چیت کے لیے دوسرا کوئی وقوعہ میسر نہیں‌ آتا یہ سلسہ جاری یونہی جاری رہے گا۔ جہاں‌ تک ذمہ داروں کے تعین اور انہیں سزا دلوانے کی بات ہے تو ہنوز دلی دور است۔

اس واقعے کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے والوں کے درمیان بڑا سخت مقابلہ ہے۔ اور موجودہ دنوں میں پہلی مرتبہ القاعدہ اور طالبان کی برتری کو دہشت گردی کے میدان میں‌ شدید چیلنج کا سامنا ہے۔ کئی لوگوں کو وقوعہ سے کافی پہلے ہی بھارت پر شک تھا تو کچھ لوگوں کے خیال میں‌ پنجاب کی نومولود حکومت نے جشن بہاراں کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ کرنا‌ ہی تھا۔ کچھ مبصرین تو اس کو طالبان، القاعدہ اور پنجاب حکومت کی مشترکہ پیش کش قرار دے رہے ہیں جس کے لیے ان کے ساتھ تعاون کیا ہے بھارت کی حکومت اور بابو بیڑی بنانے والے بابو نے۔

ایک صاحب تو کہنے لگے کہ میاں ہٹلر کو اس طرح کے بور پانچ روزہ میچوں سے سخت نفرت تھی ہو نہ ہو یہ ہٹلر سے براہ راست متاثر پنجاب کے گورنر کا کیا دھرا ہے۔ لوگوں کی زبان تو کوئی نہیں‌ پکڑ سکتا مگر کوئی پوچھے کہ بھائی کیوں پاکستان کی حکومت کو دہشت گردی میں ملوث کرنے پر تلے ہو اس کام کے لیے پڑوسی ملک اور ابو ملک نے بڑی بڑی تنخواہوں‌ پر نہ جانے کیسے کیسے مشاہیر نوکر کیے ہوئے ہیں کیوں ان کی روزی پر لات مارتے ہو۔

اب جناب ذمہ دار کوئی بھی ہو۔ فائدہ اٹھانے والوں میں سر فہرست بھارت  ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ بھارت کے موقف پر مہر تصدیق ثبت کردی گئی ہے بلکہ آئندہ ورلڈ کپ میں پاکستان کے حصے کے تمام میچ بھی بھارت ہی منتقل کردیے جائیں گے جو مالی لحاظ سے کافی اچھا سودا ہے۔ لہذا بھارت کے لیے تو یہ چپڑی وہ بھی دو دو۔ دوسرے نمبر پر اس کا فائدہ شریف برادران کو پہنچے گا بلکہ انہوں‌نے باقاعدہ فائدہ اٹھانے کا سلسلہ شروع بھی کردیا ہے کہ لوگوں‌دیکھا پنچاب کا نااہل گورنر ۔۔ میں‌ہوتا تو شہباز کی طرح دہشت گردوں‌پر لپکتا، پلٹتا اور پلٹ کر جھپٹتا۔ تیسرے نمبر پر اس کا فائدہ نجی ٹی وی چینلز کو پہنچا ہے جن کو سوات کی سردی سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا اور جن کے آرڈر پر تیار کردہ تجزیے پڑے پڑے گلنے سڑنے  لگے تھے انہیں اپنے تمام تجزیے ٹھکانے لگانے کا ایک نادر موقع ہاتھ آگیا ہے۔ بعض‌ تجزیے سن کر تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دو مختلف واقعات کی بات کی جارہی ہے۔

اس واقعے کا سب سے زیادہ نقصان تو آپ کو معلوم ہی ہے نا کہ کس کو ہوا ہے؟‌ جی ہاں پاکستان کا۔ اور پاکستانیوں کا۔ ہمارے ملک کو ایشیا کا صومالیہ قرار دے دیا گیا ہے، لوگ اس غریب نیوکلر طاقت کے مستقبل پر انگلیاں اٹھانے لگے ہیں‌اور پہلی دفعہ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے ان الزامات کا دفاع کرنے کے لیے الفاظ ختم ہوگئے ہیں۔ کیا کریں‌ جناب جب قوم خود اپنی ہی منتخب کردہ حکومت پر دہشت گردی میں‌ ملوث ہونے کا الزام لگانے میں مصروف ہو تو بیرون ملک پاکستانیوں‌کے لیے خاموشی میں ہی عافیت ہے۔

اگر یونہی لکھی گئیں عداوتوں کی سرخیاں
تیرا لہو بھی رائیگاں، میرا لہو بھی رائیگاں

یہ آگ عشق کہ ہے اس سے مہلتیں‌ طلب نہ کر
کہ دیر ہوگئی تو پھر دھواں‌دھواں، دھواں‌دھواں

Filed Under: پاکستان, سياست

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (5)

افتخار اجمل بھوپال

March 6th, 2009 at 12:43 am    


اور کچھ ہو نہ ہو ایک بات تو واضح ہے کہ حفاظتی انتظامات مفقود تھے ۔ یہ کس کی ذمہ داری تھی ؟

محمد وارث

March 6th, 2009 at 2:13 am    


مجھے نہ جانے ایک مقولہ کیوں یاد آتا ہے کہ کامیابی کا ہر کوئی باپ ہوتا ہے اور ناکامیابی یتیم ہوتی ہے۔ ہمارا ملک یتیم ہے افسوس صد افسوس، ایک نیوکلر لیکن ناکامیاب رسیاست، نوشتۂ دیوار واضح تر ہوتا جا رہا ہے اور ہم جیسے ‘کمزور نظر’ والو٘ں کو بھی ان صاف لکھا ہوا نطر آرہا ہے، لیکن نہیں نظر آتا تو ان عقل کے اندھوں‌کو جو چاہے کرسی کے اوپر ہیں‌یا نیچے، ایوان اقتدار کے اندر ہیں‌یا باہر اور خاموشی میں‌عافیت برادرم صرف ‘باہر’ والے نہیں‌ ڈھونڈ رہے بلکہ ہم جیسے ‘اندر’ والو٘ں‌ کا بھی یہی حال ہے!

فیصل

March 7th, 2009 at 10:37 am    


دھواں دھواں دھواں دھواں۔
آگ لگے گی تو دھواں تو اٹھے گا ہی نا جی، اور آگ تو جلا بھی دیتی ہے او جلا کر کندن بھی بنا دیتی ہے۔ شائد یہ آگ ہمیں پہلے نہیں لگی اسی لئے اتنی کثافتیں ہیں۔

جعفر

March 8th, 2009 at 1:09 am    


ہر قوم پر ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے جسے ہم Make or break کہہ سکتے ہیں۔۔ آثار بتارہے ہیں کہ ہمارا بھی وہ وقت آگیاہے۔۔۔ بحران جتنا بڑا ہو اس میں مواقع بھی اتنے ہی بڑے ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم جیسے عامیوں کو تو یہ نوشتہ دیوار نظر آرہا ہے، لیکن ہمارے فیصلہ ساز دھتورا پی کر سو رہے ہیں۔۔۔

منیر عباسی

May 1st, 2009 at 3:00 am    


اس معاملے میں تو مجھے آپ کی رائے کی تصدیق ہوتی نظر آئی۔ پاکستان کے حصے کت ورلڈ کپ والے میچز تو بھارت منتقل کر ہی دیئے گئے ہیں۔

ہماری بورڈ انتظامیہ سرکاری خرچے پر امارات کے مزے کر رہی ہے۔
مجھے نہیں لگتا یہ لوگ شرم سے پانی پانی ہونے والے ہیں۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website