سبز تبصرے

بلاگنگ اور تبصروں کا وہی تعلق ہے جو کسی زمانے میں کرکٹ اور ولز کا ہوا کرتا تھا گو کہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات کی وجہ سے انسان کشی کی ذمہ داری کولا کمپنیوں‌ کو سونپ دی گئی ہے لیکن بلاگنگ اور تبصروں کا تعلق اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔

جہاں تبصرے بلاگ کا ایک بنیادی جزو ہیں وہیں سبز تبصروں کو آپ بلاگنگ کا کینسر کہہ سکتے ہیں۔ سبز تبصروں کی شناخت کوئی مشکل کام نہیں ہے اور عموماَ ولدیت کی عدم دستیابی اور متن کا انوکھا پن آپ اپنا تعارف ہوتا ہے لیکن قارئین کی دلچسپی اور معلومات عامہ کے لیے اس بلاگ میں‌ ہم سبز تبصروں اور ان کی مختلف درجہ بندیوں پر ایک تفصیلی گفتگو کریں‌گے۔

سبز تبصروں کی پہلی قسم کنبھ کے میلے میں بچھڑے ہوئے ان بچوں کی طرح ہوتی ہے جن کے والدین کو ’تلاشنے‘ کے لیے صرف ایک فیملی سانگ یعنی خاندانی گیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ مشرقی پڑوسی ملک {افغانستان سے ہمارے تعلقات جس ڈگر پر چل رہے ہیں قوی امکان ہے کہ کچھ عرصے بعد افغانستان کو بھی پڑوسی ملک کہنا پڑے گا چناچہ پڑوسی ملک کی سمت کا تعین ضروری ہے} میں بننے والی فلموں میں ’خاندانی گیت ملن‘ سے واقف ہیں تو پھر مختلف بلاگز میں‌بکھرے ہوئے ان تبصروں میں گنگنائے جانے والے گیتوں کے بول کی بنیاد پر انکا پورا فیملی ٹری بنا سکتے ہیں۔

سبز تبصروں‌کی دوسری قسم لے پالک بچوں کی طرح ہوتی جو اپنی حقیقی ولدیت سے زندگی بھر نا واقف ہی رہتے ہیں۔ انقلابی خیالات سے آراستہ ان تبصروں کے چی گویرا عموماَ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرسکتے۔ سامراج کو شکست دینے، عظیم مقصد کے حصول اور مفاد عامہ کے پیش نظر جلد از جلد اپنی پرانی شناخت سے پیچھا چڑانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ لاعلاج مرض نہیں‌ اور کسی بھی ماہر نفسیات سے رجوع فرما کر فوری طور پر اس “ملٹپل پرسنیلٹی ڈس آرڈر”‌ سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

سبز تبصروں کی تیسری قسم اپنا گھر کے جھولے میں چھوڑ جانے والے بچوں‌کی مانند ہوتی ہے۔ ان تبصروں‌ کے نا معلوم والدین اپنے طور پر رات کی تاریکی میں یہ تبصرے بلاگ کی دہلیز پر چھوڑ جاتے ہیں‌لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں‌کہ تبصروں‌ کا ڈی این اے نہایت ارزاں اور فوری دستیاب ہوتا ہے اور تقریبا تمام بلاگرز ان تبصروں کے آباء و اجداد سے واقف ہوتے ہیں۔

امید ہے اس تفصیلی درجہ بندی کے بعد بلاگرز سبز تبصروں‌ کو نا صرف پوری طرح‌پہچان سکیں گے بلکہ اپنے بلاگ میں ان کی تشہیر بھی کردیں گے تاکہ خلق خدا ان کے حقیقی والدین کو پہچان سکے اور بلاگنگ کی دنیا کے اس ناسور کے سبسب پیدا ہونے والے فساد کا خاتمہ ممکن ہو۔ ویسے بھی کینسر کو نکال پھینکنا ہی کبھی کبھی واحد علاج ہوتا ہے۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (10)

نبیل

March 3rd, 2009 at 4:53 am    


آپ نے موضوعاتی بلاگنگ کے بارے میں پوسٹ کی تھی اور یار لوگوں نے اسے طالبان کے خلاف پوسٹ سمجھ لیا ہے۔ اور اپنی علمیت کا زعم اتنا کہ جاہل اور منافق کے فتوے دے دے کر دہرے ہو رہے ہیں۔ آپ ایسا کر یں کہ کچھ دنوں کے لیے بہترین بلاگر والی ٹرافی انہیں ادھار دے دیں تاکہ وہ اسے اپنے بلاگ پر سجا لیں۔ شاید اس طرح ان کے دل کو کچھ سکون نصیب ہو جائے۔

نبیل

March 3rd, 2009 at 4:54 am    


ویسے تو مجھے آپ کی اس پوسٹ سے بھی طالبان مخالفت کی بو آ رہی ہے۔ آہم۔۔

ڈفرستان

March 3rd, 2009 at 5:31 am    


تحریر میں ابہام میری سمجھ سے بہت زیادہ ہے
تھوڑی بہت تشریح بھی کر دی جاتی تو۔۔۔
نہیں‌نہیں شکریہ تو ابھی بھی ادا کر رہا ہوں
پھر تھوڑی ”بہت بہت“ بھی لگا دیتا 😀

بلوُ

March 3rd, 2009 at 6:01 am    


لیکن کینسر تو ایسی بیماری ہے جو پھر سے ظاہر ہوجاتی ہے اور پھر جان لے کر ہی جاتی ہے تو بتائیں اس سے کیسے بچا جائے؟؟؟

ڈفرستان

March 4th, 2009 at 2:20 am    


شوکت خانم ہسپتال جا کر 😀

جعفر

March 4th, 2009 at 3:32 am    


راشد صاحب۔۔۔ لگتا ہے آپ کو کچھ مبصروں پر بہت ” وَٹ “ ہے۔۔ ارے صاحب سیدھا سیدھا نام لکھ دیں‌ نا ان کا۔۔۔
معمہ حل کرنے کو دے دیا ہے آپ نے تو ۔۔۔
😆

فیصل

March 4th, 2009 at 12:13 pm    


کمال ہے آپ اتنی جلدی بولڈ ہو گئے، ابھی تو اور کئی تمضے ملنے ہیں۔ باؤنسرز کو آنے دیں، شغل میلہ لگا رہتا ہے۔ ویسے بھی خود پھٹنے سے اچھا ہے کہ بندہ اپنی بھڑاس کمنٹ کر کر کے نکال لے۔ ہی ہی ہی۔

نبیل

March 4th, 2009 at 12:49 pm    


فیصل، لوگ پھٹ ہی تو گئے ہیں۔ ان کے ٹکڑے سیارے پر بکھرے ہوئے مل جائیں گے۔

راشد کامران

March 4th, 2009 at 12:53 pm    


نبیل صاحب۔ بس یہ ایک عجیب معمہ ہے کہ آدمی کیا کہتا ہے اور تان کہاں جا ٹوٹتی ہے۔
ڈفر صاحب۔ آپ نے وہ تو سن رکھا ہوگا۔۔ کچھ باتیں ان کہیں رہنے دو کیونکہ ان کہی باتوں میں‌ گفتگو اضافی ہے۔۔ اس لیے مبہم لہجہ میں بات صرف آپ لوگوں تک پہنچانی مقصود تھی۔
بلو صاحب ۔۔ آپ کو ڈفر صاحب نے علاج کا تو بتادیا۔۔ بس جب تک آدمی بچ سکتا ہے بچے۔۔ کیونکہ کینسر اس وقت مارتا ہے جب آدمی مرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
جعفر صاحب خوش آمدید۔۔ ارے صاحب یہی تو رونا ہے کہ یہ تمام انقلابی بے نام مجاہد ہیں۔
فیصل صاحب۔۔ بولڈ اس لیے ہوگئے کہ اب بیٹنگ سے تھک گئے ہیں‌۔۔ گیند بھی پرانی ہے تو سوچا کیوں نہ ریسورس سوئنگ کرا لی جائے۔


[…] راشد کامران نے ایسے لوگوں کی خرابی کو اپنی ایک تحریر “سبز تبصرے” میں موضوع بنا کر نیک کام کیا ہے۔ ہمارے خیال بھی میں کسی […]

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website