لوگ کیا کہیں گے؟‌

لوگ کیا کہیں گے؟‌ یہ فقرہ ہم میں سے کسی کے لیے اجنبی نہیں یہ وہ سریلا منتر ہے جس کے سحر میں‌کم و بیش دنیا کا ہر معاشرہ گرفتار ہے اور “لوگوں” کے اس بت کی خوشنودی کے لیے نامعلوم کن کن چیزوں کی بلی دی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر غور کریں تو ہمارے بہت سارے چھوٹے بڑے فیصلوں‌ میں لوگوں کی خوشنودی کو اولین درجہ دیا جاتا ہے چاہے اس کے لیے اولاد کی خوشیاں، رشتہ داروں کی قربت، دوستوں کی صحبت، پڑوسیوں کے جذبات اور اپنی پسند کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔

یہ “لوگ”‌ کون ہیں جن کا کہا اتنا اہم ہے کہ انسان صرف اس ایک بت کی خوشنودی کے لیے اپنا آپ تیاگ دینے پر تیار رہتا ہے؟‌ یہ “لوگ”‌ کون ہیں‌ جو انسان کو اس کی بساط سے دس گنا خرچ کرنے پر اکساتے ہیں، بھائیوں کو بہنوں کی جان لینے پر آمادہ کردیتے ہیں، انسان کو جلتے کوئلوں پر چلنے پر مجبور کردیتے ہیں، باپ کے ہاتھوں بیٹیوں کی قبریں کھدواتیں‌ ہیں، پھول جیسی معصوم بچیوں کو رشتے داروں کے جرائم کا کفارہ بناتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے بعدبھی یہ “کہنے” سے باز نہیں‌ آتے۔

کیا ہم خود اس بت کا ایک عضو نہیں؟‌ ہم ہر اس چیز پر دوسرے کی تان اڑاتے ہیں جو ہماری اپنی کمزوری ہوتی ہے۔ لوگوں کا یہ بت ہمارا مشترکہ تراشیدہ ہے، اس کی ہر آنکھ، ہر ہاتھ، ہر خم اور ماتھے پر بنی ہزار لکیروں میں ہمارا ہی چہرہ ہے ہر اس بت کی طرح جو اپنی بقا کے لیے پجاریوں کا محتاج ہوتا ہے، جس کی طاقت پجاریوں کے یقین میں پوشیدہ ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ یقین اس بت کو اتنی قوت عطا کردیتا ہے کہ یہ کوئی زندہ جاوید حقیقت معلوم ہوتا ہے اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشات کے ساتھ۔

Filed Under: معاشرہ

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (8)

میرا پاکستان

January 12th, 2009 at 3:51 pm    


ان لوگوں سے چھٹکارا ممکن ہے اگر تعلیم کا فقدان ختم ہو جائے، سب لوگ اپنی اوقات میں‌رہنا سیکھ لیں، قانون کی بالادستی ہو اور غیرضروری رسم و رواج کو اہمیت نہ دی جائے۔ ہمارے پڑوس میں‌دو پاکستانی بھائیوں ‌نے سادگی سے شادی کی اوربچت کر کے حج پر چلے گئے۔ نہ انہوں‌نے لوگوں‌کی پرواہ کی اور نہ ناک کٹنے کا سوچا۔
ایک املا کی تصیح ۔ بعض کو باز سے بدل لیجیے گا۔

راشد کامران

January 12th, 2009 at 4:20 pm    


افضل صاحب تصیح کا شکریہ۔ میں نے اپ ڈیٹ‌کردیا ہے۔

افتخار اجمل بھوپال

January 12th, 2009 at 11:09 pm    


جناب یہ لوگ کوئی اور نہیں بلکہ ہر انسان کے اپنے اندر چھُپا ہوا ایک فتنہ ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے سوچ کی تبدیلی کی ضرورت ہے جو صرف تعلیم نہیں بلکہ درست تعلیم و تربیت سے ممکن ہے

ابوشامل

January 12th, 2009 at 11:55 pm    


آپ نے بہت خوبی سے ایک اہم معاشرتی رویے کی جانب توجہ دلائی ہے۔

ڈفر

January 13th, 2009 at 12:46 am    


اجمل انکل کی بات بالکل ٹھیک ہے
اس معاشرتی بیماری کا واحد علاج درست تعلیم و تربیت ہی ہے
ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟ 😀

راشد کامران

January 13th, 2009 at 6:45 pm    


آپ تمام حضرات کے تبصروں کے شکریہ۔ بلاشبہ اس بے جا دکھاوے اور خود ساختہ غیرت کے خاتمے کے لیے فرد کی بنیاد پر سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ڈفر

January 14th, 2009 at 12:24 am    


سارے پنجابی زمیندار بننے کے چکروں میں‌ہیں
کتنے ساروں کا تو میں‌خود گواہ ہوں

پا کستا ن بو لتا ہے

January 16th, 2009 at 1:26 pm    


با لکل ٹھیک لیکن کیا کر یں ، جھو ٹی انا بھی تو کو یی چیز ہے!

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website