ہولی کاؤ

اصل فقرہ اتنا ’ہولی‘ نہیں ہے، اچانک کوئی عجیب چیز دیکھ کر عام طور پر امریکیوں کا رد عمل اسی طرح کا ہوتا ہے۔ گائے کا استعمال البتہ محدود ہے، گوبر اور اس سے ملحقہ اعضاء بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں آگے آپ سمجھدار ہیں۔ یونہی انٹرنیٹ گردی کرتے ہوئے پاک فیکٹ کی ایک پوسٹ پر نظر پڑی تو ہمارے دہن سے بھی دو لفظی حیرانگی ٹپک پڑی۔
عموماَ نئے لکھنے والے بلاگرز کو پرانے لکھاری مشورہ دیتے ہیں کہ اول تو دوسروں کی تحریروں کے ریفرنس سے کام چلائیں اور اگر مکمل مضمون کا ’چھاپا‘ ضروری ہو تو ماخذ کی پوری تفصیل ضرور لکھیں، لیکن صاحب یہاں تو قیمت سات روپے روزانہ چھپنے والے اخبارات کی ’جسارت‘ کا یہ حال ہے کہ پورا مضمون ’صحافتی‘ آزادی کی صریح تشریح۔ کیا آپ کو بی بی سی کا حوالہ نظر آیا؟ یا جو کچھ انٹرنیٹ پر ہے مال غنیمت ہے؟

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (4)

نبیل

November 20th, 2008 at 5:20 am    


آپ کی اس پوسٹ کی بدولت ایک اور اچھے بلاگ کے بارے میں پتا چلا۔ اس کے لیے شکریہ۔ جس امر کی اس پوسٹ میں نشاندہی کی گئی ہے اس میں روزنامہ جسارت ہی نہیں بلکہ کئی اور روزناموں سمیت نیٹ پر اردو کی اکثر ویب سائٹس ہیں۔ بی بی سی کے کسی مضمون کی سرخی کو گوگل کرکے دیکھ لیں، اس کی تصدیق ہو جائے گی۔ لگتا ہے کہ سبھی لوگ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے خلا کو بی بی سی کے مواد سے پورا کر رہے ہیں۔

سائیڈ نوٹ: تبصرے کے خانے میں فونٹ کچھ عجیب سا ہو گیا ہے۔ اسے ٹھیک کر لیں۔

افتخار اجمل بھوپال

November 20th, 2008 at 5:21 am    


محترم ۔ کوئی نئی بات نہں بلکہ صدیوں پرانی روائت ہے ۔ اس میں مسلمان پچھلی آدھی صدی سے ملوث ہونا شروع ہوئے ۔ یورپ والے کئی صدیاں اس چوری میں اس طرح ملوث رہے کہ کسی عرب مسلمانوں کی سائینسی دریافتوں کا ترجمہ کر کے اپنے نام لکھ لیا گیا ۔ اسلئے کہ پوچھنے والے مسلمان یا مارے جا چکے تھے یا اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے

نبیل

November 20th, 2008 at 11:29 am    


فونٹ ٹھیک ہے، مجھے ہی غلطی لگی تھی۔ :)

ساجداقبال

November 22nd, 2008 at 1:06 am    


خبر میں بی بی سی کا حوالہ تو ہے لیکن کافی مختصر سا۔ مصنف کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website