دیکھیے آپ کو حکم اذاں ہے اس سے کس کافر یا مسلمان کو انکار ہے مگر اذان میں تحریف کے اختیار پر تو آپ کے اپنے حلقوں میں کافی خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ اب آپ پیامبر کی گردن زنی کا مشورہ بھی دے سکتے ہیں لیکن صفائی میں عرض کروں کے اقبال کی شاعری کی شرعی حیثیت موضوع بحث نہیں۔ آپ پیران پیر حضرت گیلانی کے گدی نشین کو سادہ اردو میں بھی شیطان قرار دے سکتے ہیں اس کے لیے اقبال کو بے وزنی کے اندھے کنویں میں دھکیلنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ ہمیں یونہی ملحد قرار دیں تو بھلا معلوم ہو اس کے لیے اقبالیات کی فالٹ لائن میں فریکنگ کا خطرناک کھیل کھیلنا کیا ضروری ہے؟ حضور آپ کی منافقت تو فیض کی شاعری سے سبز انقلاب لاسکتی ہے یہ اچانک اقبال کیوں؟
]]>ہر ویریبل ہمیں ایمپٹی دکھائی دیتا ہے
جو اب بھی مین تھریڈ سے گزرنے لگتے ہیں
ظالم پوچھتے ہیں تھریڈ خود کش کیوں ہوجاتی ہیں۔ ارے میاں ڈیمن کا فلیگ لگا ہے کبھی؟ جب بنا پوچھے، بغیر بتائے چپ چاپ وہ قلیل سی مدت بھی کسی کنٹرولر صاحب کی خدمت میں پیش کردی جاتی ہے؛ ارے غضب ہے یہ تو، پچھلے پراسیسر سائیکل میں پورے تیس نینو سیکنڈ صاحب نے محض انتظار میں نکال دیے اور ہمارے لیے ٹھینگا؛ عدم مساوات قبلہ!! عدم مساوات!! ڈیمن تھریڈ ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ اپنی پراسسینگ ریسورس کا سودا کرلیا جائے لیکن کرنل صاحب کی بے اعتنائی پر کیا کہوں کہ
اک سزا اور ڈیمن کو سنا دی جائے
یعنی اب کوڈ کو کوڈر کی سزا دی جائے
اس کی خواہش ہے کہ اب کوئی چلتے نا رکے
نان بلاکنگ وقت کی آواز بنا دی جائے
حضور اس صورت میں آپ کیا کرتے ہیں اس کا تو اندازہ نہیں لیکن اپنے کوڈ میں تو وائل کے لوپ ابل رہے ہیں۔ آخر ظلم و زیادتی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ قبلہ اس بار بس پراسیسر ملنے کی دیر ہے اور وہ کیا کہتے ہیں کہ
متاع وقت و تھریڈ چھن گئے تو کیا غم ہے
کہ ہر تھریڈ میں پھنسا دی ہے فار لوپ ہم نے
دیکھیے دلوں کے حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اگر آپ کا گمان یہ ہے کہ اس قصے میں ناک، مچھلی کے کانٹے اور انکم ٹیکس کے دفاتر کے محل وقوع پر بالواسطہ بھی کوئی روشنی ڈالی جائے گی تو عرض ہے کہ ان دو قصوں میں سوائے ہماری شریر طبعیت اور بری صحبت کے کوئی قدر مشترک نہیں یا یوں سمجھیے کہ سجے آلی پالٹیوں کا خوف ثانی الذکر قصے کے سرسری تذکرے سے بھی ہمیں باز رکھتا ہے کہ ہماری دنیا دار نظروں کو راہ میں سوئے دار کے سوا ہر دوسرا مقام جچتا ہے۔
صبر کا پیمانہ تو ان صدیوں کی بات ہے جب فیس بکان متحرک ماورائی داستانوں کے حساب سے بھی بے پر کی مانی جاتی تھیں۔ اب تو بات صبر کے جوہڑوں تک پہنچ چکی ہے اور ماموں کے ذکر کثیف کا سبب ہمارے جوہڑوں کا رساؤ ہی سمجھیے۔ دیکھیے برداشت کی حدیں ہوا کرتی تھیں اب تو برداشت اور بے حسی کی بھرت (Alloy) کا دور ہے جو ہر بات سہنے، سننے اور بھول جانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے لیکن اگر معاملہ اس بھرت کی سختی اور لچک سے بھی آگے بڑھ جائے توتیرا قلندر کدھر جائے؟
]]>محترم دیسی لبرل، خالی صفات و سرکش دہر،
آداب
نامہ دار کی حاضری ہوئی اور وصول پایا آپ کا رقعہ؛ رقعہ کہیے کہ حال دل، سچ پوچھیے تو دل سے شعلہ آہ نکلا؛ اسی سبب دن برباد اور طبعیت مضمحل پاتا ہوں، سوچتا ہوں خدمت باطل میں کچھ حق نذر کروں کہ مشیران اُبہت حق میں راقم کا درجہ اولیٰ ہے۔ “ہوسکتا ہے کہ فسق و فجور سے نکل کر گلشن ہدایت کی سیر کرو”۔
تشکیک کی پوچھتے ہو یا مرض کی خود تشخیصی سے واقف؟ تمہارا بنیادی مسئلہ تہائے ثلاثه ہی ہے؛ تشکیک، تحقیق اور تعمیر تمہاری ذہنی اپچ برخلاف نسخئہ آزمودہ وپسندیدہ یعنی تضحیک، تحقیر اور تنقید۔ قوت یقین کا اعدو شمار کے گورکھ دھندے سے کیا تقابل، علم زنگی سے آلودہ ذہن محض پردہ ظلمات کی تخلیق تک محدود رہتے ہیں۔ ہمارے ایسے آئینہ بند قلوب تاویل و منطق سے معقول نہیں ہوتےبلکہ ایسے شیطانی چکروں کو منعکس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ذہن تقلید کے لیے آمادہ و آراستہ؛ تم پرکھنے میں جان ہلکان کرتے ہو۔
میاں اپنی کہوں تو حال ادھر کابھی مخفی نہیں۔ فلسفہ و سوچ کا ماخذ کہنے کو کچھ، درحقیقت کفچئہ بیہوشی۔ آباء سے منسوب ہر حکایت، حدیث اور آیت میرا سرمایہ اور ان کا ملغوبہ میرا مذہب۔ خلقت مدہوش میری ملت، نقیب شاہان ماضی میری دولت، منافقت میری عدالت، حقائق میری عداوت، غلو میری طریقت اور بربریت میری شجاعت۔ اب اس صورت حال میں تمہارا یہ سوچنا کہ ہم ایسوں کو معقول کرو یا ہمارے پندو نصائح کی ہنسی اڑا سکو تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا شوریدہ سروبخت جواہر کی سوداگری پر مامور؛ الحاصل کہ تمہارے فلسفئہ باطل المعروف معترضانہ تفکر سے ہم کو کچھ سروکار نہیں؛ ہم اپنی لامکانی میں رہیں مست۔
خوش رہو
ایک دیسی قدامت پسند
دیکھیے گیان کے لین دین کی دکان بڑھائے مدت ہوئی؛ اب ذکر یار چلا ہے تو عرض کروں کہ انقلابی اور انقلابچی یوں کہیے کہ
پریتم ہم تم دو ہیں جو کہن سنن میں ایک ۔۔ من کو من سے تولیے تو یک من کبھو نا ہو۔
اب پیشہ ور انقلابچی اسے لفاظی کہیں گے اور سادہ دل؟ انقلاب، جبکہ قلندر کی اپنی ڈے جاب ہے۔ فیض کے نغمے بجا کر سبز انقلاب لائے جائیں گے اور درانتی پکڑا گائے اقبال کے ترانے؛ اب مُوا مورخ اسے انقلابازی نا لکھے تو خاک لکھے؟
]]>قارئین جانتے ہیں کہ ہم کوئی “خلوتی روشن خیال” نہیں بلکہ آؤٹ آف دی کلازٹ دائیں بازو کو چوٹ پہنچانے کی تاک میں رہتے ہیں لیکن اس “تحریر نما” سے آپ کے دماغ میں اگر اس قسم کے بیہودہ خیالات کا گذر ہو کہ ہم خدانخواستہ “فوج نما” یا “مجاہد نما” جیسے کسی موضوع پر طبع آزمائی کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ محض آپ کا ذاتی خیال ہے اور ہم کسی بھی قسم کے “جرم وابستگی” سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ بات بھی محض آپ کی اپنے ذہن کی اختراع ہے کہ اردو میں “مذہبی نما” یا “لبرل نما” جیسی کوئی اصطلاح موجود ہے اور ہماری اس پوری سعی کا مقصد محض اس سطحی بات کو موضوع بحث بنانا ہے۔ اس بات کا اندیشہ بھی موجود ہے کہ آپ ہمارے “مقدمہ نما” کا اطلاق محض ہماری سرکوبی کی خاطر “علامہ نما”، “مولوی نما” یا “مدرسہ نما” جیسی کسی شے پر بھی کریں گے تو ظاہر ہے کہ اس کی نوعیت محض الزام تراشی ہی ہوگی؛ ہاں آپ ہماری “سوچ نما” کو سخت سست کہہ لیں تو کوئی اعتراض نہیں کہ اسکی چوتھی طرف ہم خود جو موجود ہیں۔
]]>یوسفی صاحب کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا ایسا ہی ہے جیسے صدر مکرم جمہوریہ کا انسداد بدعنوانی کی مہم میں حصہ لینا، اسرائیلی وزیر اعظم کا نسل کشی کے خلاف مرن ورت رکھنا یا کسی اردو بلاگر کا اپنی تحریروں کو دلیل سے مزین کرنا لیکن جس قسم کی نرگسیں آج کل بین ڈالنے کے قومی اداروں سے منسلک ہیں ایسی صورت میں ہمارے جیسے دیدہ ور کی پیدائش کو بھی خداداد ہی سمجھیے اور بقول طارق عزیز(الیکٹرا والے) تھوڑا کہے کو بہت جانیے ۔
یوسفی صاحب کی تحریروں کا مزاج ایسا ہے کہ نا تو یہ نصاب میںشامل کی جاسکتی ہیںاور نا ہی طالبانی طرز کی حکومتیں بھی ان پر پابندی لگانے کی کوئی راہ نکال سکتی ہیں نصاب کی موجودہ صورت حال سے یہ اندازہ لگانے میں قطعا کوئی دشواری نہیںہونی چاہیے کہ مضامین یوسفی کو سمجھنے کے لیے جن دماغی خلیوںکی موجودگی ایک ضروری امر ہے ہمارے ” ارباب نصاب” خصوصی طور پر ایسے جینیاتی عمل کے ذریعے پیدا کیے جاتے ہیں جہاںاس قسم کے کسی خلیے کی پیدائش اتنی ہی دشوار ہوگی جیسے ایران میں ہم جنسوں کی موجوگی۔ اور مذکورہ حکومتوں کا تو رونا ہی کیا وہ کسی بھی قسم کے دماغی خلیوںکی پیدائش کو ایک غیر شرعی فعل سے تعبیر کرتی ہیں جو اس مخصوص صورتحال میں باعث رحمت سمجھا جانا چاہیے۔ یوسفی صاحب کے بارے میں کچھ ناقدین کی رائے یہ بھی ہے کہ وہ تاریخ، مذہب اور سیاست کے موضوعات سے دانستہ اجتناب برتتے ہیں ایسے ناقدین کے بارے میں یوسفی صاحب کے الفاظ میں عرض کروں توں انہوں نے مضامین یوسفی بھی اسی طرح پڑھے ہیں جیسے قران و حدیث۔
مسئلہ کافی پر چائے کی برتری کا ہو یا کاربار کتب خانہ۔ تاریخی لڑائیاں ہوں یا دوستوں کی پھبتیاں۔ تذکرہ مغل بچے کا ہو یا ہینری ہشتم کا، آغوش یوسفی میں یہ ایسے پروان چڑھتے ہیں کہ پھر کسی بدنظر کا اثر ان پر نہیں ہونے پاتا لیکن اب کہ یہ آب گم ہوا تو اُس کے بعد سوکھا ہے کئی نسلوں تک۔
]]>